۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ برصغیر یعنی ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، برما وغیرہ خطے پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے اور پھر برطانوی حکومت کے قبضے کے بعد جو آزادی کی تحریکات چلیں ان کے مختلف مراحل کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے میں نے حضرت شاہ ولی اللہؒ اور ان کے خاندان کی خدمات پر، شہدائے بالاکوٹ اور بنگال کے حاجی شریعت اللہؒ کی تحریک پر کچھ گزارشات پیش کی تھیں، اب اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی جس کو ہماری تاریخ کی پرانی کتابوں میں غدر کے نام سے تعبیر کیا جاتا تھا، اس تحریکِ آزادی کے حوالے سے کچھ معلوماتی باتیں بریفنگ کے انداز میں عرض کرنا چاہوں گا۔

میں نے بتایا تھا کہ ۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ میں مجاہدین کا قافلہ شہید ہوا تھا۔ ۱۸۳۱ء، ۱۸۳۲ء کے دوران ہی مشرقی بنگال ڈھاکہ فرید پور میں حاجی شریعت اللہ صاحبؒ کی تحریک آگے بڑھی تھی۔ اسی دوران مغربی بنگال کلکتہ میں ایک اور مجاہد امیر نثار علی کھڑے ہوئے تھے جو کہ تیتو میر کے نام سے معروف ہیں، انہوں نے بغاوت کی تھی اور خاصا عرصہ جنگ کرتے رہے، پھر شہید ہو گئے۔ یہ سید احمد شہیدؒ کے ساتھیوں میں سے تھے یعنی ان کے ملنے والوں میں سے تھے۔ ان کا محاذ مغربی بنگال کلکتہ وغیرہ تھا۔ اسی دوران سندھ میں سید صبغت اللہ شاہ اولؒ جو پیر پگارا کے نام سے مشہور تھے انہوں نے حروں کی بنیاد رکھی تھی، اور سید احمد شہیدؒ جب سندھ کے علاقے سے گزرے تھے تو ان کا استقبال کرنے والے اور ان کو سپورٹ کرنے والوں میں سے پیر پگارا سید صبغت اللہؒ تھے۔ یہ سب معاصر تحریکیں تھیں۔ تحریکیں چلیں، بغاوتیں ہوئیں، مقابلے ہوئے، لڑائیاں ہوئیں۔

اس کے بعد ایک بڑا معرکہ برپا ہوا جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے معروف ہے۔ اس کے اسباب میں ایک بات تو بہرحال یہی تھی کہ برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے برطانوی انگریزوں کی جو تجارتی کمپنی تھی اس نے اپنی فوجیں منظم کر کے ہندوستان کے بہت سے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ بنگال اور میسور وغیرہ بھی آہستہ آہستہ قبضے میں لے لیے اور باقی ریاستوں کے نوابوں کے ساتھ معاہدات کر لیے، لیکن ان معاہدات کو توڑتے توڑتے باقی علاقوں پر بھی قبضے کرتے چلے جا رہے تھے۔ اس لیے بنیادی سبب تو یہ تھا کہ یہاں کے مسلمانوں اور ہندوؤں میں یہ احساس تھا کہ ہم غلام ہو گئے ہیں، ہم پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے انگریزوں کا قبضہ ہو گیا ہے اور ہم ان کی غلامی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اصل یہ جذبۂ حریت تھا، غلامی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ جذبے میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔

اصل سبب تو یہ تھا لیکن فوری اسباب میں دو تین باتیں ایسی ہوئی ہیں جن سے وہ جذبات جو موجود تھے وہ مختلف علاقوں میں بھڑکے اور مسلمانوں اور ہندوؤں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں کے خلاف بغاوت کی اور لڑائی لڑی۔

(۱) مثال کے طور پر ایک سبب یہ بنا کہ اودھ کی ریاست جس کا دارالحکومت لکھنؤ تھا ایک بڑی ریاست تھی، اس کے نواب واجد علی شاہ تھے اور انگریزوں کا ان سے معاہدہ تھا۔ انگریزوں نے ان کو ریاست کا بادشاہ اور نواب تسلیم کر رکھا تھا، لیکن ۱۸۵۶ء میں نہایت مکروہ طریقے سے انگریزوں نے وہ معاہدہ منسوخ کر کے واجد علی شاہ کو معزول کر دیا، ان کی سلطنت کو اپنی قلم رو میں شامل کر کے قبضہ کر لیا۔ واجد علی شاہ کلکتہ چلے گئے۔

لکھنؤ میں انگریزوں نے اپنی عملداری قائم کرنا چاہی جس کے خلاف وہاں بغاوت ہوئی اور دو شخصیتیں ہیں جنہوں نے اس بغاوت میں بہت اہم کردار ادا کیا: ایک واجد علی شاہ کی بیگم حضرت محل، اس خاتون نے بہادری کا مظاہرہ کیا اور دنیا نے مانا۔ وہ مردانہ لباس میں اور مردانہ ہیئت میں اپنی فوجوں کی کمان کرتی تھی، انگریزوں کے خلاف بغاوت کی اور ایک عرصے تک میدان جنگ میں انگریزوں کا مقابلہ کیا اور بہت دفعہ شکست دی۔ دوسری طرف علماء میں مولانا احمد اللہ شاہ مدراسیؒ کا اہم کردار ہے۔ ان دو کے علاوہ اور بھی لوگ تھے۔

اس واقعے نے اور زیادہ غصہ پیدا کر دیا کہ جو معاہدات کیے تھے وہ معاہدات توڑ کر ایسٹ انڈیا کمپنی ہمارے ملکوں میں قبضہ کرتی جا رہی ہے۔ اودھ کی ریاست یا لکھنؤ کی ریاست کے ختم ہونے سے اور انگریزوں کی غداری نے جذبات اور زیادہ بھڑکا دیے۔

پھر پورے ملک میں ملک کے مختلف حصوں میں بغاوت کے شعلے بھڑکے اور کچھ علاقوں کی آپس میں تنظیم تھی کہ ہم مل کر بغاوت کریں گے۔ تاریخی روایات میں آتا ہے کہ چونکہ آپس میں جوڑ کے لیے ہر زمانے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے، آج کل تو میسج سسٹم ہے، اس زمانے میں یہ تو نہیں ہوتا تھا تو علامت کے طور پر چپاتیاں تقسیم ہوتی تھیں۔ خاص قسم کی چپاتیاں پکا کر دوسرے کو بھجواتے تھے، یہ تعلق کی علامت ہوتی تھی۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ ان پر کچھ لکھا ہوتا تھا جو آگ کے سامنے پڑھا جاتا تھا۔ بہرحال چپاتیوں کی تقسیم اتنے منظم طریقے سے ہوتی تھی کہ اس نے انگریز کو پریشان کر دیا کہ یہ چپاتیاں جو تقسیم ہو رہی ہیں، اندر اندر کوئی سازش ہے۔

(۲) ایک اور بڑا مسئلہ جو فوری سبب بنا وہ یہ تھا کہ میرٹھ کی چھاؤنی میں فوجیوں نے ہی بغاوت کر دی۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ آج کل تو کلاشنکوف ہے اور گولیاں ہیں۔ اس زمانے میں ہتھوڑے دار بندوقیں ہوتی تھیں، کارتوس کو دانتوں سے کھول کر اندر رکھا جاتا تھا اور پھر گولی چلتی تھی۔ فوجیوں میں مشہور ہو گیا کہ انگریزوں نے کارتوس پر گائے کی چربی اور سور کی چربی لگائی ہوتی ہے۔ گائے ہندوؤں کے ہاں مقدس ہے اور وہ اسے ماں کا درجہ دیتے ہیں۔ اور مسلمانوں کے لیے سور کی چربی ناقابل استعمال ہے۔ وہاں فوجوں میں یہ بات پھیل گئی کہ یہ کارتوس انہوں نے جان بوجھ کر ہمارا دین خراب کرنے کے لیے بنائے ہیں اور ان میں گائے کی چربی اور سور کی چربی بھری ہے۔ میرٹھ اور انبالہ کی چھاؤنیوں میں کارتوس تقسیم ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ہم یہ کارتوس نہیں لیں گے۔ جس پر افسروں کے ساتھ فوجیوں کا جھگڑا ہو گیا، اور پھر فوجیوں نے افسروں کے خلاف بغاوت کر دی۔

اس وقت حکومت کی صورتحال یہ تھی کہ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بہادر شاہ ظفر سے پہلے شاہ عالم ثانی کے زمانے میں بہادر شاہ ظفر سے ایک معاہدہ کر لیا تھا کہ بادشاہ تم رہو گے، حکومت ہم کریں گے۔ جس طرح ملکہ برطانیہ الزبتھ ہے کہ اس کا اپنے محل کے اندر بھی کوئی اختیار نہیں ہے، سارے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہیں۔ اسی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے شاہ عالم ثانی پھر بہادر شاہ ظفر سے معاہدہ کر لیا کہ تمہارے نام پر ہم حکومت کریں۔ میں نے بتایا تھا کہ اس وقت یہ نعرہ لگا ”زمین خدا کی، ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی بہادر کا“ یعنی زمین تو اللہ کی ملک ہے، ملک کی بادشاہت بہادر شاہ ظفر کی ہے، لیکن قانون کمپنی کا چلے گا۔ اس طرح بہادر شاہ ظفر کے نام پر کمپنی کے افسر حکومت کرتے رہے۔ اسی کے خلاف ۱۸۰۳ء میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا تھا کہ یہ اسلامی مملکت نہیں رہی اور یہ اعلان کیا تھا کہ انگریزی اقتدار ختم کرنے کے لیے جہاد فرض ہو گیا ہے۔

چنانچہ ۱۸۵۷ء میں انگریز کے خلاف مختلف مقامات پر بغاوت ہوئی، جو مقامات میرے ذہن میں ہیں ان میں دہلی، لکھنؤ، انبالہ، میرٹھ کے علاوہ مردان، مری اور اوکاڑہ کے علاقے ہیں، بیسیوں مقامات ہیں جہاں بغاوت کے شعلے بھڑکے اور پھر ایک وقت آیا کہ جنرل بخت خان کی قیادت میں باغی فوجیں اکٹھی ہو کر دہلی میں داخل ہوئیں اور قبضہ کر لیا۔ جب یہ دہلی میں داخل ہوئے تو انہوں نے کہا کہ بہادر شاہ ظفر ہی ہمارے بادشاہ ہوں گے، ہم ان کی حکومت تسلیم کرتے ہیں اور انہیں اختیارات واپس ملنے چاہئیں۔ جنرل بخت خان کو بہادر شاہ ظفر نے شاہی فوجوں کا کمانڈر انچیف بنا دیا۔ بہادر شاہ ظفر نے سرپرستی قبول کر لی کہ ہماری پرانی سلطنت بحال ہو جائے گی۔

دہلی پر جنرل بخت خان کا قبضہ انگریز تو شاید نہ چھڑا سکتے کہ ان کے پاس اب اتنی ہمت نہیں تھی، لیکن پنجاب سے سکھوں کی تازہ دم پندرہ ہزار فوج گئی جنہوں نے پھر انگریزوں کی حمایت میں لڑائی لڑی۔ اس فوج کا ایک چھوٹا سا حوالہ ذکر کر دوں کہ مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کو اپنی وفاداری یاد دلاتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے باپ مرزا غلام قادر نے انگریزوں کی حمایت میں دہلی میں مسلمانوں سے لڑنے کے لیے پچاس سواروں کا دستہ بھیجا تھا۔ میرا باپ بھی تمہارا وفادار تھا، میں بھی تمہارا وفادار ہوں۔ یہ تھوڑا سا منظر ہے کہ یہاں سے فوجیں گئیں اور کچھ اندر سے لوگوں سے غداری کی۔ دہلی پر کئی مہینے قبضہ رہا، تقریباً چار مہینے تک کشمکش رہی۔ کہتے ہیں کہ ۱۰ مئی کو میرٹھ سے بغاوت کا آغاز ہوا تھا اور ۱۹ ستمبر کو جنرل بخت خان کو دہلی چھوڑنا پڑا تھا اور مجاہدین کی فوجیں شکست کھا گئیں۔

مؤرخین تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ شکست کیوں ہوئی تھی۔ کیونکہ جب کسی محاذ پر ناکامی ہوتی ہے تو ناکامی کے اسباب بھی دیکھے جاتے ہیں۔ جیسا کہ احد کی جنگ میں وقتی طور پر ناکامی ہوئی تھی، مسلمان غالب آتے آتے رک گئے تھے، افراتفری مچی، ستر صحابہ شہید ہو گئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے، نقصان اٹھانا پڑا تو قرآن پاک نے تین رکوع میں اس کے اسباب بیان کیے کہ یہ شکست کیوں ہوئی تھی اور ڈانٹا بھی۔ اس لیے اپنی ناکامیوں کے اسباب بھی دیکھنے چاہئیں، خالی جذبات تو کچھ نہیں کرتے۔

مورخین ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی شکست کے بہت سے اسباب بیان کرتے ہیں، لیکن دو بڑے سبب بیان کرتے ہیں: ایک یہ کہ دہلی میں اتنی لوٹ مار شاید کبھی کسی نے کی ہوئی جتنی انہوں نے کی تھی۔ اتنی لوٹ مار کی کہ دہلی والے متنفر ہو گئے کہ انگریز ٹھیک تھے کہ عزتیں تو محفوظ تھیں، مال تو محفوظ تھا، جان تو محفوظ تھی۔ دہلی پر جو چار مہینے رہے تو لوٹ مار ہی کرتے رہے۔ جنرل بخت خان نے کنٹرول کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کنٹرول نہیں کر سکا۔ شکست کا دوسرا بڑا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ آپس میں رابطے نہیں تھے، فوجوں میں آپس میں نظم کوئی نہیں تھا۔ ایک جتھہ ادھر سے آ رہا ہے، ایک ادھر سے آ رہا ہے، جنرل بخت خان کی کمان تو تھی لیکن سارے آزاد تھے۔ ایک گروپ وہاں لڑ رہا ہے، دوسرا گروپ وہاں لڑ رہا ہے، ہر ایک اپنی مرضی سے لڑ رہا ہے، تو اس سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا اور دوبارہ دہلی پر قبضہ کر لیا۔

پھر دوسرے علاقوں پر قبضہ ہوا اور آہستہ آہستہ کنٹرول انگریزوں نے قائم کر لیا اور فرق صرف یہ پڑا کہ پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ایک کاروباری کمپنی حکومت کرتی تھی، اب کمپنی کو ہٹا کر حکومتِ برطانیہ نے سارے ہندوستان کی براہ راست کمان سنبھال لی اور یہاں تاج برطانیہ کی حکومت قائم ہو گئی۔

یہ بنیادی بات میں نے ذکر کی ہے کہ بغاوت ہوئی لیکن اس میں ہم کامیاب نہیں ہو سکے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں جو اہم مراکز تھے، ان میں ایک تو دہلی کا مرکز تھا، لدھیانہ میں علمائے لدھیانہ نے بھی جہاد کا فتویٰ دیا اور آزادی کی جنگ لڑی، ان کا ایک الگ معرکہ ہے۔ اسی زمانے میں اوکاڑہ کے علاقے میں سردار احمد خان کھرل شہید نے بہادر شاہ ظفر کی حمایت میں انگریزوں کے مقابلے میں بغاوت کر دی۔ آٹھ سال تک لڑتے رہے پھر شہید ہو گئے، اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائیں، مردان میں بغاوت ہوئی۔ جھانسی ایک ریاست تھی، اس کی رانی نے بھی جنگ لڑی ہے۔ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں دو عورتوں نے جنگوں کی کمان کی: لکھنؤ کی حضرت محل نے اور جھانسی کی ہندو رانی نے۔ حضرت محل تو مسلمان تھی اور مسلمان فوجوں کی کمان کی ہے، رانی جھانسی ہندو تھی لیکن وطن کی آزادی کے لیے اور انگریزوں کو نکالنے کے لیے اس نے بھی انگریزوں سے بڑی بہادری سے جنگ لڑی۔ اس لیے ان دونوں خواتین کا تذکرہ دنیا کی بہادر ترین خواتین میں کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے وطن کی آزادی کے لیے دشمنوں کو نکالنے کے لیے میدان جنگ میں کئی سال تک لڑائی لڑی۔

جنرل بخت خان اور مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی نے بھی جنگ لڑی، لیکن میں ایک معرکے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس سے ہماری اگلی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ اسے ہم شاملی کا محاذ کہتے ہیں۔ تھانہ بھون، دیوبند، مظفرنگر کے سارے علاقہ کی تحصیل شاملی تھی جو ایک بڑا شہر تھا۔ اس علاقہ میں بھی بغاوت کا فیصلہ ہوا تھا۔ شاملی کے محاذ پر علماء لڑے۔ بہت سے علاقوں میں صرف مسلمان نہیں لڑے، ہندو بھی لڑے، نواب بھی لڑے، نوابوں کے بیٹے بھی لڑے، دیندار بھی لڑے اور دنیادار بھی، لیکن بعض محاذ ایسے ہیں جہاں صرف علماء لڑے، ان میں شاملی کا محاذ بھی تھا۔ اس کے مجاہدین میں لڑنے والوں میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی، حضرت حافظ ضامن شہید اور مولانا عبد الجلیل کیرانوی شہید رحمہم اللہ تعالیٰ شامل ہیں۔ یہ علماء کا ایک گروپ تھا جنہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی میدان میں آتے ہیں۔ ان میں اختلاف بھی ہوا کہ جہاد میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں لینا چاہیے اور اس طرح جنگ لڑنا جہاد ہے یا نہیں ہے؟

تھانہ بھون میں اس وقت سجادہ نشین حضرت مولانا محمد تھانویؒ تھے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ چشتی سلسلے کے بڑے پیر تھے، باقی سارے ان کے مرید ہیں۔ یوں سمجھیے کہ ایک خانقاہ نے، پیر خانے نے جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ مشاورت ہوئی کہ میرٹھ میں بغاوت ہو گئی ہے، فلاں جگہ ہو گئی ہے، فلاں جگہ ہو گئی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ یہ بڑی دلچسپ داستان ہے، پڑھنی ہو تو مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے ’’سوانح قاسمی‘‘ میں بڑی تفصیل سے اس پر لکھا ہے۔ تھانہ بھون کی خانقاہ میں مشاورت ہوئی کہ لڑائی میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں لینا چاہیے۔ بہت سے علماء کی رائے تھی کہ نہیں لینا چاہیے۔ اعتراض یہ کیا کہ جب تک کوئی امیر نہ ہو، اس وقت تک لڑائی جہاد نہیں بنتا، تو مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے کہا کہ ہمارے پیر صاحب بیٹھے ہوئے ہیں، یہی ہمارے جہاد کے امیر ہیں۔ میں بیعت کرتا ہوں تم بھی بیعت کرو۔ ایک اشکال یہ ہوا کہ ہمارے پاس اسلحہ نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ تم فیصلہ کرو، اللہ پاک اسلحہ کا انتظام بھی کر دے گا۔

یہ بھی عجیب قصہ تھا کہ جہاد میں حصہ لینے کا یہ مشورہ ہو رہا تھا تو پتہ چلا کہ میرٹھ کی بغاوت کے بعد انگریزوں کا ایک توپ خانہ جا رہا ہے اور قریب سے گزر رہا ہے، انہوں نے فیصلہ کیا کہ رات کو چھاپہ ماریں گے اور اسے پکڑیں گے۔ دن کو فیصلہ کیا اور رات کو قافلہ روک کر سارے اسلحے پر قبضہ کر لیا، پھر اسی اسلحے سے لڑائی لڑی اور شاملی کی پوری تحصیل انہوں نے آزاد کرا لی۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ امیر تھے، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کمانڈر انچیف تھے اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ قاضی القضاۃ تھے۔ یہ تقسیم کار تھی اور سترہ دن انہوں نے شاملی میں حکومت کی۔ اگر دہلی میں شکست نہ ہوتی تو ان کی یہ حکومت چلتی رہتی، لیکن دہلی کی شکست کے بعد آہستہ آہستہ یہ سارے تقسیم ہوتے گئے۔

اس وقت مختلف مقامات پر بغاوت کے شعلے بھڑکے اور لوگوں نے بڑے مجاہدانہ جذبے کے ساتھ، بڑی جرأت اور بڑے حوصلے کے ساتھ آزادی کی جنگ میں حصہ لیا، لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ آزادی کی اس جنگ میں حصہ لینے کے بعد جب مجاہدین کو شکست ہوئی اور انگریزوں نے دوبارہ دہلی پر، میرٹھ، لکھنؤ اور شاملی پر قبضہ کر لیا، تو پھر انگریز نے مجاہدین آزادی سے جو انتقام لیا ہے وہ بھی ایک مستقل تاریخ ہے۔

میں ۱۹۸۰ء میں جب صد سالہ اجلاس کے موقع پر میں دیوبند گیا تو وہ مسجد دیکھی جس میں علماء مشاورت کے لیے جمع ہوئے تھے اور انہیں گھیرے میں لے کر ان پر چاروں طرف سے فائرنگ کر کے سب کو شہید کر دیا گیا تھا۔ گولیوں کے نشان اب تک باقی تھے۔ یہ بات درست ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے ساتھ مجاہدین نے جو سلوک کیا تھا اسے انگریز ہمیشہ یاد رکھیں گے، لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ انتقام میں انگریزوں نے مجاہدین کے ساتھ جو حشر کیا وہ بھی تاریخ یاد رکھے گی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد ان مجاہدین آزادی پر جو مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں اور ان سے جو انتقام لیا گیا ہے وہ تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ یہ داستان پڑھنے کے لیے دو کتابوں کا حوالہ دوں گا:

(۱) ایک کتاب مولانا امداد صابری مرحوم کی ’’تاریخِ جرم و سزا‘‘ ہے۔ یہ اپنے زمانے میں دہلی کے ڈپٹی میئر رہے ہیں۔ ان کی یہ کتاب دو جلدوں میں ہے جس میں انہوں نے تاریخ کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ کس کس دور میں کیا کیا سزائیں دی گئیں اور انگریزوں نے ہندوستان میں دوبارہ قبضے کے بعد مجاہدین آزادی کو انتقاماً کیا کیا سزائیں دیں۔ ان میں سے صرف دو تین کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ کہتے ہیں کہ تقریباً تیس ہزار علماء کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مجاہدین کو سور کی کھال میں ڈال کر آگ میں ڈال دیا گیا۔ ایک ایک توپ کے منہ پر پانچ پانچ آدمیوں کو باندھ کر گولے سے اڑا دیا جاتا۔ زندہ انسان کو ننگا کر کے گھٹنوں تک زمین میں گاڑ کر اوپر دہی ڈال کر بھوکے کتے چھوڑے جاتے تھے۔ کالاپانی اُس زمانے کا گوانتاناموبے تھا۔ ہزاروں علماء کو اور تحریک آزادی کے کارکنوں کو کالاپانی بھیج دیا گیا۔

ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں جو اس سے ذرا پہلے کا ہے۔ شہدائے بالاکوٹ کے ساتھ جنگ آزادی میں کشمیر کے لوگ بھی شریک تھے، کشمیر کا راجہ گلاب سنگھ تھا، اس کی خود اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب ’’گلاب نامہ ہے‘‘ جس میں اس نے لکھا ہے کہ میں نے سردار سبز علی اور سردار قلی خان کو ہزارہ میں جا کر شورش پسندوں کے ساتھ شریک ہونے کے جرم میں یہ سزا دی کہ پلندری کا سارا علاقہ اکٹھا کیا اور ان دونوں کو درختوں کے ساتھ الٹا لٹکوا کر زندہ حالت میں ان کی کھالیں اتروائیں تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔ گلاب سنگھ بیٹھا تماشا دیکھ رہا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ جب سردار سبز علی شہید کی سینے تک کھال پہنچی تو اس نے پانی مانگا مگر میں نے کہا کہ اسے پانی نہیں دینا۔ یہ میں صرف ایک ہلکی سی جھلکی بیان کی ہے۔

(۲) دوسری الحاج مرزا غلام نبی جانباز مرحوم کی کتاب ہے جس کا نام ہے ’’بڑھتا ہے ذوقِ جرم میرا ہر سزا کے بعد‘‘۔ جانباز مرزا مرحوم ہمارے تحریک آزادی کے بڑے سرگرم رہنماؤں میں سے ہیں، بڑے شاعر تھے، مجاہد تھے، میرا ان سے خاصا تعلق رہا ہے، انہوں نے چودہ سال جیل کاٹی ہے۔ اس کتاب میں اپنی داستان بھی لکھی ہے اور پچھلی تاریخ بھی لکھی ہے کہ کس کس زمانے میں کن کن لوگوں کو کس کس جرم میں کیا کیا سزا دی گئی تھی۔

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اصل میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مظالم کے خلاف تھی، جو مظالم غلامی کی صورت میں تھے، جو مظالم معاہدات توڑنے کی صورت میں تھے، مختلف ریاستوں پر قبضہ کرنے کی صورت میں تھے، بھاری ٹیکس لگانے کی صورت میں تھے، اور یہاں کی صنعت کو برباد کرنے کی صورت میں تھے۔ کمپنی نے یہاں کیا کیا مظالم ڈھائے یہ اگر پڑھنا ہو تو باری علی کی ’’کمپنی کی حکومت‘‘ کے نام سے کتاب موجود ہے۔ اور اگر زیادہ تفصیل پڑھنا چاہیں تو حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی خود نوشت سوانح ’’نقشِ حیات‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں ہے۔ اس میں حضرت مدنیؒ نے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ انگریز یہاں کیسے آئے تھے، یہاں کی صنعت و حرفت کو کیسے برباد کیا، یہاں زمینداریاں قائم کر کے عام لوگوں کو کیسے غلام بنایا، یہاں انسانوں اور ہاریوں کے ساتھ کیا سلوک کیا، یہاں کی تجارت کا کیسے بیڑا غرق کیا۔ اس میں پوری تفصیل لکھی ہے کہ کمپنی کی حکومت نے ہندوستان کو نچوڑ کر اس کی دولت اپنے ہاں لے جانے کے لیے کیا کیا مظالم کیے۔

میں نے یہ ذکر کیا کہ ہمارا تحریک آزادی کا ایک مرحلہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ہے، جس میں ملک کے مختلف حصوں میں مجاہدینِ آزادی نے علمِ بغاوت بلند کیا، انگریز فوجوں سے لڑے اور دہلی کو انگریزوں سے خالی کروایا، لیکن پھر اپنی بدنظمی کی وجہ سے اور بہت سے لوگوں کی غداری کی وجہ سے ناکام ہوئے اور دہلی پر انگریزوں نے براہ راست حکومت قائم کر لی۔ پھر ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کر دی گئی اور برطانیہ کی حکومت نے ہندوستان کا نظم سنبھال لیا۔ اس کے بعد یہاں کے نظام کو جس طریقے سے بگاڑا گیا اور ۱۸۵۷ء کے بعد کیا تبدیلیاں آئیں اور ان کے نتیجے میں ہمارے بزرگوں نے اپنے مستقبل کے لیے کیا راستہ اختیار کیا؟ اس پر بات ان شاء اللہ اگلی نشست میں ہو گی۔

2016ء سے
Flag Counter