ایک قومی اخبار نے ۱۲ جون کو ثنا نیوز کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر انسانوں کی سمگلنگ کے بارے میں اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کا خلاصہ شائع کیا ہے، جو جنیوا میں جاری ہوئی ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ
”اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ انسانوں کی تجارت جدید دور میں غلامی کی ایک شکل ہے اور یہ لعنت دنیا کے ہر علاقے میں موجود ہے۔ محنت و مشقت اور جنسی استحصال کے لیے مردوں، عورتوں اور بچوں کی اسمگلنگ اور ان کی خرید و فروخت مجرموں کے منظم گروہوں کے لیے پیسہ بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ انسانی تجارت کا شکار ہونے والی لڑکیوں کو مکروہ دھندے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ انسانوں کی تجارت جتنی زیادہ عام ہے، اتنی ہی اس کے بارے میں معلومات کم ہیں۔ یہ گھناؤنا کاروبار اس قدر چوری چھپے کیا جاتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کتنے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں، لیکن انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے اندازہ لگایا ہے کہ سات لاکھ سے چالیس لاکھ تک انسان ہر سال بین الاقوامی سرحدوں کے آر پار پہنچائے جاتے ہیں۔‘‘
انسانوں کی تجارت قدیم دور سے جاری ہے اور ہر زمانے میں اس کی کوئی نہ کوئی شکل موجود رہی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت بھی یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری تھا۔ خود نبی اکرمؐ کے صحابہ کرامؓ میں سے حضرت زید بن حارثہؓ، جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور جو واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن کریم میں موجود ہے، اسی انسان فروشی کے باعث غلام بنے تھے اور فروخت ہوتے ہوتے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت غلامی تک پہنچے تھے۔ پھر آنحضرتؐ نے انہیں آزاد کر کے منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے منہ بولے رشتوں کو اسلامی شریعت میں سند جواز فراہم نہیں کی اور ان رشتوں کی نفی کا آغاز زید بن حارثہؓ سے ہی ہوا، جو زید بن محمد کہلانے لگے تھے اور ان کی نسبت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ”ابو زید“ کہا جانے لگا تھا۔ وہ ایک آزاد خاندان کے فرد تھے، مگر بردہ فروشوں نے انہیں زبردستی پکڑا اور غلام بنا کر بیچ دیا تھا۔
حضرت سلمان فارسیؓ بھی اسی بردہ فروشی کا شکار ہوئے تھے۔ ایک مسیحی پادری سے متاثر ہو کر انہوں نے مجوسی دین ترک کیا، پھر گھر بار چھوڑ کر مختلف پادری صاحبان کے پاس وقت گزارتے ہوئے ان پادری صاحبان کی رہنمائی کے مطابق نبی آخر الزمانؐ کی تلاش میں قریہ قریہ سفر کے دوران بردہ فروشوں کے ہتھے چڑھ گئے اور انہوں نے انہیں غلام بنا کر بیچ دیا۔ ان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ فروخت ہوتے ہوتے وہ مدینہ منورہ کے ایک یہودی خاندان کی غلامی میں آئے اور مدینہ منورہ جا پہنچے، جو اس وقت یثرب کہلاتا تھا اور یہ وہی دور تھا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے قبا پہنچ چکے تھے۔ اس طرح حضرت سلمان فارسیؓ کی غلامی نے بھی انہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت غلامی سے ہمکنار کیا اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ میں شامل ہو گئے۔
آزاد افراد اور انسانوں کو زبردستی پکڑ کر غلام بنا لینے کا یہ رواج اس دور میں عام تھا اور طاقت ور لوگ، جہاں موقع ملتا، طاقت کا یہ ”حق“ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسمِ بد کے خاتمے کا اعلان فرمایا اور حکم صادر کیا کہ آج کے بعد کسی آزاد انسان کو فروخت نہیں کیا جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”بیع الحر حرام“ اور ”ثمن الحر حرام“ کہ آزاد انسان کی خرید و فروخت اور آزاد انسان کو بیچ کر حاصل کی جانے والی کمائی حرام ہے۔ جس پر مسلم دنیا میں آزاد انسانوں کی یہ خرید و فروخت، جسے بردہ فروشی کے نام سے پکارا جاتا ہے، ممنوع قرار پائی اور اس کا عملاً خاتمہ ہو گیا۔ البتہ جنگی قیدیوں کی غلام اور باندی کے طور پر خرید و فروخت کا سلسلہ جاری رہا، جس کی صورت یہ تھی کہ جنگی قیدیوں کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا کہ انہیں آزاد کر دیا جائے، یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ اور اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہو سکیں تو انہیں مستقل قیدی بنا لیا جائے مگر قید خانوں میں ڈالنے کی بجائے خاندانوں میں تقسیم کر دیا جائے جن کی حیثیت غلام اور باندی کی ہو گی۔ ان کی یہ حیثیت کم و بیش آج کے دور کی اس صورت سے ملتی جلتی ہے جس میں کچھ قیدیوں کو ان کی رہائی سے کچھ عرصہ پہلے پیرول پر رہا کر کے زمیندار خاندانوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور وہ کچھ عرصہ ان کے ہاں پابند انسانوں کی طرح ان کی خدمت کرتے ہیں۔
چنانچہ اسلام نے اس طرح بردہ فروشی کا تو مکمل طور پر خاتمہ کر دیا مگر جنگی قیدیوں کے بارے میں ایک آپشن کے طور پر غلامی کا یہ سلسلہ باقی رہنے دیا۔ اور اس کے لیے ایسے احکام و قوانین وضع کیے کہ ان کی آزادی کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوئے اور ان کے رہن سہن اور ان کے ساتھ سلوک کے ایسے قواعد طے کیے جن سے آزادی اور غلامی کے درمیان فاصلے کم ہوتے چلے گئے۔
اس کا اندازہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے لگایا جا سکتا ہے جو مسلم شریف میں روایت کیا گیا ہے کہ ”یہ تمہارے ہی بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کر دیا ہے۔ تم میں سے کسی شخص کی ماتحتی میں کوئی ایسا بھائی ہو تو اس کو وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے، وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے اور اس کے ذمے اس کی صحت سے زیادہ کوئی کام نہ لگائے اور اگر ایسا ہو تو خود بھی اس کے ساتھ مل کر اس کے کام میں معاونت کرے۔“
اسی طرح حضرت ابو مسعود انصاریؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ایک لونڈی کو تھپڑ مار دیا، جو ان کی بکریاں چرا رہی تھی اور اس کے سامنے بھیڑیا ایک بکری کو گھسیٹ کر لے جا رہا تھا۔ ابو مسعود انصاریؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے لونڈی کو تھپڑ مارنے پر ابو مسعود انصاریؓ پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ رسول اکرمؐ کی ناراضگی دیکھ کر ابو مسعودؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں اس لونڈی کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد کرتا ہوں، اس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمہیں لپیٹ میں لے لیتی۔
غلامی کی یہ محدود سی صورت جو جنگی قیدیوں کے بارے میں حکم کے طور پر نہیں، بلکہ ایک آپشن کے طور پر باقی رہی، مغرب کے نزدیک ہمیشہ قابل اعتراض رہی اور اسلام پر کیے جانے والے بڑے اعتراضات میں یہ بھی ایک اہم ترین موضوع رہا اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ اعتراض اس دور میں بھی شد و مد کے ساتھ وارد ہوتا تھا جب خود مغرب، خصوصاً امریکہ میں آزاد انسانوں کی خرید و فروخت کا دھندا عروج پر تھا اور مویشیوں کی طرح انسانوں کی بھی منڈیاں لگتی تھیں جن میں افریقہ سے انسانوں کے بحری جہاز بھر بھر کر لائے جاتے تھے اور جانوروں کی طرح ان کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ حتٰی کہ امریکہ کی شہرۂ آفاق خانہ جنگی، جو شمال اور جنوب کی جنگ کے نام سے معروف ہے، اس میں آزاد انسانوں کی اس خرید و فروخت کا مسئلہ بھی وجہ نزاع تھا۔ اس دور میں امریکہ کے جنوب کے دانشوروں کی ایک اچھی خاصی تعداد تھی جو اس غلامی اور انسانی خرید و فروخت کے حق میں دلائل پیش کیا کرتی تھی۔ جبکہ اسلام اس سے ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل آزاد انسانوں کی اس خرید و فروخت کے خاتمے کا اعلان کر چکا تھا۔
مغرب آج اس بات کو فخر کے طور پر پیش کرتا ہے کہ اس نے انسانی حقوق کے نام سے انسانوں کی خرید و فروخت کا خاتمہ کیا ہے اور غلامی کی تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیا ہے، لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ اسے اس میں کامیابی نہیں ہوئی اور شکل بدل کر بلکہ کیموفلاج ہو کر انسانوں کی خرید و فروخت کا یہ مکروہ دھندا اب بھی جاری ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں:
- ایک یہ کہ اخلاقیات و وجدانیات اور روحانیات سے عاری مادہ پرستانہ فلسفہ حیات میں اس قسم کے جرائم کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے اور مغرب کو زندگی کے ہر شعبے میں اس کا مسلسل سامنا کرنا پڑتا ہے۔
- دوسری وجہ مغرب کا دوہرا معیار ہے کہ اس نے اپنے لیے الگ معیار رکھا ہے اور مشرقی اقوام اور مسلم ممالک کے لیے اس کا معیار الگ ہے۔ اسی طرح وہ افراد کی آزادی اور حقوق کی دہائی تو دیتا ہے مگر قوموں کی آزادی اور حقوق کو خود مسلسل پامال کیے جا رہا ہے، جس پر مجرموں کے یہ منظم گروہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر قوموں کو غلام بنا کر بیچا جا سکتا ہے تو افراد کو غلام بنانے میں آخر کیا حرج ہے؟