امریکہ میں قادیانی گروہ کی سرگرمیوں کے بارے میں گزشتہ کالم میں مختصرًا کچھ عرض کر چکا ہوں مگر اس پر قدرے تفصیل کے ساتھ غور و فکر اور سوچ بچار کی ضرورت ہے، اس لیے کہ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں قادیانی سرگرمیوں کا دائرہ وسعت پکڑتا جا رہا ہے حتیٰ کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا میں بھی ان دنوں مسلم قادیانی کشمکش زوروں پر ہے۔ نیویارک سے شائع ہونے والے جریدہ ’’ایشیا ٹربیون‘‘ کے جولائی ۲۰۱۱ء کے آخری شمارے کی ایک خبر کے مطابق وہاں مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان تنازعے میں ملوث بعض مسلم راہنماؤں کو عدالت کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کو قادیانی نواز حلقوں کی توقعات سے کم سمجھتے ہوئے اس پر احتجاج کیا جا رہا ہے اور احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا کی حکومت اس تنازعے میں قادیانیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ساتھ لچک اور طرفداری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انڈونیشیا میں مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان کشمکش کا مجموعی ماحول کیا ہوگا۔
دراصل ہم نے ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ سے غیرمسلم اقلیت قرار دلوا کر اور ۱۹۸۴ء میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس نافذ کرا کے یہ سمجھ لیا ہے کہ مسئلہ حل ہوگیا ہے اور اب ہماری ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ ان دستوری اور قانونی فیصلوں کی حفاظت کرتے رہیں اور ان پر عملدرآمد کا حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے رہیں۔ بلاشبہ یہ کام بھی ضروری ہے اور میں خود مختلف تحریکات میں اس مقصد کے لیے سرگرم عمل چلا آرہا ہوں۔ جبکہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ قادیانی گروہ ان دونوں فیصلوں کو تسلیم کرنے سے اب تک انکاری ہے اور نہ صرف عالمی سیکولر حلقے اس میں مکمل طور پر ان کے ساتھ ہیں بلکہ سیکولر مزاج مسلم حکومتوں کی پالیسی کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ اقوامِ متحدہ، مغربی حکومتوں، یورپی پارلیمنٹ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے عالمی اداروں کی مسلسل مہم ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور انہیں اسلام کے نام پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے سے قانوناً روک دینے والے ان فیصلوں کو کسی نہ کسی طرح ختم کرایا جائے۔ ان کے پاس اس مہم کا سب سے بڑا جواز یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ فیصلے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے خلاف ہیں، اور ان کے بقول ان فیصلوں کے ذریعے قادیانیوں کے سیاسی، شہری اور انسانی حقوق پامال ہوتے جا رہے ہیں۔
لیکن ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی کسی جماعت کو اس بات کی توفیق نہیں ہے کہ وہ اس عالمی مہم اور دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرے۔ ہماری تقاریر، بیانات، قراردادوں اور مضامین کا دائرہ ابھی تک وہی ہے کہ رٹی ہوئی تقاریر بار بار دہراتے جا رہے ہیں اور ایک ہی مضمون کی قراردادیں ہر اجتماع میں منظور کرا کے ان کا تھوڑا بہت حصہ قومی اخبارات میں شائع ہو جانے پر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ صرف اتنے سے کام پر ہم لوگ جو تحریک ختم نبوت کے کسی نہ کسی شعبے میں خود کو سرگرم عمل رکھنے کی کوشش کرتے ہیں خود کو عند اللہ اور عند الناس سرخرو قرار دلوا سکیں گے۔ میرے خیال میں اس سلسلہ میں دو محاذوں پر کام کو فوری طور پر منظم کرنے کی ضرورت ہے:
- ایک یہ کہ اس سلسلہ میں سیکولر لابیوں اور قادیانیوں کی طرف سے عالمی سطح پر ہونے والے کام کے بارے میں معلومات جمع کی جائیں اور دنیا بھر میں قادیانیوں اور ان کے ہمنواؤں کی سرگرمیوں کو واچ کر کے ایک جامع رپورٹ مرتب کی جائے جس کی روشنی میں ان سرگرمیوں کا سامنا کرنے اور ان کی روک تھام کے لیے مربوط اور مضبوط حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ میری رائے میں صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ ہم مغربی اداروں اور لابیوں سے صرف اردو پریس میں ان کی قادیانیت نوازی پر احتجاج کر کے خوش ہوتے رہیں۔ بلکہ ان اداروں اور لابیوں تک ہماری براہ راست رسائی ضروری ہے اور ان کو اپنے موقف سے آگاہ کرنا اور دلیل و منطق کے ساتھ قائل کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ میڈیا اور لابنگ آج کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ لابنگ اور فائل ورک ہمارے نزدیک بے کار محنت شمار ہوتی ہے اور میڈیا کی عالمی سطح تک رسائی کی بات سوچنے کے لیے بھی ہم تیار نہیں ہیں۔
ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم یہ سارے کام صرف اپنے دائرے میں اور اپنی محدود صلاحیت کی حدود میں ہی کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مزاج یہ بن گیا ہے کہ جو کام ہم اپنی صلاحیت و استعداد کے دائرے میں کر سکتے ہیں اسی کو ضروری سمجھتے ہیں اور جس دینی، قومی اور تحریکی کام کے بارے میں یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ یہ کام شاید ہم خود نہ کر سکیں گے اور اس کے لیے دوسرے طبقات اور حلقوں سے تعاون حاصل کرنا پڑے گا، وہ کام سرے سے ہمارے نزدیک ضروریات کے دائرے سے ہی خارج ہو جاتا ہے، کیونکہ اس صورت میں اس کام پر خود ہمیں اپنی گرفت کمزور پڑتی نظر آنے لگتی ہے۔
- دوسرا دائرہ کام کا میرے نزدیک یہ ہے کہ جو لوگ قادیانیت کے فریب کا شکار ہو کر اس میں پھنس جاتے ہیں انہیں مستقل دشمن قرار دینے کی بجائے ’’فریب خوردہ‘‘ سمجھ کر ہم انہیں اس دام فریب سے نکالنے کا راستہ اختیار کریں۔ قادیانی گروہ کے مبلغین اپنی بات سمجھانے کے لیے دلائل کے مکروفریب کا جو جال بچھاتے ہیں، عام مسلمان تو ایک طرف درمیانے درجے کا کوئی عالم بھی اس کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ اور اگر کسی مرحلہ میں کسی قادیانی مبلغ سے کسی اختلافی مسئلہ پر گفتگو کی ضرورت پڑتی ہے تو اچھے خاصے علماء کرام اس سے گھبراتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ قادیانیت کے دجل و فریب سے اچھی طرح واقفیت رکھنے والے کسی عالم دین کی خدمات حاصل کی جائیں۔ سوال یہ ہے کہ قادیانی مبلغین کے مکر و فریب سے محفوظ رہنے کے لیے علماء کرام کے حلقوں اور دینی طبقوں میں اس احتیاط کو ملحوظ رکھا جاتا ہے تو اس ماحول میں اگر کوئی عام مسلمان ان کے مکروفریب کا شکار ہو کر ان کے دام میں پھنس جائے تو اسے ہم مکمل طور پر اس کے حوالے کر دینے کی پالیسی پر کیوں عمل پیرا ہیں، اور اس بات کو اپنی دینی ذمہ داری کیوں نہیں سمجھتے کہ اس سے رابطہ کریں اور سمجھانے اور سمجھا کر واپس لانے کے جو تقاضے ہیں وہ پورے کریں۔
فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ کوئی شخص مرتد ہو جائے تو ایک اسلامی حکومت میں اسے موت کی سزا دی جائے گی۔ لیکن اس کے لیے تین دن کی مہلت دی جائے گی اور ان تین دنوں میں حکومت اس کا پوری طرح اہتمام کرے گی کہ اسے سمجھانے اور اس کے شکوک و شبہات دور کرنے کے لیے اسے اس درجہ کے علماء کرام مہیا کرے اور پوری طرح اتمام حجت کرنے کے بعد اس کے انکار پر سزا نافذ کرے۔ یہ تو حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کوئی مسلمان قادیانیوں کے یا کسی بھی دوسرے مذہب کے فریب کاروں کے ہتھے چڑھ کر مغالطے اور فریب کا شکار ہو جاتا ہے تو دینی جماعتوں او رحلقوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اسے پہلے مرحلہ میں ہی کفر کے حوالے نہ کر دیں بلکہ اسے سمجھانے، اس کے شکوک و شبہات کے ازالے اور اس حوالے سے اتمام حجت کا پوری طرح اہتمام کریں۔
ملک کے دینی مراکز بالخصوص تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں سے میری گزارش ہے کہ وہ ان دو گزارشات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں تاکہ ہم اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا کر سکیں۔