۲۷ مئی کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا جس کی صدارت مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے کی اور اس میں مولانا موصوف کے علاوہ راقم الحروف اور عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے حضرت کو خراج عقیدت پیش کیا جبکہ اکادمی کے اساتذہ، طلبہ اور معاونین کے ساتھ ساتھ شہر کے بہت سے علماء کرام اور اہل دانش نے بھی شرکت کی۔ مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے اپنے استاذ محترم کے ساتھ دورِ طالب علمی سے وابستہ یادوں کا تذکرہ کیا اور عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔ عمار ناصر نے اپنے دادا محترم کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا اور راقم الحروف نے والد محترم کی زندگی کے مختلف حالات اور ان کی تگ و تاز کے دائروں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا جس کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم عام طور پر ایک محاورہ سنتے اور پڑھتے ہیں جو کسی بڑی شخصیت کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے بولا جاتا ہے کہ ’’وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے‘‘۔ میں کسی مبالغہ اور جذباتیت کے بغیر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج کے دور میں اس محاورہ کے سب سے بڑے مصداق حضرت والد محترم تھے جن کی جدوجہد اور تگ و تاز کے مختلف شعبوں اور دائروں کا تذکرہ بھی اچھا خاصا وقت لے لیتا ہے۔ مثلاً وہ ایک مسجد کے امام و خطیب تھے، انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کرنے کے بعد گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر واقع ایک مسجد کی امامت و خطابت ۱۹۴۳ء میں سنبھالی جسے مسجد بوہڑ والی کہا جاتا تھا اور ۲۰۰۰ء تک مسلسل یہ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ وہ اپنی ڈیوٹی کے پوری طرح پابند امام تھے، پانچ وقت کی نماز خود پابندی سے پڑھاتے تھے اور عین وقت پر ان کا مصلیٰ پر موجود ہونا ضرب المثل بن چکا تھا۔ کسی شدید مجبوری کے بغیر چھٹی اور ناغے کا ان کے ہاں تصور تک نہ تھا، سردی ہو یا گرمی، بارش ہو یا آندھی وہ اپنے وقت پر نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں موجود ہوتے تھے۔
پانچ وقت نمازوں کی امامت اور جمعہ کے خطبہ و نماز کے علاوہ روزانہ فجر کی نماز کے بعد درس ان کے معمولات کا حصہ تھا۔ ہفتہ میں تین دن قرآن کریم کا اور تین دن حدیثِ نبویؐ کا درس ہوتا تھا جس کے لیے وہ باقاعدہ تیاری کرتے تھے۔ انہوں نے گکھڑ کے لوگوں کو کئی بار قرآن کریم ترجمہ و تفسیر کے ساتھ سنایا اور حدیثِ نبویؐ کے باب میں صحاح ستہ کی ساری کتابوں کے علاوہ مسند ابن حبان، مجمع الزوائد، الجامع الصغیر، مستدرک حاکم اور متعدد دیگر کتب احادیث بھی انہوں نے اپنے نمازیوں کو سبقاً سبقاً سنائیں۔
ان کا دوسرا دائرہ کار تدریس کا تھا۔ ۱۹۴۳ء سے ۱۹۵۲ء تک وہ گکھڑ کی اسی مسجد میں درسِ نظامی کے اسباق پڑھاتے تھے، مختلف علاقوں سے طلبہ جمع ہوجاتے تھے، پرانے رواج اور طریقہ کے مطابق گکھڑ کے لوگ انہیں کھانا مہیا کر دیتے تھے اور طلبہ مسجد میں رہائش رکھتے تھے۔ اس زمانہ میں حضرت والد محترم کا سب سے بڑا مشغلہ تدریس ہوتا تھا، وہ صبح نماز فجر سے عشاء کی نماز کے بعد تک مسلسل پڑھاتے تھے اور بسا اوقات ایک ایک دن میں تیس تیس اسباق بھی پڑھاتے تھے۔ ۱۹۵۲ء کے دوران گوجرانوالہ میں ان کے برادر صغیر حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی نے مدرسہ نصرۃ العلوم قائم کیا تو وہ اس کی تدریس سے وابستہ ہوگئے اور ۲۰۰۰ء تک مسلسل روزانہ گوجرانوالہ جا کر اسباق پڑھاتے رہے۔ ابتداء میں ایک عرصہ تک ریل گاڑی سے آتے جاتے تھے، گھر سے ریلوے سٹیشن تک پیدل جانا اور گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن سے مدرسہ نصرۃ العلوم تک پیدل آنا جانا سالہا سال تک ان کا معمول رہا۔ پھر کئی برس تک بسوں کے ذریعے آنا جانا رہا اور پھر ایک وقت آیا کہ مدرسہ نصرۃ العلوم نے گاڑی لے لی جو انہیں گکھڑ سے لے آتی تھی اور اسباق سے فراغت کے بعد گھر چھوڑ آتی تھی۔
ان کا دن کا پہلا پہر گوجرانوالہ آنے جانے اور مدرسہ کے اسباق میں گزر جاتا تھا۔ دوپہر تک واپس آتے، کھانا کھاتے، اخبار پڑھتے اور ظہر تک آرام کرتے۔ ظہر سے عصر تک ان کا ایک اور تعلیمی سلسلہ ہوتا تھا کہ گکھڑ کے مختلف گھرانوں کی بچیاں ان سے قرآن کریم کا ترجمہ اور درسِ نظامی کے اسباق پڑھتی تھیں۔ا س دور میں جبکہ ملک میں طالبات کے دینی مدارس کا ماحول نہیں تھا گکھڑ کے بیسیوں گھرانوں کی بچیوں نے ان سے تعلیم حاصل کی۔ خود ہماری بہنوں نے بھی ان سے تعلیم حاصل کی اور بحمد اللہ تعالیٰ وہ مسلسل پڑھا رہی ہیں۔
اس کے علاوہ ان کا تدریس کا ایک اور سلسلہ بھی تھا کہ گکھڑ میں اساتذہ کی ٹریننگ اور تربیت کا ایک ادارہ بہت عرصہ سے چلا آرہا ہے جو عام حلقوں میں نارمل اسکول کہلاتا ہے، وہاں وہ زیرتربیت اساتذہ کو جو عام طور پر سی ٹی، ایس وی، جے وی وغیرہ کورسز کے ہوتے تھے، روزانہ سبقی انداز میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ موسم گرما میں عصر کی نماز کے بعد اور سردیوں میں عشاء کی نماز کے بعد یہ درس ہوتا تھا جس سے ہزاروں اساتذہ نے استفادہ کیا اور اب ملک کے مختلف حصوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ان کی جدوجہد کا تیسرا دائرہ تالیف و تصانیف کا ہے جس میں انہوں نے مختلف علمی موضوعات پر پچاس کے لگ بھگ تصانیف یادگار کے طور پر چھوڑی ہیں۔ ان کی تصانیف کے علمی معیار، اندازِ تحریر کی سنجیدگی اور اسلوبِ تحقیق کی ثقاہت پر ان کے مخالفین بھی انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے تھے۔ وہ ایک ایک حوالہ کے لیے کئی کئی لائبریریاں چھانتے اور ایک ایک نکتہ کے لیے گھنٹوں مطالعہ کرتے۔ گزشتہ دنوں ایک محفل میں چند اہل دانش گفتگو کر رہے تھے کہ وہ زندگی میں اور کوئی کام نہ کرتے تو صرف ان کی کتابیں بڑی بڑی اکیڈمیوں کی اجتماعی محنت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں اور بلامبالغہ ان کتابوں سے ہزاروں لوگوں کے عقائد و افکار کی اصلاح ہوئی۔
حضرت والد محترم کی محنت اور جدوجہد کا چوتھا دائرہ تحریکی تھا۔ انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں ایک طالب علم کے طور پر جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے مسلسل حصہ لیا۔ وہ اجتماعات اور اجتماعی مظاہروں میں شریک ہوتے تھے اور تحریکِ آزادی میں اپنا حصہ ڈالتے تھے۔ ۱۹۴۱ء میں دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کو تحریکِ آزادی میں سرگرم کردار کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تو اس گرفتاری کے خلاف دیوبند میں طلبہ کے احتجاجی جلوس اور تحریک کی قیادت انہوں نے ہی کی تھی۔ یہ مظاہرے کئی روز جاری رہے، دارالعلوم دیوبند کا تعلیمی نظام معطل ہوگیا اور بالآخر جمعیۃ علماء ہند کے قائد حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کی مداخلت پر تعلیمی سلسلہ بحال ہوا۔ حضرت مفتی صاحب کے ساتھ ان مذاکرات میں بھی طلبہ کی نمائندگی مولانا محمد سرفراز خان نے کی۔ وہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں گرفتار ہوئے اور کم و بیش دس ماہ تک ملتان سنٹرل جیل میں رہے۔ اسی دوران انہیں جیل میں خواب کے دوران سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی اور اسی جیل میں انہوں نے ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کی کتاب ’’دو اسلام‘‘ کا جواب ’’صرف ایک اسلام‘‘ لکھا جس پر انہیں خود ڈاکٹر برق مرحوم نے بھی دوسرے ایڈیشن میں خراجِ تحسین پیش کیا۔
حضرت والدِ محترم ایک عرصہ تک جمعیۃ علماء اسلام ضلع گوجرانوالہ کے امیر رہے اور جمعیۃ کے اجتماعات اور پروگراموں میں مسلسل شریک ہوتے رہے۔ اسی حیثیت سے انہوں نے ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیٰ میں قائدانہ کردار ادا کیا اور اسی دوران گکھڑ میں وہ تاریخی واقعہ پیش آیا کہ ان کی قیادت میں مرکزی جامع مسجد سے نکلنے والے ایک جلوس کو روکنے کے لیے فیڈرل سکیورٹی فورس کے کمانڈر نے سڑک پر ایک لکیر کھینچ کر وارننگ دی کہ جس نے یہ لائن عبور کی اسے گولی مار دی جائے گی، اس کے ساتھ ہی فورس کے جوانوں نے فائرنگ کے لیے پوزیشنیں سنبھال لیں لیکن حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ کہتے ہوئے وہ لکیر عبور کر گئے کہ مسنون عمر تریسٹھ سال پوری کر چکا ہوں اور اب شہادت کی تمنا رکھتا ہوں۔
اس کے علاوہ بھی ان کی زندگی کے مختلف دائرے ہیں جن میں سے ہر ایک کے مستقل تذکرہ کی ضرورت ہے اور ان شاء اللہ یہ تذکرہ مختلف حوالوں سے مسلسل ہوتا رہے گا۔