مرزا طاہر احمد اور امریکی امداد

   
۸ جنوری ۱۹۸۸ء

قادیانی امت کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے ’’انسانی حقوق کی پامالی‘‘ کا شور مچا کر پاکستان کو بدنام کرنے اور پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف آئینی و قانونی اقدامات کو غیر مؤثر بنانے کا جو منصوبہ منظم کیا تھا وہ بحمداللہ ناکام ہو چکا ہے اور عالمی سطح پر قادیانی مکر و فریب کا پردہ چاک ہو رہا ہے۔ پاکستان میں امتناع قادیانیت کے صدارتی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد مولانا اسلم قریشی کے اغواء کے کیس میں مرزا طاہر احمد کو شاملِ تفتیش کرنے کے مطالبہ میں شدت پیدا ہوتے ہی مرزا طاہر احمد نے راہِ فرار اختیار کر کے لندن میں پناہ لی اور قادیانی منصوبہ سازوں نے عالمی سطح پر اس منصوبہ کا آغاز کیا کہ پاکستان میں قادیانیوں کے خودساختہ انسانی حقوق کی پامالی کا شور مچا کر عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا جائے اور پھر مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ پاکستان کی فوجی و اقتصادی امداد کو قادیانیوں کے نام نہاد انسانی حقوق کی بحالی کے ساتھ مشروط کر کے حکومتِ پاکستان کو ان آئینی و قانونی اقدامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر مجبور کر دیں جو ملت اسلامیہ کے مسلسل مطالبات اور جدوجہد کے نتیجے میں ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم اور ۱۹۸۴ء کے صدارتی آرڈیننس کی صورت میں نافذ کیے گئے تھے۔

مرزا طاہر احمد نے اس مقصد کے لیے لندن کو اپنی عالمی تحریک کا مرکز بنایا لیکن برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کی بیداری اور سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس کے مسلسل انعقاد کی وجہ سے برطانوی رائے عامہ کو اپنے ڈھب پر لانے میں اسے کامیابی نہ ہوئی۔ البتہ جنیوا کے بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن سے ایک قرارداد منظور کرانے میں قادیانی گروہ کامیاب ہوگیا جس میں قادیانیوں کے بارے میں مذکورہ آئینی و قانونی اقدامات کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان پر ان کی واپسی کے لیے زور دیا گیا تھا۔ اس قرارداد کی منظوری میں جنیوا میں پاکستان کے قادیانی سفیر مسٹر منصور احمد نے بنیادی کردار ادا کیا اور اسی قرارداد کو بنیاد بنا کر قادیانی گروہ نے امریکی رائے عامہ اور حکمرانوں پر اثر انداز ہونے کی مہم کا آغاز کیا۔

عالمی شہرت یافتہ قادیانی سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام نے امریکی سینٹ اور کانگریس کے ارکان کے نام ایک مفصل خط میں قادیانیوں کے نام نہاد انسانی حقوق کی پامالی کا واویلا کر کے ان پر زور دیا کہ وہ پاکستان کو آئندہ مدت کے لیے دی جانے والی چھ ارب ڈالر کی امداد کو اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیں کہ پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف اب تک کیے گئے آئینی و قانونی اقدامات واپس لیے جائیں اور آئندہ کوئی کارروائی نہ کرنے کا یقین دلایا جائے۔ چنانچہ اس واویلا اور پراپیگنڈہ سے متاثر ہو کر امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کے لیے امداد کو جن شرائط کے ساتھ مشروط کرنے کی باضابطہ سفارش کی ان میں قادیانیوں کے بارے میں مذکورہ بالا شرط بھی شامل تھی۔ اس طرح قادیانی جماعت نے اپنے خودساختہ گروہی مفادات کی خاطر نازک ترین حالات میں پاکستان کے لیے امریکی امداد کی بندش اور رکاوٹ کے حالات پیدا کر کے روایتی ملک دشمنی کا اعلانیہ مظاہرہ کیا۔ لیکن کاٹھ کی یہ ہنڈیا زیادہ دیر تک حقائق کے چولہے پر سچ کی آگ کا سامنا نہ کر سکی اور اس سازش کے منظر عام پر آتے ہی پاکستان کے اندر اور باہر سطح پر قادیانی مکر و فریب کا تانا بانا بکھرنے لگا۔

پاکستان میں جمعیۃ علماء اسلام نے اس سازش کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند کی اور تمام دینی حلقوں کو اس طرف توجہ دلا کر انہیں اس کی سنگینی سے آگاہ کیا اور اس کے بعد جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے اس منصوبہ کو بے نقاب کرنے کی مسلسل مہم چلا کر اس سلسلہ میں پاکستان کی رائے عامہ کی ترجمانی کی۔ جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے امیر حضرت مولانا میاں محمد اجمل قادری اور راقم الحروف کو اللہ رب العزت نے گزشتہ سال اگست کے دوران چند روز کے لیے امریکہ جانے کا موقع مرحمت فرمایا اور بحمد اللہ تعالیٰ ہم نے وہاں مقیم پاکستانی احباب کو اس بارے میں توجہ دلانے اور ردعمل کے اظہار کے لیے منظم کرنے میں حسب توفیق کام کیا۔ ستمبر کے دوران برطانیہ میں منعقد ہونے والی عالمی ختم نبوت کانفرنس میں قادیانیوں کی اس سازش سے پردہ اٹھاتے ہوئے عالمی رائے عامہ کو قادیانی دجل و فریب سے آگاہ کیا گیا۔ جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سندھ کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے گزشتہ اکتوبر کا پورا مہینہ امریکہ کے مختلف شہروں کا دورہ کر کے پاکستانی مسلمانوں کو اس سلسلے میں منظم و بیدار کیا۔

فیصل آباد کے معروف اہل حدیث عالم دین مولانا حافظ محمد صدیق انور ایک عرصہ سے امریکہ کے شہر شکاگو میں مقیم ہیں اور وہاں سے اردو اور انگلش میں ایک ماہنامہ اخبار ’’پاکستانی‘‘ کے نام سے شائع کرتے ہیں، انہوں نے اس ضمن میں نمایاں کردار ادا کیا۔’’پاکستانی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مسلمان تنظیموں کی مشترکہ فیڈریشن نے امریکی صدر مسٹر ریگن اور کانگریس و سینٹ کے ارکان کے نام مفصل خط کے ذریعے انہیں قادیانی جماعت کی اصلیت اور عزائم کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف ان کی سازشوں سے خبردار کیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے سابق طالب علم راہنما اور تحریک اسلامی شمالی امریکہ کے امیر جناب عبد الشکور نے بھی پاکستان کی امداد کے لیے امریکی شرائط کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنے میں مؤثر کام کیا۔

ان تمام مساعی کا مقصد عالمی رائے عامہ کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا تھا کہ قادیانی گروہ ملت اسلامیہ سے مختلف اور متضاد نظریات و عقائد رکھتے ہوئے بھی خود کو زبردستی مسلمانوں کی صف میں شامل رکھنے پر مصر ہے جبکہ پوری دنیا کے مسلمان اس گروہ کو ملت اسلامیہ کے حصہ کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی طرح قادیانی گروہ مسلمانوں کے مخصوص مذہبی شعائر اور امتیازات کو استعمال کرنے پر اصرار کر کے دراصل اشتباہ اور دھوکہ کی ایسی فضا قائم رکھنا چاہتا ہے جس کے ذریعے وہ خود کو دنیا کے سامنے مسلمان ظاہر کر سکے۔ اس لیے یہ مسئلہ انسانی حقوق کا نہیں بلکہ دھوکہ، دجل اور فریب کے خاتمہ کا ہے۔ اور امریکی راہنماؤں اور عالمی رائے عامہ کو اس سلسلے میں قادیانی دجل و فریب کی پشت پناہی نہیں کرنی چاہیے۔

بحمد اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس محاذ پر خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے جس کا سب سے پہلا مظاہرہ اس وقت ہوا جب امریکہ کے دونوں ایوانوں کانگریس اور سینٹ کی مشترکہ کمیٹی سے خطاب کے لیے مرزا طاہر احمد کو باضابطہ دعوت دی گئی لیکن امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی مختلف تنظیموں کے احتجاج اور صدر ریگن کے نام مسلم تنظیموں کی فیڈریشن کے خط کے بعد خطاب کا یہ پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔ جبکہ مرزا طاہر احمد نے پاکستان کے اخبارات میں اس کا ذکر مگرمچھ کے ان آنسوؤں کے ساتھ کیا کہ چونکہ اس خطاب کی دعوت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے دی گئی تھی اس لیے میں نے انکار کر دیا ہے۔

مگر جب پاکستان کے اخبارات نے امریکی سینٹ اور کانگریس کے ارکان کے نام قادیانی تنظیموں کے اس خط کا متن شائع کر دیا جس میں پاکستان کی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا تو مرزا طاہر احمد کے جھوٹ کا بھانڈا چوراہے میں پھوٹ گیا اور اب یہ خبر پاکستان بھر کے مسلمانوں کے لیے اطمینان اور مسرت کا باعث ہوگی کہ امریکی ایوان نمائندگان نے پاکستان کے لیے امداد کی منظوری دے دی ہے اور اسے امریکی صدر کی طرف سے سرٹیفکیٹ کی مذکورہ شرط سے بھی مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے جس کے ذریعے یہ طے کیا گیا تھا کہ امریکی صدر ہر سال دوسرے متعدد امور کے ساتھ اس امر کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کریں گے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے حقوق کی پامالی کے اقدامات نہیں کیے جا رہے اور اس کے ساتھ ہی بحمد اللہ تعالیٰ مرزا طاہر احمد کا وہ منصوبہ فلاپ ہوگیا ہے جو امریکی امداد کی بندش کا ہوا دکھا کر پاکستان میں ناجائز مراعات حاصل کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

   
2016ء سے
Flag Counter