روزنامہ نیشن لندن نے ۶ جون ۱۹۹۸ء کو خبر دی ہے کہ ازبکستان کی حکومت نے تین ہزار مساجد کو بند کر کے ان میں شاپنگ سنٹر کھولنے کا فیصلہ کیا ہے اور وزارتِ انصاف کے ایک ترجمان کے مطابق بائیس مساجد کو اس پالیسی کے تحت اب تک بند کیا جا چکا ہے۔
وسطی ایشیا کی ان ریاستوں میں روس کے کمیونسٹ انقلاب کے تسلط کے بعد مساجد کو بند کر دیا گیا تھا اور نماز کا اجتماعی اہتمام اور دینی تعلیم ممنوع قرار دے دی گئی تھی۔ راقم الحروف نے چند سال قبل تاشقند اور سمرقند میں خود ایسی مساجد دیکھی ہیں جو کمیونسٹ دور میں سیمنٹ کے گودام اور سینما ہال کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں۔
جہادِ افغانستان کے بعد روس کو اس خطہ سے واپس جانا پڑا اور سوویت یونین بکھر گیا تو یہ ریاستیں آزاد ہوئیں، لیکن ان میں حکومتیں ابھی تک وہی چلی آ رہی ہیں جو کمیونسٹ دور میں تھیں، اس لیے ان کا مزاج اور طریق کار ابھی تک وہی ہے۔
آزادی کے بعد مذہبی لوگ جو اس سے قبل زیر زمین تھے اور خفیہ طور پر تہہ خانوں میں نمازوں اور دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے، منظر عام پر آ گئے۔ مساجد اور مدارس کھلنے کا عمل شروع ہو گیا اور ہزاروں مساجد پھر سے آباد ہو گئیں۔ جس سے دینی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور رفتہ رفتہ دینی تحریکات منظم ہونا شروع ہو گئیں جنہوں نے بعض ریاستوں میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ یہ صورتحال ان ریاستوں کی پہلے سے چلی آنے والی کمیونسٹ مزاج حکومتوں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی، اور انہیں پڑوس میں ترکی کی سیکولر حکومت کے اسلام دشمن اقدامات سے بھی حوصلہ ملا۔ اس لیے ان ریاستوں میں ’’ریورس گیئر‘‘ کا عمل شروع ہو گیا ہے اور ازبکستان حکومت کا یہ فیصلہ بھی اسی کا حصہ ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان اور عالمِ اسلام کی دیگر حکومتوں اور بین الاقوامی مسلم اداروں اور تنظیموں کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے اور وسطی ایشیا کے مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے ان ریاستوں کی حکومتوں سے رابطہ کرنا چاہیے، تاکہ اس خطہ میں اسلامی اقدار کے احیا کا جو عمل دوبارہ شروع ہوا ہے وہ فطری انداز میں جاری رہ سکے۔