ملالہ پر حملہ قابلِ مذمت، مگر۔۔۔۔!

   
۲۶ اکتوبر ۲۰۱۲ء

ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کی مذمت اور اس کے لیے دعائے صحت کی اپیل میں پوری قوم کے ساتھ میں بھی شریک ہوں۔ گزشتہ جمعہ کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں نماز جمعہ کے اجتماع کے موقع پر ہم نے اس وحشیانہ حملے کی مذمت کی اور ملالہ کے لیے اجتماعی طور پر دعائے صحت بھی کی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ میں بھی اپنے خاندانی پس منظر کے حوالے سے سواتی ہوں اور یوسف زئی قبیلے سے بھی تعلق رکھتا ہوں۔ البتہ اس سلسلے میں کچھ لکھنے میں تاخیر اس لیے ہو گئی کہ اس دھول کے کسی حد تک بیٹھ جانے کا منتظر تھا، جو اس قدر اچانک اور شدت کے ساتھ اڑا دی گئی تھی کہ کسی کو وقتی طور پر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ اس دوران بعض دوستوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے یہی عرض کیا کہ کچھ غبار بیٹھ جانے دو، پھر اندازہ ہو جائے گا کہ اس المناک واقعہ کا پس منظر، تہہ منظر اور پیش منظر کیا ہے؟ بلکہ ایک دوست کو میں نے عربی کا ایک شعر بھی سنا دیا کہ ؎

فسوف تری اذا انکشف الغبار
أفرس تحت رجلک أم حمار
ترجمہ: عنقریب جب غبار چھٹ جائے گا تو تم خود دیکھ لو گے کہ جس جانور پر تم سوار ہو وہ گھوڑا ہے یا گدھا ہے۔

مگر غبار چھٹنے کے انتظار میں کچھ زیادہ دیر ہو گئی اور نیویارک سے اشرف قریشی پہل کر گئے، کیونکہ میرے تاثرات و احساست بھی کم و بیش وہی ہیں، جن کا قریشی صاحب نے اظہار کر دیا ہے اور میں ان کی اکثر باتوں سے پوری طرح متفق ہوں۔ ہمارا ماتھا اسی وقت ٹھنک گیا تھا جب ہم نے دیکھا کہ ملالہ جس حملے میں زخمی ہوئی ہیں، اسی حملے میں ان کے ساتھ اسی سکول کی دو اور طالبات شازیہ اور کائنات بھی زخمی ہوئی ہیں، لیکن کوریج اور پروٹوکول دونوں حوالوں سے شازیہ اور کائنات اس سلوک کی مستحق قرار نہیں پائیں جو ان کی ایک زخمی ساتھی کو ملا۔ حالانکہ وہ دونوں بھی سوات کی رہنے والی تھیں، اسی سکول کی طالبات تھیں، قوم کی بچیاں تھیں، ایک ہی حملہ میں ملالہ کے ساتھ زخمی ہوئی تھیں اور ان کے جسم سے خارج ہونے والا خون بھی سرخ رنگ کا ہی تھا۔ ڈرون حملوں میں شہید اور زخمی ہونے والے معصوم پاکستانیوں کو ایک طرف رہنے دیں تو بھی یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ ملالہ، کائنات اور شازیہ میں آخر کیا فرق ہے جس نے ان کے درمیان زمین و آسمان جیسا بعد پیدا کر دیا ہے۔

میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ ملالہ کے طرز عمل سے اختلاف رکھنے والوں کو خواہ وہ کوئی بھی ہوں، اس کی جان لینے کا حق نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے اختلافات یا نفرت کے اظہار کے لیے قانون کو ہاتھ میں لینے کا کوئی جواز رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کی یہ حرکت انتہائی قابل مذمت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ شازیہ اور کائنات کے ساتھ تو انہیں بظاہر کوئی اختلاف بھی نہیں تھا اور نہ ہی ان کی کوئی ایسی سرگرمیاں نظر آرہی تھیں جو حملہ آوروں کے لیے اس درجہ قابل اعتراض ہوں، وہ ان کی جان کے کیوں درپے ہوگئے؟ اس لیے میرے نزدیک ملالہ پر قاتلانہ حملہ شدید جرم ہے، لیکن شازیہ اور کائنات کی جان لینے کی کوشش اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین جرم بنتی ہے اور بین الاقوامی لابیوں، میڈیا اور حکمران حلقوں کی طرف سے ان دو مظلوم بچیوں کو نظر انداز کر دینا اور کئی روز تک مسلسل نظر انداز کیے رکھنا جن شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے، وہ غبار چھٹنے اور دھول بیٹھ جانے کے ساتھ اب ایک ایک کر کے سامنے آ رہے ہیں اور مزید کچھ دنوں تک مطلع مزید صاف ہو جائے گا۔

کہا جا رہا ہے کہ اسلام کے بارے میں پاکستانی طالبان کا وژن بہت محدود ہے اور وہ شدید قسم کی تنگ نظری کا شکار ہیں۔ مجھے اس نے اختلاف نہیں، میں خود کئی بار یہ عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کی کوشش کرنے والوں کو اس وسیع تناظر میں اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہو گا، جو پاکستان بننے کے فوراً بعد تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام نے بائیس متفقہ دستوری نکات کی صورت میں پیش کیا تھا اور جس کی بنیاد پر پاکستان کی قومی سیاست میں حصہ لینے والی دینی جماعتیں مسلسل محنت کرتی آ رہی ہیں۔ اس کے ساتھ میں افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے درمیان اس فرق کو بھی بخوبی سمجھتا ہوں کہ افغان طالبان اپنے وطن کی آزادی کے لیے نیٹو افواج کی مسلح مداخلت کے خلاف اسی طرح جہاد میں مصروف ہیں، جس طرح وہ سوویت یونین کی مسلح جارحیت کے خلاف جہاد میں دس سال تک مسلسل مصروف رہے ہیں۔ اسی لیے ان کی جنگ فی الواقع جہاد ہے اور جنگِ آزادی ہے، لیکن پاکستانی طالبان اپنے ہی ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے اپنی ہی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا کر ملک کے جمہور علماء کرام کے اجتماعی موقف سے انحراف کرنے کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کے جہادِ آزادی کے لیے مسلسل مشکلات اور رکاوٹوں کا باعث بھی بنے ہوئے ہیں۔

۔۔۔۔ لیکن سچی بات ہے کہ اس کے باوجود پاکستانی طالبان کے اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ جب جمہوری، دستوری اور پرامن ذرائع سے اسلام کے نفاذ کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا اور ملک کی رولنگ کلاس میں شامل تمام طبقے نفاذِ اسلام کے دستوری، جمہوری اور قانونی اقدامات کے عملی نفاذ کا راستہ مسلسل روکے کھڑے ہیں، تو پھر اس کے سوا اور کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ یا تو سرے سے نعوذ باللہ اسلامی قوانین و احکام کے نفاذ سے ہی دست برداری اختیار کر لی جائے اور یا پھر ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ”جنگ آمد بجنگ آمد“ کا راستہ اپنایا جائے؟ میں پاکستانی طالبان کے موجودہ طرز عمل سے کسی طرح بھی متفق نہیں ہوں اور اپنے اس موقف کا ہر فورم پر کھلے بندوں اظہار کر رہا ہوں، لیکن مجھے یہ بھی پوری طرح اعتراف ہے کہ پاکستانی طالبان کے اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اگر کوئی دانشور اس سوال کے کسی معقول اور قابلِ فہم جواب کی طرف رہنمائی کر سکیں تو میں ان کا شکر گزار ہوں گا۔

امرِ واقعہ یہ ہے کہ نیٹو افواج افغانستان میں طالبان کو شکست دینے اور انہیں منظر سے ہٹا دینے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ افغانستان میں طالبان آج بھی ایک قوت ہیں اور افغانستان کے بہت بڑے حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ امریکہ سمیت عالمی قوتیں ان کے ساتھ مذاکرات کے راستے تلاش کر رہی ہیں اور جلد یا بدیر افغانستان کی قومی سیاست میں افغان طالبان واپس آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس پس منظر میں ہماری حکمران کلاس زمینی حقائق کا ادراک کرنے کی بجائے ”شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار“ کا کردار ادا کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے اور قوم کو ساتھ لے کر چلنے یا قوم کے ساتھ چلنے کا اس کا کوئی پروگرام دکھائی نہیں دیتا۔ اگر ہماری رولنگ کلاس قوم کے ساتھ چلنے کے موڈ میں ہوتی تو پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلوں کو فریز نہ کر دیا جاتا اور وزیر اعظم کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس کے متفقہ موقف کو اس طرح پامال نہ کیا جاتا جس کا افسوس ناک منظر ہم سب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

آج علمائے کرام سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی طالبان کی صرف مذمت نہ کریں، بلکہ عملی طور پر آگے بڑھ کر انہیں اس قسم کی کارروائیوں سے روکنے کا کردار ادا کریں۔ میں بھی اسی لہجے میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے حکمران ڈرون حملوں کی صرف مذمت نہ کریں، بلکہ انہیں روکنے اور اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے عملی اقدام کریں۔ لیکن میں اس مرحلے میں ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی رولنگ کلاس اگر اس بات کی یقین دہانی کرا دے کہ وہ نفاذ اسلام کے لیے پارلیمنٹ کی طرف سے کیے گئے جمہوری فیصلوں پر عمل در آمد میں رکاوٹ نہیں بنے گی اور اس سلسلے میں اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرے گی تو پاکستانی طالبان کو راہ راست پر لانے کے لیے تمام مکاتب فکر کے اکابر علمائے کرام کو ایک پلیٹ فورم پر جمع کرنے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں، اس لیے کہ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے اور ایک ہاتھ سے بجنے والا ہاتھ صرف تھپڑ کہلاتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter