(۶ فروری کو خانقاہ سراجیہ شریف کندیاں کے سجادہ نشین حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد کی جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تشریف آوری کے موقع پر خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مخدوم العلماء حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کے فرزند و جانشین اور خانقاہ سراجیہ شریف کندیاں کے سجادہ نشین حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد کی جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تشریف آوری ہمارے لیے خوشی کی بات بھی ہے اور برکت کا باعث بھی ہے۔ یہ نسبتوں کا اظہار اور ان کی تجدید ہے اور میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی تشریف آوری کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کا جامعہ نصرۃ العلوم اور تمام احباب کی طرف سے شکرگزار ہوں۔ یہ اصحابِ تصوف اور خانقاہوں سے وابستہ حضرات جو خدمات سر انجام دے رہے ہیں، یہ بھی دین کا ایک اہم حصہ ہے اور دینی تعلیم و تربیت کا بڑا شعبہ ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے ’’فلولا نفر من کل فرقۃ منہم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون‘‘ (سورہ التوبہ ۱۲۲) اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے ایک طبقہ کو اس کام کے لیے مخصوص ہونا چاہیے کہ وہ دین میں تفقہ حاصل کریں اور اس کے بعد اپنی قوم کو خدا کے عذاب سے ڈرائیں۔
یہ ’’تفقہ فی الدین‘‘ کیا ہے؟ ہمارے ہاں عام طور پر ’’فقہ‘‘ اور ’’تفقہ‘‘ کا لفظ شریعت کے احکام و معاملات کے لیے بولا جاتا ہے۔ یہ درست ہے لیکن احکام و معاملات تفقہ کا ایک شعبہ ہیں جبکہ فقہ اور تفقہ کا مجموعی مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسعت رکھتا ہے۔ فقہ کی جو تعریف امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمائی وہ احکام و معاملات کے دائرہ سے زیادہ وسیع ہے۔ اس میں عقائد بھی شامل ہیں اور سلوک و وجدانیات بھی اس کا حصہ ہیں۔ اصول فقہ کی معروف کتاب ’’التوضیح والتلویح‘‘ کے آغاز میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک احکام و معاملات کے ساتھ ساتھ عقائد اور وجدانیات بھی فقہ کے مفہوم میں شامل ہیں۔ چنانچہ حضرت امام اعظمؒ نے عقائد پر جو رسالہ لکھا ہے اور حضرت ملا علی قاریؒ نے اس کی شرح تحریر فرمائی ہے اس کا نام ہی ’’الفقہ الاکبر‘‘ ہے۔ اس دور میں عقائد کو فقہ اکبر سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ علم کلام کی اصطلاح بعد میں علم عقائد کے لیے استعمال ہونا شروع ہوئی ہے، حضرت امام اعظمؒ کے رسالہ ’’الفقہ الاکبر‘‘ کا اردو ترجمہ ہمارے چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے ’’البیان الازہر‘‘ کے نام سے کیا تھا جو شائع ہو چکا ہے، اس کا ابتدائیہ میرے والد محترمؒ نے لکھا ہے۔ چنانچہ جس طرح عقائد کو اس دور میں فقہ کا حصہ تصور کیا جاتا تھا اسی طرح تصوف اور وجدانیات کو بھی فقہ میں شمار کیا جاتا تھا اور ان تینوں شعبوں کا علم حاصل کرنے کو تفقہ فی الدین سمجھا جاتا تھا۔
یہ تصوف اور وجدانیات وہی اصلاح نفس اور تزکیہ ہے جسے قرآن کریم میں جناب نبی اکرمؐ کے فرائض منصبی میں ’’ویزکیھم‘‘ کے جملہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جناب نبی اکرمؐ کے دور میں تو تزکیہ کے لیے آپؐ کی با برکت صحبت بلکہ نگاہِ نبوت ہی کافی تھی۔ ایمان کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے ایک مسلمان کو وہ مقام حاصل ہو جاتا تھا جو بعد میں کسی امتی کے لیے میسر نہیں ہو سکتا، اور نگاہ نبوت کی ایک جھلک سے دلوں کی دنیا بدل جایا کرتی تھی۔ اسی لیے حضرات صحابہ کرامؓ کو نہ صرف اس امت میں بلکہ سابقہ امتوں کے حوالہ سے بھی انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد نسل انسانی کے سب سے اعلیٰ اور اشرف طبقہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ لیکن بعد میں جوں جوں زمانہ جناب نبی اکرمؐ کے مبارک دور سے دور ہوتا گیا، اصلاح نفس اور تزکیہ کے اس عمل کو منظم کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور آہستہ آہستہ حضرات صوفیاء کرام رحمہم اللہ کے مختلف سلسلے وجود میں آئے۔ یہ مختلف سلسلے اسی طرح سمجھ لیجئے جیسے قرآن کریم یاد کرنے کے لیے مختلف زمانوں میں اور مختلف علاقوں میں الگ الگ طریقے وجود میں آئے، جن کی بنیاد ذوق اور تجربات پر ہے۔ ورنہ خود جناب رسول اکرمؐ کے دور میں حفظ قرآن کریم کا کوئی آج کی طرح کا منظم اور مربوط طریق کار موجود نہیں تھا۔ لوگوں کی ذہنی سطحیں مختلف ہوتی ہیں، نفسیات مختلف ہوتی ہیں، ذہانت کے دائرے الگ الگ ہوتے ہیں، اور مواقع بھی یکساں نہیں ہوتے۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے تعلیم و تربیت کے مختلف طریقے وجود میں آتے ہیں اور یہ تعلیم و تربیت کے ہر شعبہ میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اصلاح نفس اور تزکیہ نفس کے لیے بھی حضرات صوفیاء کرامؒ کے الگ الگ ذوق اور تجربات نے رفتہ رفتہ مختلف روحانی سلسلوں کی شکل اختیار کی ہے جو آج ہمارے سامنے نقشبندی، قادری، چشتی اور سہروردی طریقوں کی صورت میں موجود ہیں اور لاکھوں مسلمان ان سے استفادہ کر رہے ہیں۔
آج ہمارے مدارس میں یہ شکایت پائی جاتی ہے کہ تعلیم تو ہو رہی ہے مگر تربیت کا ماحول نظر نہیں آرہا۔ جبکہ یہ تربیت فکری اور اعتقادی شعبہ میں بھی ضروری ہے، عملی اور اخلاقی دنیا میں بھی اس کی ضرورت ہے، اور روحانی تربیت بھی ہماری دینی ضروریات کا حصہ ہے لیکن اس کی طرف توجہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ میں تو فارغ التحصیل ہونے والے علماء کرام سے کم و بیش ہر سال یہ کہتا ہوں کہ جو کچھ پڑھا ہے اس کی عملی تربیت کے لیے کسی شیخ کامل کے ساتھ عملی تربیت کا تعلق قائم کریں، یا کم از کم تبلیغی جماعت کے ساتھ کچھ وقت لگائیں تاکہ معمولات کی پابندی کا ذوق پیدا ہو اور عبادات و اخلاقیات کا ایک مزاج بن جائے۔ میں اسے ’’ہاؤس جاب‘‘ سے تعبیر کیا کرتا ہوں کہ جس طرح ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ وہ سال دو سال سینئر ڈاکٹر صاحبان کے ساتھ ان کی نگرانی میں کام کر کے تجربہ سے بہرہ ور ہو، یا جس طرح ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے والے وکیل کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی کا کچھ حصہ کسی سینئر وکیل کے ساتھ کام کر کے اس کام کی ٹریننگ حاصل کرے، اسی طرح دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے فضلاء کی بھی یہ ناگزیر ضرورت ہے کہ وہ کسی بزرگ اور شیخ کی صحبت اور نگرانی میں اپنی عبادات کے معمولات کو پختہ کریں اور اخلاقیات کی تربیت حاصل کریں تاکہ وہ عملی زندگی میں اپنا کام صحیح طریقہ سے کر سکیں۔ قرآن کریم نے تعلیم کے حوالہ سے تلاوت، تعلیم اور تزکیہ تینوں کو اکٹھے ذکر کیا ہے اور یہ تینوں ہمارے تعلیمی نظام کا لازمی حصہ ہیں جن کے بغیر دینی تعلیم مکمل نہیں ہو سکتی، اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھیں اور نیک لوگوں کے ساتھ وابستہ ہو کر اپنی اصلاح کا اہتمام کریں۔
میں حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد صاحب کی تشریف آوری پر ایک بار پھر ان کا شکر گزار ہوں، ہم سب ایک ہی علمی، فکری اور روحانی سرچشمہ سے فیض حاصل کر رہے ہیں اور اپنے بزرگوں کی نسبت کو قائم رکھتے ہوئے باہمی رابطہ و تعاون بھی ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان نسبتوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ و اٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔