لاہور میں ناموس رسالت اے پی سی

   
تاریخ : 
۲۰ فروری ۲۰۱۵ء

۱۷ فروری کو منصورہ میں جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق کی طلب کردہ آل پارٹیز قومی کانفرنس میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی اور مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کے ہمراہ شرکت کا موقع ملا۔ یہ کانفرنس تحفظ ناموس رسالتؐ کے مسئلہ پر جناب سراج الحق کی زیر صدارت منعقد ہوئی اور اس میں مولانا سمیع الحق، مولانا مفتی منیب الرحمن، جناب محمد رفیق تارڑ، پروفیسر حافظ محمد سعید، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، قاری محمد حنیف جالندھری، خواجہ سعد رفیق، جناب محمود الرشید، جناب نوید چودھری، مولانا محمد امجد خان، مولانا اللہ وسایا، مولانا سید عطاء المومن بخاری، سید کفیل شاہ، قاضی نیاز حسین نقوی اور دیگر سرکردہ راہنماؤں سمیت کم و بیش تمام دینی و سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں اور نمائندوں نے شرکت کی۔

فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کے بعد سے تحفظ ناموس رسالتؐ کے مسئلہ نے جو صورت اختیار کر لی ہے اس کے پیش نظر یہ کانفرنس بہت زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ بعض راہنماؤں نے اپنے خطابات میں کہا کہ یہ کانفرنس شروع میں ہی ہو جانی چاہیے تھی مگر تاخیر کے ساتھ انعقاد پذیر ہونے کے باوجود اس کی اہمیت و ضرورت بدستور قائم ہے۔ اس لیے کہ اگرچہ ملک کی دینی و قومی جماعتوں نے اپنی اپنی سطح پر اس سلسلہ میں اپنے جذبات کا مسلسل اظہار کیا ہے اور ملک بھر میں عوامی ریلیاں، مظاہرے اور اجتماعات منعقد ہوئے ہیں۔ مگر اجتماعی طور پر قومی جذبات و احساسات کے منظم اظہار کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جس کی طرف جماعت اسلامی نے توجہ دی ہے اور اس کانفرنس کا اہتمام کیا ہے۔

بعض راہنماؤں نے کہا کہ اصل ضرورت اس امر کی تھی کہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو اس سلسلہ میں پیشرفت کرنا چاہیے تھی اور جس طرح دہشت گردی کے مسئلہ پر مسلسل کئی آل پارٹیز کانفرنسیں منعقد کی گئی ہیں اسی طرح تحفظ ناموس رسالتؐ کے اہم دینی و ملی مسئلہ پر سرکاری سطح پر قومی کانفرنس کا اہتمام ضروری تھا۔ اور شاید اسی بات کے انتظار میں خاصا وقت نکل گیا ہے اور قومی و دینی راہنما بہت تاخیر کے ساتھ اس سلسلہ میں جمع ہو پائے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما جناب نوید چودھری نے اس مسئلہ پر چند سال قبل ہونے والی اسی طرز کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعض فیصلوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اس میں کچھ فیصلے ہوئے تھے جن پر عمل نہیں ہوا۔ اگر ان فیصلوں پر عمل ہو جاتا تو آج کی صورت حال سامنے آتی۔ تحفظ ناموس رسالتؐ کے مسئلہ پر جس اے پی سی کا ذکر جناب نوید چودھری نے کیا اس میں راقم الحروف بھی شریک تھا اور وہ منصورہ میں ہی ہوئی تھی۔ اس کے ایک مرحلہ کا میں اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں کہ کانفرنس کے اختتام پر پاک پتن شریف کے سجادہ نشین محترم نے شرکائے محفل سے ایک چبھتا ہوا سوال کیا تھا کہ کیا اس طرح دوبارہ مجتمع ہونے کے لیے ہم کسی اور حادثہ کا انتظار کریں گے یا کسی سانحہ اور حادثہ کے بغیر بھی ہم کسی وقت آپس میں اس طرح بیٹھ سکتے ہیں؟

اس سوال کی صدائے بازگشت ۱۷ فروری کی قومی کانفرنس میں بھی مختلف حوالوں سے سنائی دی جاتی رہی اور یہ کہا گیا کہ ہم کسی سانحہ کے بعد وقتی طور پر جمع ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد اس کا تسلسل باقی نہیں رکھ پاتے۔ اسی طرح ہم مل بیٹھ کر کچھ فیصلے کر لیتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ مولانا مفتی منیب الرحمن نے اپنی گفتگو میں ملک و قوم کو درپیش موجودہ بحران کے بعض پہلوؤں کا ذکر کیا اور کہا کہ آج کی کانفرنس صرف ایک نکتہ پر ہو رہی ہے اس لیے ملک کے اسلامی تشخص اور دینی مدارس و مساجد کو درپیش بحران کے مسئلہ پر مستقل نشست کے اہتمام کی ضرورت ہے اور ہمیں ان امور پر جلد از جلد مل بیٹھنا چاہیے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی حرمت و ناموس کے مسئلہ پر بین الاقوامی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ کے فورم پر منظم محنت اور لابنگ کی ضرورت کا ذکر کیا گیا اور بعض راہنماؤں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مسلم حکومتوں اور عالم اسلام کے بین الاقوامی اداروں کو اس سلسلہ میں جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ دکھائی نہیں دے رہا، جبکہ اسلامی تعاون تنظیم کی بے توجہی اور غیر سنجیدگی کو پورے عالم اسلام میں بری طرح محسوس کیا جا رہا ہے۔ توہین رسالتؐ کے مسئلہ مغربی دنیا کا دوہرا معیار اور عالمی میڈیا کی مہم اپنی جگہ افسوسناک بلکہ شرمناک ہے، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بین الاقوامی سطح پر جس لابنگ اور سفارت کاری کی ضرورت تھی وہ اب بھی بدستور موجود ہے اور مسلم حکومتیں اس سے مسلسل تغافل برت رہی ہیں۔

شخصیات اور مذہب کی توہین کے سلسلہ میں مختلف ممالک میں قوانین موجود ہیں اور خود مغربی ممالک میں بھی مذہبی شخصیات اور علامات کی توہین کو جرم سمجھا جاتا ہے، لیکن ان قوانین اور روایات کو عالمی سطح پر اور سب کے لیے یکساں لاگو کرنے کی غرض سے قانون سازی کی ضرورت ہے جو کسی منظم محنت اور تحریک کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے۔

پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے قومی کانفرنس میں تحریری طور پر چند تجاویز پیش کی گئیں جو درج ذیل ہیں:

  • او آئی سی کو متحرک کرنا ضروری ہے اور اس میں حکومت پاکستان کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔
  • آج کی آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں اور موقف پر عملدرآمد کے لیے کوئی مستقل نظم ضروری ہے جو اس موقف اور اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پیشرفت کرتا رہے۔
  • آل پارٹیز کانفرنس کی طرف سے ایک بھرپور وفد اسلام آباد میں مسلم ممالک کے سفیروں سے ملاقات کر کے پاکستانی قوم کے جذبات اور مطالبات سے انہیں آگاہ کرے۔
    اقوام متحدہ، بین الاقوامی اداروں اور مغربی حکومتوں پر اپنا موقف واضح کرنے کے لیے وفود کی صورت میں ان کے ذمہ داروں سے ملاقات کا اہتمام کیا جائے۔
   
2016ء سے
Flag Counter