۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء کو پنجاب کے شیخ زاید اسلامک سنٹر کی بیسویں سالانہ تقریبات کے موقع پر ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جو ’’اجتہاد‘‘ کے موضوع پر تھا۔ سنٹر کی ڈائریکٹر محترمہ ڈاکٹر شوکت جمیلہ صاحبہ کی دعوت پر راقم الحروف نے ’’دور حاضر میں اجتہاد کی ضرورت اور اس کے دائرہ کار‘‘ کے موضوع پر ایک تفصیلی مضمون اس سیمینار میں پڑھا جس میں اس سوال کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ہے؟ اور اجتہادی حوالہ سے اس وقت علمی حلقوں میں جو سرگرمیاں جاری ہیں ان میں کس قسم کی تبدیلیوں اور اضافوں کی ضرورت ہے؟ یہ مضمون ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے اپریل ۲۰۰۳ء کے شمارے میں شائع ہو رہا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
سیمینار کی ایک نشست کی صدارت پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر محترم ڈاکٹر رفیق احمد نے اور دوسری نشست کی صدارت بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے نائب صدر جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کی اور متعدد ارباب علم و دانش نے ان دو نشستوں میں اس اہم ترین موضوع پر شرکائے مذاکرہ کو اپنے گراں قدر ارشادات سے نوازا جن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان اور شریعہ اکادمی فیصل مسجد اسلام آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
مگر اس وقت ہمیں محترم ڈاکٹر رفیق احمد کے ایک انکشاف کے حوالہ سے کچھ عرض کرنا ہے جو انہوں نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا اور حاضرین کو یہ بتا کر چونکا دیا کہ وہ ایک موقع پر جب یورپ کے ملک ناروے میں گئے تو معلوم ہوا کہ اس ملک میں بچوں کے لیے ’’عمر الاؤنس‘‘ کے نام سے سرکاری طور پر ایک وظیفہ جاری ہے۔ انہوں نے تھوڑا سا تجسس سے کام لیا تو انکشاف ہوا کہ بچوں کی بہبود کے لیے اس وظیفہ کا تصور مسلمانوں کے خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نظام سے لیا گیا ہے اور اسی وجہ سے انہی کے نام پر اسے عمر الاؤنس کا نام دیا گیا ہے۔
ہم اس سے قبل ایک مضمون میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس افتخار احمد چیمہ صاحب کے حوالہ سے ذکر کر چکے ہیں کہ برطانیہ میں اس وقت ویلفیئر اسٹیٹ کا جو نظام رائج ہے اور جس کے تحت بے روزگاروں، ضرورت مندوں اور معذوروں کو ریاست کی طرف سے گزارہ الاؤنس ملتا ہے اس نظام کو ترتیب دینے والے برطانوی دانشور سے جسٹس چیمہ کی اس دور میں ملاقات ہوئی تھی جب وہ برطانیہ میں زیر تعلیم تھے۔ اور اس ملاقات میں مذکورہ برطانوی دانشور نے انہیں بتایا تھا کہ ’’ویلفیئر اسٹیٹ‘‘ کا یہ تصور انہوں نے حضرت عمرؓ کے نظام سے لیا اور اس کی بنیاد پر ایک پورا سسٹم مرتب کر دیا جو اس وقت برطانیہ میں رائج ہے اور جس کی وجہ سے برطانیہ کو عوام کی فلاح و بہبود کے حوالہ سے باقی ممالک سے امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہریوں کے جان و مال اور آبرو کے تحفظ بلکہ روزگار اور کفالت کی ضمانت کے حوالے سے جو آئیڈیل نظام دنیا کے سامنے پیش کیا ہے وہ رہتی دنیا تک نسل انسانی کے لیے راہنمائی کا روشن مینار رہے گا۔ لیکن بدقسمتی سے دنیا کی کافر اقوام اس سے استفادہ کر رہی ہیں مگر مسلم ممالک کی صورتحال دیکھیں تو شرم کے مارے سر زمین کی طرف جھک جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا یہ نظام ان کا خود ساختہ نہیں تھا بلکہ وہی نظام تھا جو جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا اور ان کے جانشین حضرت ابوبکرؓ کے دور میں بھی نافذ العمل رہا۔ مگر ان کے دور میں چونکہ جنگوں اور ارتداد کے فتنوں کے ساتھ زیادہ کشمکش رہی اس لیے اس نظام کو ایک مکمل اور مربوط عملی شکل دینے کا موقع نہ مل سکا اور یہ سعادت حضرت عمرؓ کو حاصل ہوئی۔ اس لیے کہ انہیں اطمینان کے ساتھ دس سال تک زمین کے ایک بڑے خطے پر حکومت کرنے کا موقع ملا اور جناب سرور کائناتؐ کی تعلیمات و ارشادات کو ایک مربوط نظام کی صورت میں سوسائٹی پر لاگو کرنے کے مواقع میسر آئے۔
حضرت عمرؓ نے نے بے روزگاروں، ضرورت مندوں اور معذوروں کے وظائف مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی بطور خاص وظائف مقرر فرمائے تاکہ ان کی پرورش اور تربیت صحیح طور پر ہوتی رہے۔ ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے بیت المال سے وظیفہ جاری ہوتا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ بھی مشہور ہے کہ یہ وظیفہ بچے کو اس وقت ملنا شروع ہوتا تھا جب وہ ماں کے دودھ سے بے نیاز ہو کر خارجی خوراک کا محتاج ہو جاتا تھا۔ اور اس کے لیے وظیفہ کے اجراء کی غرض یہ تھی کہ گھر میں ایک فرد کے اخراجات کے اضافہ پر ماں باپ مزید بوجھ محسوس نہ کریں اور انہیں اس سلسلہ میں وظیفہ کی صورت میں کچھ معاونت مل جائے۔ حضرت عمرؓ کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ ایک روز وہ رات کے وقت مدینہ منورہ میں معمول کے مطابق گشت کر رہے تھے۔ یہ گشت لوگوں کے احوال معلوم کرنے کے لیے ہوتا تھا اور حضرت عمرؓ اپنے اہل کاروں یا خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں پر انحصار کرنے کی بجائے خود گلیوں بازاروں میں گھوم کر عام شہریوں کے حالات معلوم کیا کرتے تھے۔ وہ اسی معمول کے گشت پر تھے کہ ایک گھر سے معصوم بچے کے رونے کی آواز آئی۔ وہ اسے عام سی بات سمجھ کر آگے بڑھ گئے، تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ اس گھر کے سامنے سے گزر ہوا تو اس بچے کا رونا ابھی جاری تھا۔ پھر یہ سمجھ کر چلے گئے کہ بچے رویا ہی کرتے ہیں۔ اتفاق سے تھوڑی دیر کے بعد تیسری بار اس گھر کے سامنے سے گزرے تو بچے کے رونے کی آواز پھر آرہی تھی۔ اب حضرت عمرؓ گھر کے دروازے پر رک گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے ایک خاتون کی آواز آئی کہ کون ہے؟ پوچھا کہ بچہ مسلسل کیوں رو رہا ہے؟ خاتون نے کہا کہ ماں بچے کو دودھ نہیں پلا رہی اس لیے رو رہا ہے۔ حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ ماں بچے کو دودھ کیوں نہیں پلا رہی؟ اس نے جواب دیا کہ امیر المومنین نے بچوں کے وظیفے کے لیے شرط لگا رکھی ہے کہ جب وہ ماں کا دودھ چھوڑ کر خارجی خوراک کا استعمال شروع کر دے تو پھر اس کا وظیفہ جاری کیا جائے گا اس لیے بچے کی ماں اس کا دودھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ خارجی خوراک کا عادی ہو اور اسے پیش کر کے اس کا وظیفہ جاری کرایا جا سکے۔
روایات میں آتا ہے کہ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنی پیشانی پکڑ لی اور خود سے مخاطب ہو کر بولے کہ ’’عمر! تم نے کتنے معصوم بچوں کو اس طرح رلایا ہوگا؟‘‘ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے اس عورت سے کہا کہ وہ خود امیر المومنین عمرؓ ہیں، اس بچے کی ماں سے کہہ دیں کہ وہ اسے دودھ پلائےا ور صبح اسے میرے پاس لے آؤ اس کا وظیفہ جاری کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اگلے روز صرف اس بچے کا وظیفہ جاری نہیں ہوا بلکہ امیر المومنین نے اپنے سابقہ آرڈر میں یہ کہہ کر ترمیم کر دی کہ بچے کے وظیفے کے لیے ماں کا دودھ چھوڑنے کا انتظام نہ کیا جائے بلکہ پیدا ہوتے ہی اس کا وظیفہ جاری کر دیا جائے۔
بچوں کو یہ وظیفہ برطانیہ میں بھی ملتا ہے اور اتنا مل جاتا ہے کہ اگر کسی گھر میں پانچ سات بچے ہوں تو ان کے وظیفے پر گھر کا گزارہ ’’غریبی دعوے‘‘ کے مطابق آسانی سے ہو جاتا ہے۔ ہمارے محترم بزرگ اور ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری لندن میں وائٹ چیپل کے علاقہ میں رہتے ہیں، اس علاقہ میں بنگالیوں کی آبادی کثرت سے ہے۔ ایک روز میں نے مولانا منصوری سے پوچھا کہ آپ کے اردگرد جو بنگالی حضرات رہتے ہیں وہ کام کاج کیا کرتے ہیں؟ مولانا بے تکلفی سے بولے انہیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہر ایک کے آٹھ آٹھ دس دس بچے ہیں بس ان کا وظیفہ مل جاتا ہے اور وہ اس سے گزارہ چلا لیتے ہیں۔
برطانیہ میں تو بچوں کے اس وظیفے کا مجھے علم ہے بلکہ ایک لطیفہ اور بھی اس حوالہ سے ملاحظہ فرمائیں کہ برمنگھم میں ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ان کے بچے نے کسی چیز کا تقاضا کیا تو انہوں نے ٹالنے کی کوشش کی کہ میرے پاس گنجائش نہیں ہے۔ اس پر وہ بچہ فورًا بولا کہ آپ نے کون سا اپنی جیب سے مجھے یہ چیز لے کر دینی ہے، میرا وظیفہ جو حکومت کی طرف سے آپ کو ملتا ہے اس میں سے مجھے یہ چیز لے کر دے دیں۔
محترم ڈاکٹر رفیق احمد سے معلوم ہوا کہ یہ وظیفہ ناروے میں بھی دیا جاتا ہے اور حضرت عمرؓ کے نام سے جاری ہے۔ اس میں جہاں اسلام کے عادلانہ نظام کی برکات اور حضرت عمرؓ کے عدل و انصاف کا تصور اجاگر ہوتا ہے وہاں ہمارے لیے یہ شرم او رعبرت کا مقام بھی ہے کہ اسلامی نظام کی برکات اور افادیت کے پہلو تو دوسروں نے سنبھال لیے ہیں اور ہم محض ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نعروں پر گزارہ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔