حلال و حرام کے دائرے اور حکمِ خداوندی

   
جامعہ رحمانیہ، ماڈل ٹاؤن، ہمک، اسلام آباد
۱۷ دسمبر ۲۰۲۱ء

(جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں عقیدہ اور عبادت کے بعد جس موضوع پر سب سے زیادہ توجہ دلائی ہے وہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے مسائل ہیں۔ حلال و حرام کھا نے پینے اور لباس کے معاملات میں بھی ہے، باہمی تعلقات و حقوق کے حوالہ سے بھی ہے، اور کلام و گفتگو کے دائرہ میں بھی ہے۔ آج اس کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہوں گا۔

(۱) پہلی بات تو یہ ہے کہ جائز و ناجائز کے یہ دائرے صرف اس زمین میں نہیں بلکہ زمین میں آنے سے پہلے جنت میں بھی تھے اور بعث بعد الموت کے بعد جنت اور دوزخ میں چلے جانے کے بعد بھی رہیں گے۔ قرآن کریم میں ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو زمین پر اتارنے سے پہلے جنت میں یہ کہہ کر ٹھکانہ دیا تھا کہ دونوں میاں بیوی جنت میں رہو اور بلا روک ٹوک جو چاہو کھاؤ مگر اس درخت کے قریب نہیں جانا۔ یعنی جائز اور ناجائز کا فرق اس وقت بھی موجود تھا۔ اسی طرح ارشاد باری تعالٰی ہے کہ جب قیامت کے روز سب لوگ اپنے فیصلوں کے بعد جنت یا دوزخ میں چلے جائیں گے تو جنتیوں اور دوزخیوں میں مکالمہ ہو گا جس کے ایک مرحلہ میں دوزخ کے لوگ جنت والوں سے تقاضہ کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو پانی اور رزق عطا کیا ہے اس میں سے کچھ ہمیں بھی بھیجو، تو جواب میں اہلِ جنت کہیں گے کہ ’’ان اللّٰہ حرمھما علی الکافرین‘‘ اللہ تعالٰی نے یہ نعمتیں کافروں پر حرام کر دی ہیں۔

(۲) دوسری بات یہ کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز قرار دینے کی اتھارٹی کے بارے میں اللہ تعالٰی نے دوٹوک بات کی ہے کہ یہ اتھارٹی صرف اللہ تعالٰی کے پاس ہے کہ وہ جسے حرام قرار دے اسے کوئی حلال نہیں کر سکتا، اور جسے حلال کہہ دے اسے کوئی حرام نہیں کہہ سکتا۔ حتٰی کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے بارے میں قسم اٹھائی کہ میں شہد استعمال نہیں کروں گا، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’لم تحرم ما احل اللّٰہ لک‘‘ جس چیز کو اللہ تعالیٰ حلال فرما رہے ہیں آپ نے اسے کیوں حرام کر دیا ہے؟ حالانکہ اللہ تعالٰی اگر حلال و حرام کے حوالہ سے کسی کو کوئی اختیار دیتا تو مخلوقات میں جناب نبی اکرمؐ سے زیادہ کوئی اس کا مستحق نہیں تھا، مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی طور پر ایک حلال چیز کو استعمال نہ کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالٰی نے فرمایا اور کہا کہ حلال و حرام کا فیصلہ صرف اللہ تعالٰی کے اختیار میں ہے۔ بلکہ حلال و حرام کی اتھارٹی میں کسی اور کو شریک کرنے کو جناب نبی اکرمؐ نے شرک کی ایک قسم فرمایا ہے۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عدی بن حاتمؓ نے نبی اکرمؐ سے سوال کیا کہ قرآن کریم میں ایک جگہ ذکر ہے کہ عیسائیوں نے ’’اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللّٰہ‘‘ اپنے احبار و رہبان کو اللہ تعالیٰ کے سوا رب بنا لیا تھا حالانکہ ہم اسلام قبول کرنے سے قبل عیسائی تھے اور ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیا تمہارے ہاں احبار و رہبان کو حلال کو حرام کرنے اور حرام کو حلال قرار دینے کا اختیار سمجھا جاتا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں یہ تو ہم سمجھتے تھے۔ فرمایا کہ ’’اربابا من دون اللّٰہ‘‘ کا یہی مطلب ہے۔

قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اس کا ذکر کیا ہے کہ بہت سے لوگوں نے حلال و حرام کے اپنے اپنے دائرے بنا رکھے ہیں جو درست نہیں ہیں۔ آج کل بھی ہمارے فری اکانومی اور مارکیٹ اکانومی کے عنوان سے یہی ماحول ہے کہ جس چیز کو لوگ صحیح سمجھ لیں وہ جائز ہے اور جس چیز کو قبول نہ کریں وہ ناجائز ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے اور اللہ تعالٰی کے مقرر کردہ حلال و حرام کے دائرے کو کراس کرنے کی کسی فرد، گروہ یا قوم کو اجازت نہیں ہے۔

(۳) تیسری بات یہ ہے کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ کسی چیز کا حرام ہونا اس کے نقصان اور ضرر کی وجہ سے ہوتا ہے، اور حلال ہونا اس کے نفع اور فائدہ کے باعث ہوتا ہے۔ مگر قرآن کریم نے اس کے علاوہ حلال و حرام کے اور اسباب بھی بیان کیے ہیں۔ مثلاً رمضان المبارک میں افطاری یا سحری کے اوقات میں ایک چیز کا استعمال چند لمحے پہلے جائز اور پھر ناجائز ہوتا ہے تو نہ چیز میں فرق پڑتا ہے نہ استعمال کرنے والے میں کوئی تبدیلی آتی ہے، صرف حکم بدلتا ہے کہ افطاری کے وقت سے پہلے استعمال کی اجازت نہیں تھی اس کے بعد اجازت مل گئی۔ اسی طرح سحری میں چند لمحے پہلے تک ایک چیز کھا پی سکتے تھے، وقت ختم ہوتے ہی وہ ممنوع ہو گئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جائز یا ناجائز ہونے میں اصل علت حکمِ خداوندی ہے، چیز کا نفع نقصان ثانوی چیز ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل پر کچھ چیزیں حرام قرار دیں جو حلال و طیب تھیں مگر بنی اسرائیل کو ان کے استعمال سے روک دیا اور فرمایا کہ ’’ذٰلک جزیناھم ببغیھم‘‘ یہ ہم نے ان کو سرکشی کی سزا دی تھی۔ جبکہ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ بہت سی اشیا کو ان کے ضرر اور نقصان کی وجہ سے حرام کیا گیا ہے۔ مثلاً شراب اور جوئے کے بارے میں فرمایا کہ ’’رجس‘‘ یہ گندگی ہے۔ شراب کے بارے میں کہا کہ یہ نشہ دیتی ہے، عبادات سے غافل کر دیتی ہے اور باہمی جھگڑوں کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح اور چیزوں کے بارے میں بھی ان کا نقصان بیان کیا گیا ہے۔

خلاصہ یہ کہ حلال و حرام بھی اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے ہیں جن میں کسی کو رد و بدل کا اختیار نہیں ہے۔ اور اس کے لیے حرام کی جانے والی چیز کا نجس یا نقصان دہ ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ حلال و حرام کے اور اسباب بھی ہیں اور اس کی اصل علت اور بنیاد اللہ تعالٰی کا حکم ہے۔ وہ مالک الملک ہے، جسے حلال کر دے وہ قیامت تک حلال رہے گا اور جسے اس نے حرام کہہ دیا ہے وہ ہمیشہ حرام رہے گا۔ آج کل اس بات کو پیشِ نظر رکھنا بہت زیادہ ضروری ہے، اس لیے کہ یہ مغالطہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ جائز و ناجائز ہونے میں صرف نفع اور نقصان ہی بنیاد ہے جس کا فیصلہ خود سوسائٹی نے کرنا ہے۔ اور اسی بنیاد پر ہمارے دور میں حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے دائرے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کی حفاظت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ جنوری ۲۰۲۲ء)
2016ء سے
Flag Counter