’’حلالہ‘‘ کا مسئلہ اور اس کا پس منظر

   
فروری ۱۹۹۶ء

ان دنوں قومی اخبارات میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس جناب محمد شفیع محمدی کے ایک فیصلے کے حوالے سے ’’حلالہ‘‘ کے جواز اور عدم جواز کی بحث جاری ہے، اور احناف اور اہل حدیث علماء کے درمیان بیان بازی نے باقاعدہ مناظرے کی صورت اختیار کر لی ہے، حتٰی کہ بعض علماء کی طرف سے مخالفین کو مناظرے کا چیلنج بھی دے دیا گیا ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں قارئین کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا جائے۔

جہاں تک اس کے پس منظر کا تعلق ہے، سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کا مقصد ’’حلالہ‘‘ کے مسئلہ پر احناف اور اہل حدیث کے مبینہ اختلاف کا فیصلہ کرنا نہیں تھا، نہ اس غرض کے لیے مقدمہ دائر کیا گیا، اور نہ ہی فریقین نے اس میں پیش ہو کر دلائل دیے۔ اس لیے اس فیصلہ کو اس مقصد کے لیے بیان بازی کی بنیاد بنانا ہی غلط ہے۔ بلکہ دونوں طرف کے علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے اصل پس منظر تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ اس مباحثہ و مناظرہ کے ’’مالہ و ما علیہ‘‘ سے آگاہی حاصل کر سکیں۔

اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے میں ’’خلع‘‘ کو موضوع بحث بنایا گیا تھا اور خلع کو عورت کا طلاق کا حق قرار دے کر ایک نئی بحث کا آغاز کیا گیا تھا۔ اور کچھ عرصہ قبل بھارتی سپریم کورٹ نے تین طلاقوں کو ایک قرار دینے کے سلسلے میں اپنے ایک فیصلے کے ذریعے احناف اور اہل حدیث کو باہمی مباحثہ و مناظرہ کا نیا میدان فراہم کر دیا تھا۔

تین طلاقوں، خلع اور حلالہ جیسے مسائل پر اعلیٰ عدالتوں کے ان فیصلوں کو ہم اپنے فقہی اختلافات کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں، جبکہ عدالتوں کا مقصد ان اختلافات کو طے کرانا نہیں ہے بلکہ وہ کسی اور پس منظر میں کام کر رہی ہیں، جسے سمجھے بغیر ان مباحث میں الجھنا یقیناً زیادتی اور نا انصافی کی بات ہو گی۔

تین سال قبل بھارت کی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے حوالے سے ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو تین سمجھنے، یا ایک قرار دینے کی بحث چھڑ گئی تھی۔ راقم الحروف جب اپنے معمول کے مطابق ۱۹۹۳ء میں تین ماہ کے لیے لندن پہنچا تو وہاں کے اردو اخبارات میں بھی یہی بحث زور و شور کے ساتھ جاری تھی اور طرفین کی جانب سے بیانات، مضامین اور مراسلات شائع ہو رہے تھے۔ حیرانی ہوئی کہ لندن میں اس بحث کا فائدہ یا ضرورت کیا ہے؟ مگر بیان بازی تھی کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اس دوران بھارت کے معروف عالم دین حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی ہماری دعوت پر ورلڈ اسلامک فورم کے سالانہ تعلیمی سیمینار میں شرکت کے لیے لندن تشریف لائے۔ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی صوبہ بہار کے امیر شریعت ہیں، دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فضلاء میں سے ہیں، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد ہیں، اور آج کے جدید مسائل پر ’’فقہی کونسل‘‘ کے نام سے اہلِ علم و فن کے اشتراک کے ساتھ جو علمی و فقہی کام کر رہے ہیں، پورے جنوبی ایشیا میں اس کی مثال نہیں ہے۔

وہ لندن تشریف لائے تو تین طلاقوں کے حوالے سے ہونے والے مباحثہ کی صورتحال کو دیکھ کر پریشان ہو گئے، فرمانے لگے کہ بھئی کسی سمجھدار اہل حدیث عالم سے بات کراؤ۔ اس وقت جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الہادی العمری تھے۔ وہ بھی انڈیا سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے اچھے دوست ہیں، سمجھدار اور معاملہ فہم عالم دین ہیں۔ ہم نے ان سے رابطہ قائم کیا، وہ تشریف لائے، مولانا مجاہد الاسلام قاسمی نے ملاقات میں ان سے ایک بات فرمائی جس کا مفہوم یوں ہے کہ

’’بھئی! بھارت کے سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ احناف اور اہل حدیث کے اختلاف کو طے کرنے کے لیے نہیں کیا، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو اجاگر کر کے اور ان سے فائدہ اٹھا کر نکاح و طلاق کے معاملہ میں مسلمانوں کے امتیازی قوانین کو ختم کیا جائے، اور پورے ملک کے لیے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کی جائے۔ اس لیے کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ بیان بازی کا یہ بازار ٹھنڈا ہو اور ہم اپنے مسائل آپس میں مل بیٹھ کر طے کر لیں۔‘‘

مولانا عبد الہادی العمری نے بھی اس سے اتفاق کیا اور پھر دونوں راہنماؤں میں اس سلسلہ میں عملی تجاویز پر بھی صلاح مشورہ ہوا۔ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہو چکی ہے اور بھارتی حکومت نے گزشتہ دنوں پورے ملک کے لیے ’’یکساں سول کوڈ‘‘ نافذ کر دیا ہے جس پر بھارت کے دینی ادارے اور جرائد مسلسل چیخ و پکار کر رہے ہیں۔

ہمارے نزدیک پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں نکاح و طلاق اور وراثت کے مقدمات کے تسلسل کے ساتھ سامنے آنے اور اختلافات کو ابھارنے والے فیصلوں کا پس منظر بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ کیونکہ پاکستان پر عالمی طور پر ایک عرصہ سے یہ دباؤ موجود ہے کہ اس ملک کے نکاح و طلاق اور وراثت کے قوانین اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے انہیں تبدیل کر کے بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جائے۔ وہ ’’بین الاقوامی معیار‘‘ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی دفعہ ۱۶ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ:

’’پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دورانِ شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلے میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں۔‘‘

اس دفعہ کی رو سے

  • مسلمان سے شادی کے لیے مسلمان ہونے کی شرط،
  • شادی کے دوران مرد کے خاندان کے سربراہ ہونے کا تصور، اور
  • مرد کا طلاق کا یکطرفہ حق

تینوں امور بین الاقوامی معیار اور انسانی حقوق کے عالمی تصور کے منافی قرار پاتے ہیں، اور انہیں ختم کرنے کے لیے پاکستان پر مسلسل زور دیا جا رہا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم مذہبی معاملات میں مغرب کے ناجائز دباؤ کو مسترد کرنے کے لیے ابھی تک تیار نہیں ہیں، اور عالمی طاقتوں کو مطمئن رکھنے کے لیے معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں۔

صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں عائلی قوانین کے نفاذ کا مقصد بھی یہی تھا کہ پاکستان کے خاندانی قوانین کو اس مزعومہ معیار کے قریب تر لایا جائے۔ اور طلاق میں مرد و عورت کے حق کو یکساں کرنے کے سلسلے میں مغرب کو مطمئن کرنے کے لیے یہ راستہ اختیار کیا گیا تھا کہ خاوند نکاح کے وقت ہی بیوی کو طلاق کا حق تفویض کر دے۔ چنانچہ نکاح فارم میں تفویضِ طلاق کا مستقل خانہ موجود ہے جو اسی مقصد کے لیے ہے۔ اور اب ’’خلع‘‘ کو عورت کا مطلق ’’حقِ طلاق‘‘ قرار دینے کا مقصد بھی اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ہم مغرب کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں جس طرح مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے، عورت کے لیے بھی اسی طرح کا طلاق کا حق تسلیم کر لیا گیا ہے، اس لیے بین الاقوامی معیار کو پورا کر دیا گیا ہے اور ہم خاندانی قوانین کے حوالے سے ’’انسانی حقوق‘‘ کی خلاف ورزی کے مجرم نہیں ہیں۔

اس پس منظر میں ’’حلالہ‘‘ کے موضوع پر ہونے والی اخباری بحث سامنے آتی ہے تو طبیعت پریشان ہو جاتی ہے کہ ہم کسی بحث میں داخل ہونے سے پہلے اس کے پس منظر اور مقاصد سے اس قدر بے خبر کیوں ہوتے ہیں؟ اور صدیوں سے چلے آنے والے فقہی اور علمی اختلافات کا فیصلہ کن لوگوں اور کن اداروں کے حوالے کر رہے ہیں؟

ان گزارشات کے بعد اب ہم نفسِ مسئلہ کی طرف آتے ہیں۔

جہاں تک ’’حلالہ‘‘ کا تعلق ہے، اس کا ذکر خود قرآن کریم میں موجود ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو تیسری طلاق بھی دے دے تو اس کے بعد وہ اس خاوند کے لیے حلال نہیں رہتی۔ نہ رجوع کی صورت میں اور نہ نئے نکاح کی صورت میں۔ الّا یہ کہ وہ کسی دوسرے خاوند کے نکاح میں جائے اور اس سے میاں بیوی کے تعلقات قائم ہوں، اور وہ خاوند اسے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے، تو اس کے بعد عدت گزار کر وہ پہلے خاوند کے نکاح میں آ سکتی ہے۔ یہ ’’حلالہ‘‘ کا شرعی مفہوم ہے اور اس میں اس فرق کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اگر واقعات کی ترتیب سے ایسا ہو جائے تو اسے جواز کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے ’’حلالہ‘‘ کے نفسِ وجود اور اس کے جواز کا مطلق انکار قرآن کریم کی نصِ صریح کا انکار ہے۔

جہاں تک ارادتاً ایسا کرنے کا تعلق ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے اور عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال کرنے کی غرض سے طلاق کی شرط پر نکاح کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ اس لیے اس میں بھی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ارادہ اور عمد کے ساتھ ایسی صورت اختیار کرنا حرام ہے، اور فقہائے احناف نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک یہ بیان بازی محض نزاعِ لفظی ہے۔

حلالہ کی دو مختلف صورتیں ہیں۔ ایک مباح ہے، دوسری حرام ہے۔ جس صورت کو اہل حدیث حضرات حرام کہہ رہے ہیں، وہ احناف کے نزدیک بھی حرام ہے۔ اور جس صورت کو احناف مباح اور جائز قرار دے رہے ہیں، اسے جائز تسلیم نہ کرنے کی اہل حدیث دوستوں کے پاس بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اہل حدیث حضرات تین طلاقوں کے ایک مجلس میں تین یا ایک واقع ہونے کے جھگڑے کو ذہن سے نکال کر اس کی دوسری صورت پر غور فرما لیں، کہ ایک شخص نے بیوی کو سنت کے مطابق ایک طہر میں ایک طلاق، دوسرے طہر میں دوسری طلاق، اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دی ہے، تو کیا اس کی تین طلاقیں پوری ہوئی ہیں یا نہیں؟ اور اگر اس کی تین طلاقیں پوری ہو گئی ہیں تو کیا اب بھی وہ اس خاوند کے لیے حلال رہ گئی ہے؟ اور کیا اس کے ساتھ دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے؟ اور اگر وہ دونوں دوبارہ اکٹھے ہونا چاہتے ہیں تو اس کی صورت کیا ہو گی؟

احادیث میں حضرت رفاعہؓ کی بیوی کا جو واقعہ مذکور ہے، وہ مسئلہ کی اسی صورت پر مبنی ہے۔ اس خاتون کو اس کے خاوند نے تین طلاقیں دے دی تھیں اور اس نے کسی اور شخص کے ساتھ نکاح کر لیا تھا۔ اور پھر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میں پہلے خاوند کے پاس واپس جانا چاہتی ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک دوسرے خاوند کے ساتھ تمہارے میاں بیوی کے تعلقات قائم نہ ہو جائیں۔

یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کی پہلے خاوند کے پاس جانے کی خواہش پر نکیر نہیں فرمائی، بلکہ اس کا راستہ اور شرط بتائی ہے۔ اس لیے اس عمل پر مطلقاً نکیر کرنا بھی اسوۂ نبویؐ سے مطابقت نہیں رکھتا۔

آخر میں مسئلہ کے ایک اور پہلو پر نظر ڈال لینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ ایک شخص نے طلاق کی شرط کے ساتھ نکاح کیا ہے جو ’’حلالہ‘‘ کی مروجہ صورت ہے، اور جس کے حرام ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے، پھر اس شرط کے مطابق طلاق دے دی ہے۔ تو کیا اس صورت میں یہ عورت پہلے خاوند کے لیے نکاح کی صورت میں مباح ہوتی ہے یا نہیں؟ ایسا کرنا حرام ہے ناجائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ لیکن اگر کسی نے ایسا کر لیا تو کیا اس کے نتائج اس پر مرتب ہوں گے؟

یہ ایک اصولی مسئلہ ہے کہ کسی حرام کام کے ارتکاب کی صورت میں اس کے نتائج مرتب ہوں گے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں احناف کا اصولی موقف یہ ہے کہ کسی حرام یا ناجائز کام کے ارتکاب کی صورت میں اس عمل کا گناہ ہو گا لیکن اس عمل پر احکام ضرور مرتب ہوں گے۔ مثلاً جمعہ کی اذان کے بعد نماز سے فراغت تک خرید و فروخت قرآن کی نص صریح کے مطابق ممنوع ہے۔ لیکن اگر کسی نے اس دوران کسی دوکان سے کوئی چیز خرید لی تو کیا بیع منعقد ہو جائے گی؟ اور کیا خریدنے والا اس چیز کا اور دوکاندار اس کے پیسوں کا شرعاً مالک ہو جائے گا؟ یا دونوں چیزیں دونوں کے لیے حرام رہیں گی؟ احناف کا موقف یہ ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد نماز سے پہلے اگر کسی نے خرید و فروخت کی تو خریدنے والے اور بیچنے والے دونوں نے ناجائز کام کا ارتکاب کیا ہے اور دونوں گناہگار ہوں گے۔ لیکن ان کے اس عمل کے احکام ضرور مرتب ہوں گے، خریدنے والا اس چیز کا اور دوکاندار اس کی قیمت کا شرعاً مالک ہو جائے گا۔

اسی اصول کی بنیاد پر احناف کا موقف ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں تو اس نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے، بدعت کا ارتکاب کیا ہے جس پر وہ گناہگار ہو گا، لیکن اس کی واقع کردہ تینوں طلاقیں مؤثر ہوں گی اور ان کے احکام مرتب ہوں گے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے ’’حلالہ‘‘ کی مروجہ صورت کے مطابق طلاق کی شرط پر نکاح کیا ہے تو نہ صرف اس نے بلکہ اس عمل میں شریک تمام فریقوں نے حرام کا ارتکاب کیا ہے اور وہ سب اس پر گناہگار ہوں گے۔ لیکن اگر اس نے شرط کے مطابق طلاق دے دی ہے تو حرام اور گناہ ہونے کے باوجود اس کا حکم مرتب ہو گا اور اس عورت کے لیے عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند کے ساتھ نکاح شرعاً جائز ہو جائے گا۔

نفسِ مسئلہ کی اس وضاحت کے بعد ہم اپنی پہلی گزارش کی طرف واپس آتے ہیں اور تمام علماء کرام سے خواہ وہ کسی مکتبِ فکر سے متعلق ہیں، ہماری درخواست یہ ہے کہ ازراہِ کرم اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ مغرب اور اس کی ہمنوا کفر کی قوتیں ہمارے خاندانی نظام کو ختم کر کے اسے ویسٹرن سولائزیشن کے معیار پر لانا چاہتی ہیں، جیسا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور قاہرہ کانفرنس اور بیجنگ کانفرنس کی قراردادوں سے ظاہر ہے۔ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نکاح، طلاق اور وراثت کے بارے میں ہمارے مذہبی قوانین ہیں۔ اور ان مذہبی قوانین کے ضمن میں ہمارے فقہی اختلافات کو اجاگر کر کے ہی ان قوانین اور ان پر مبنی خاندانی نظام کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اختلافات کے اظہار میں ہر ممکن احتیاط سے کام لیا جائے اور ویسٹرن سولائزیشن کو اپنے خاندانی نظام میں دخل اندازی کا کوئی مواقع فراہم نہ کیا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter