امت مسلمہ کے مسائل اور امام مسجد نبویؐ کا خطبہ

   
۳۰ اپریل ۱۹۹۸ء

مولانا منظور احمد چنیوٹی راوی ہیں کہ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران وہ سعودی عرب میں تھے اور رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے قادیانیت کے بارے میں قائم کیے گئے گروپ کے ساتھ مصروف کار تھے۔ اس دوران حرمین شریفین کے ایک بزرگ امام محترم سے ان کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے امام صاحب سے استدعا کی کہ وہ جمعۃ المبارک کے خطبہ میں پاکستان کی تحریک ختم نبوت کا تذکرہ کر کے قادیانیت کے بارے میں کچھ کلمات ارشاد فرما دیں۔ امام محترم نے جواب دیا کہ انہیں اس سلسلہ میں متعلقہ حکام سے اجازت لینا پڑے گی۔ مولانا چنیوٹی نے کہا کہ چلو خطبہ جمعہ نہ سہی دعا میں ہی ذکر کر دیں اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اسلامیان پاکستان کی کامیابی کے لیے دعا فرما دیں، جواب ملا کہ اس کے لیے بھی متعلقہ حکام کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

یہ شخصی یا خاندانی حکومت کا سب سے بڑا المیہ ہوتا ہے کہ شخصیت یا خاندان کے مفادات اور وقار کو پورے نظام میں محور کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور کسی بے ضرر بلکہ مفید بات کے لیے بھی بعض چہروں کے اتار چڑھاؤ کو دیکھنا ضروری سمجھا جانے لگتا ہے۔

۱۹۹۲ء میں سعودی عرب کے سینکڑوں سرکردہ علماء کرام اور دانشوروں نے ’’مذکرۃ النصیحہ‘‘ (خیر خواہی کی یادداشت) کے نام سے ایک عرضداشت بادشاہ معظم کے حضور پیش کی جس میں حکومت کی مختلف پالیسیوں بالخصوص خلیج میں امریکی افواج کی موجودگی، ملک میں سودی نظام و معیشت کے تسلسل، اور شرعی عدالتوں کے دائرہ کار اور اختیارات کو بتدریج محدود کرنے کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے ان پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا، اور شریعت اسلامیہ کے مطابق عوام کے شرعی اور شہری حقوق کی بحالی پر زور دیا گیا۔ اس عرضداشت پر دستخط کرنے والے سینکڑوں علماء اور دانشوروں کو گرفتار کر لیا گیا اور بہت سے جلاوطن کر دیے گئے۔ ان میں سے دو بڑے علمائے کرام الشیخ سفر الحوالی اور الشیخ سلمان العودۃ ابھی تک زیر حراست ہیں۔ اور دو ممتاز دانشور ڈاکٹر محمد المسعری اور ڈاکٹر سعد الفقیہ اپنے دیگر رفقاء سمیت لندن میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جبکہ عالم اسلام کے عظیم مجاہد الشیخ مجاہد اسامہ بن لادن اسی قسم کی جرأت رندانہ کی پاداش میں افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں ’’خانہ بدوشی‘‘ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اس ’’خیر خواہی کی عرضداشت‘‘ کے جواب میں علماء کے سرکاری کیمپ کی طرف سے یہ کہا گیا کہ بادشاہ معظم کی پالیسیوں پر اس طرح کھلم کھلا تنقید کرنا اور اس حوالہ سے لوگوں کا ذہن تیار کرنا درست طرز عمل نہیں ہے، اور ان سرکاری علماء کے بقول شریعت اسلامیہ میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ ان کے نزدیک درست طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی کو شرعی نقطۂ نظر سے حکومت کی کسی پالیسی پر اعتراض ہو تو وہ اسے مخفی طور پر تنہائی میں باوقار طریقہ سے متعلقہ حکام کے گوش گزار کر دے۔ بس اس کی ذمہ دار صرف اتنی ہے اور ایسا کر کے وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائے گا۔

اس پس منظر میں مدینہ منورہ کے محترم عالم دین اور مسجد نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے امام الشیخ علی عبد الرحمن الحذیفی کے ایک خطبہ جمعہ کی آڈیو کیسٹ سننے کا اتفاق ہوا تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ انہوں نے بعض اہم اور نازک مسائل پر عالم اسلام کے دینی حلقوں کی بے باک ترجمانی کا راستہ اختیار کیا ہے اور روایتی طریق کار سے ہٹ کر عالم اسلام کے زندہ مسائل کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ یہ کیسٹ مدینہ منورہ سے آنے والے ایک دوست نے ہمیں مرحمت فرمائی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ الشیخ علی الحذیفی نے یہ خطبہ ذیقعد ۱۴۱۸ھ کے پہلے جمعۃ المبارک کو مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا۔ جبکہ ایران کے سابق صدر جناب رفسنجانی بھی مدینہ منورہ کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور جمعۃ المبارک کے اجتماع میں شریک تھے۔ مگر مذکورہ روایت کے مطابق وہ خطبہ کے دوران ہی اٹھ کر اپنے محافظین کے ہمراہ واپس چلے گئے۔

الشیخ علی عبد الرحمن الحذیفی اپنے علم و فضل اور نیکی و تقویٰ کے حوالہ سے عالم اسلام کی معروف شخصیت ہیں اور قرآن کریم کی قراءت میں ان کا سوز و گداز بطور خاص لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں ان کی عقیدت و محبت ابھارنے کا باعث ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں کسی نماز کی ادائیگی ایک مسلمان کے لیے بذات خود بہت بڑی سعادت اور خوش بختی کی بات ہے، لیکن راقم الحروف نے اس بات کا کئی بار مشاہدہ کیا ہے کہ کسی جہری نماز کی تکبیر تحریمہ میں الشیخ علی الحذیفی کی آواز سن کر نمازیوں کے چہرے کھل اٹھتے ہیں کہ آج ان کی زبان سے قرآن کریم سن کر نماز کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔ خود راقم الحروف بھی ان کے عقیدت مندوں میں شامل ہے، کئی نمازیں ان کی اقتدا میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کر چکا ہے اور آئندہ بھی اس سعادت کے بار بار حصول کا امیدوار ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مصر کے الشیخ محمود خلیل الحصریؒ کے بعد اگر کسی قاری کی تلاوت قرآن کریم نے متاثر کیا ہے اور دل کی بے حس تاروں کو حرکت دی ہے تو وہ یہی الشیخ علی عبد الرحمن الحذیفی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں حفظ و امان میں رکھے اور ہر قسم کی ابتلا و آزمائش میں استقامت اور سرخروئی نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

شیخ حذیفی نے مذکورہ خطبہ جمعہ میں اسلام اور عالم اسلام کے بارے میں امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کے طرز عمل کو موضوع بحث بنایا ہے اور کہا ہے کہ خلیج عرب میں امریکہ اور اس کے حواری ممالک کی افواج کی موجودگی کے بنیادی اہداف چھ ہیں:

  1. اسرائیل کا تحفظ
  2. ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی راہ ہموار کرنا
  3. مشرق وسطیٰ پر فوجی تسلط
  4. عربوں کی دولت کا استحصال
  5. اسلام کی دعوت کا راستہ روکنا
  6. اسلامی اقدار اور تہذیب کا خاتمہ

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو خلیجی ممالک میں کلیدی حیثیت حاصل ہے اس لیے امریکہ اس پر بطور خاص نظریں جمائے ہوئے ہے اور مغربی طاقتیں سعودی عرب کی سالمیت و وحدت کو نقصان پہنچانے اور اس کی اسلامی حیثیت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ انہوں نے عربوں کے موجودہ المیہ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد بڑی طاقتوں نے عربوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل کر دیا اور قومیتوں کے نام پر آپس میں الجھا دیا۔ پھر ان میں سے بہت سے ممالک میں فوجی انقلابوں کے ذریعے شخصی حکومتیں مسلط ہوئیں اور اسلام کی بجائے قوم پرستی، سوشلزم اور علاقائیت کو فروغ دیا گیا۔ بلکہ بعض ممالک میں اسلامی اقدار و روایات کو جبرًا ختم کرنے کی بھی کوشش کی گئی اور اسلامی اجتماعیت کے مختلف مظاہر حتیٰ کہ نماز باجماعت کی ادائیگی کا اہتمام بھی مشکل بنا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بڑی طاقتوں نے مسلم ممالک پر تسلط کے دوران سب سے بڑا کام یہ کیا کہ محاکم شرعیہ کو ختم کر کے غیر اسلامی قوانین نافذ کر دیے۔ ان میں سے صرف سعودی عرب ابھی تک محفوظ ہے کہ وہاں شرعی عدالتوں کا نظام موجود ہے اور لوگوں کے مقدمات کے فیصلے شریعت اسلامی کے مطابق ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہود و نصارٰی اسلام اور مسلمانوں کے بڑے دشمن ہیں۔ پوری تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اسلام کو ختم کرنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہود و نصارٰی اور مشرکین کے ساتھ دوستانہ تعلقات سے قرآن کریم میں واضح طور پر منع کیا ہے، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۂ عرب سے یہود و نصارٰی کو نکال دینے کا حکم دیا ہے۔ لیکن آج امریکہ اور برطانیہ کی افواج نہ صرف جزیرۂ عرب میں موجود ہیں بلکہ عرب ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خلیج عرب کو یہود و نصارٰی کے وجود سے پاک کرانا ہمارے دینی واجبات میں سے ہے اور اس کے لیے دنیا بھر کے مسلمان، عوام اور حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے سعودی بھائیوں کا ساتھ دیں۔

انہوں نے ’’وحدت ادیان‘‘ اور مختلف مذاہب کے درمیان قرب پیدا کرنے کے تصور کا بطور خاص نوٹس لیا اور کہا کہ یہودیت، عیسائیت، ہندو ازم، اور دیگر مذاہب کے ساتھ اسلام کا بنیادی اختلاف عقائد اور ایمانیات کا اختلاف ہے۔ اس لیے ان کے ساتھ مفاہمت اور قرب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کے پاس اصل سرمایہ ان کا ایمان اور عقائد ہیں۔ اگر ان میں بھی لچک قبول کر لی جائے تو اور کون سی بات باقی رہ جاتی ہے؟

انہوں نے سنی شیعہ اختلافات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ اختلافات بنیادی ہیں، کیونکہ قرآن کریم کا محفوظ ہونا، صحابہ کرامؓ کا مومن ہونا، اور بالخصوص خلفاء ثلاثہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کا اہل ایمان کا سرخیل ہونا ہمارے عقائد و ایمان کا حصہ ہے۔ اور ام المومنین حضرت عائشہؓ کی پاک دامنی پر قرآن کریم نے شہادت دی ہے۔ اس لیے ان بزرگوں پر طعن کرنے والوں کے ساتھ ہم جمع نہیں ہو سکتے اور ایسا کرنا دینی حمیت کے منافی ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتوں کا بنیادی مقصد ہمارے عقائد و ایمان کو کمزور کرنا اور ہمیں ان سے محروم کرنا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے عقائد کی حفاظت کریں اور ایمان کو مضبوط بنائیں۔ کیونکہ ایمان ہی کی قوت ہے جو ہمارے کام آئے گی اور اسی قوت کی وجہ سے ہم کفر کی یلغار کا مقابلہ کر سکیں گے۔

انہوں نے ترکی کے حالات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ترکی میں اسلامی شعائر کو جبرًا مٹایا جا رہا ہے اور اہل دین کے خلاف زمین تنگ کی جا رہی ہے، صرف اس لیے کہ ترک مسلمان اسلام سے محبت کرتے ہیں اور ماضی میں ترکی نے خلافت عثمانیہ کے نام سے ایک عرصہ تک اسلام کا پرچم سربلند کیے رکھا ہے۔ انہوں نے مسلمان حکمرانوں اور عام مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ توبہ کا راستہ اختیار کریں اور کفر و ظلم کی زندگی ترک کر کے اطاعت اور فرمانبرداری کی زندگی اختیار کریں۔ جس نے لوگوں پر ظلم کیا ہے وہ ظلم سے توبہ کرے، جس نے بدکاری کی ہے وہ بدکاری سے توبہ کرے، جو نشہ کرتا ہے وہ نشے سے توبہ کرے، اور جو سودی کاروبار کرتا ہے وہ سود سے توبہ کرے، بے نماز لوگ نماز کی پابندی کریں، مسلمان حکومتیں اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کا اہتمام کریں، کتاب و سنت کے فیصلوں پر عمل کریں، اور ہم سب اپنے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری پیغمبرؐ کی ہدایات کی پیروی کریں۔ اسی صورت میں اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوں گے، اور جب خدا راضی ہوگا تو دنیا کی یہ طاقتیں ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گی۔

الشیخ علی عبد الرحمن الحذیفی کے اس تاریخی خطاب کے چند پہلو ہم نے پیش کیے ہیں۔ جبکہ ہمارے نزدیک ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل علم اس خطاب کو خود سنیں اور اس کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ہم ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس خطبہ کے بعد سے شیخ موصوف منظر سے مسلسل غائب ہیں اور کم و بیش ڈیڑھ ماہ سے انہوں نے نہ کسی جمعہ پر خطبہ دیا ہے اور نہ ہی کوئی نماز پڑھائی ہے۔ ہمارے ایک ذمہ دار دوست جو اس دوران دو ہفتے مدینہ منورہ رہ کر آئے ہیں، بتاتے ہیں کہ ان دو ہفتوں میں شیخ حذیفی نے ایک نماز بھی نہیں پڑھائی۔ معلوم نہیں کہ آیا انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے یا وہ گھر میں نظر بند کر دیے گئے ہیں؟ ہم سعودی عرب کی معزز حکومت سے گزارش کریں گے کہ وہ الشیخ علی عبد الرحمن الحذیفی جیسے ہردلعزیز امام و خطیب کی صحت و سلامتی اور آزادی کے بارے میں تازہ ترین صورتحال سے عالم اسلام کو باخبر کرے۔

   
2016ء سے
Flag Counter