حضرت مولانا سید محمد میاںؒ

   
۲۹ اگست ۲۰۱۲ء

گزشتہ روز ڈاک میں حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کے مقالات کا ایک مجموعہ ’’مقالاتِ حامدیہ‘‘ کے نام سے موصول ہوا تو ماضی کی بہت سی یادیں ذہن میں تازہ ہوتی چلی گئیں۔ اس بات پر خوشی ہوئی کہ مولانا سید محمود میاں اور ان کے رفقاء حضرتؒ کے فرمودات و افادات کو حفاظت کے ساتھ اگلی نسل تک منتقل کرنے کی ’’سعیٔ محمود‘‘ میں مسلسل سرگرم ہیں اور ۹۰ کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت کتابچہ بھی اس کا ایک حصہ ہے جس میں قرآن کریم کے بارے میں حضرت مولانا حامد میاںؒ کے مضامین و خطبات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان افادات کی اہمیت کے بارے میں اس کے بعد میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ یہ اس بزرگ عالم دین کے فرمودات و افادات ہیں جو اپنے وقت کے بڑے محدث، مدبر، حکیم اور اہل علم کے فکری و علمی راہنما تھے۔ البتہ حضرت السیدؒ کے بارے میں بعض پرانی یادوں کو اس حوالہ سے تازہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان میں کم و بیش ربع صدی تک میری ان سے نیازمندانہ رفاقت رہی ہے اور جن چند بزرگوں سے میں نے علمی و فکری استفادہ کیا ہے ان میں ایک اہم نام حضرت سید حامد میاںؒ کا بھی ہے۔

طالب علمی کے دور میں تو ہمارے لیے اتنی بات ہی کافی تھی کہ وہ حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کے فرزند ہیں جن کی تصانیف بالخصوص ’’علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ اور ’’علمائے حق اور ان کے کارنامے‘‘ کا مطالعہ کر کے ہم نے اپنے فکری قبلہ کا رخ متعین کا تھا اور ان کی معرکۃ الآرا کتاب ’’تحریک شیخ الہند‘‘ نے ہمیں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی عظیم جدوجہد اور عبقری شخصیت سے شناسائی بخشی تھی۔ حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کو طالب علمی کے دور میں پڑھا بہت تھا لیکن ان کی زیارت و ملاقات کا شوق جغرافیائی اور سیاسی رکاوٹوں کے باعث رفتہ رفتہ حسرت میں تبدیل ہوتا جا رہا تھا کہ اچانک یہ خوش کن خبر مل گئی کہ حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کو اپنی پوتی اور حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کی دختر کی شادی میں شرکت کے لیے ویزا مل گیا ہے اور وہ لاہور تشریف لائے ہوئے ہیں۔ میری مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی اور میں ایک روز ان کی زیارت کے شوق میں جامعہ مدنیہ لاہور میں حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کی رہائشگاہ پر پہنچ گیا۔ ایک سادہ سے بزرگ نے دروازہ کھولا تو میں نے عرض کیا کہ میں حضرت سے ملنے کے لیے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حضرت شہر میں کہیں گئے ہوئے ہیں، تھوڑی دیر میں آجائیں گے، آپ کمرہ میں بیٹھ جائیں اور انتظار کر لیں۔ میں گوجرانوالہ سے گیا تھا اس لیے انتظار ہی مناسب تھا۔

میں کمرہ میں بیٹھ کر انتظار کر رہا تھا کہ تھوڑی دیر میں وہی بزرگ آئے اور کھانے کے لیے دستر خوان بچھا دیا، فرمانے لگے کہ آپ دور سے آئے ہیں اور کھانے کا وقت ہے اس لیے کھانا کھا لیں۔ میں نے سمجھا کہ گھر کے کوئی بزرگ فرد ہیں جو مہمانوں کی دیکھ بھال کی خدمت سرانجام دیتے ہیں، میں دستر خوان پر بیٹھ گیا، وہ ہاتھ دھلوانے کے لیے برتن لائے تو میں نے عرض کیا کہ آپ بزرگ ہیں، میں ہاتھ خود ہی دھو لیتا ہوں، انہوں نے فرمایا کہ نہیں آپ مہمان ہیں، ہاتھ میں دھلواؤں گا، چنانچہ انہوں نے میرے ہاتھ دھلوائے اور دستر خوان پر کھانا لگا دیا۔ میں نے مزے سے کھانا کھایا، ابھی فارغ ہوا تھا کہ حضرت مولانا سید حامد میاںؒ تشریف لائے، میں نے ان سے سلام عرض کیا اور انہوں نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا کہ بڑے حضرت وہی ہیں جنہوں نے آپ کو کھانا کھلایا ہے۔ میں تو شرم کے مارے پانی پانی ہوگیا کہ یہ کیا ہوا؟ مگر حضرت مولانا سید محمد میاںؒ دھیمی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے حوصلہ دلا رہے تھے کہ آپ مہمان ہیں اور دور سے آئے ہیں اس لیے میں نے جو کچھ کیا وہ میرا فرض بنتا تھا۔ تھوڑی دیر دونوں بزرگوں کی مجلس میں رہا اور زیارت و ملاقات سے شادکام ہو کر واپس آگیا۔

حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کی دختر کی شادی گوجرانوالہ سے حافظ آباد جانے والے روڈ پر قلعہ دیدار سنگھ کے قریب کسی گاؤں میں ہوئی تھی، ہمیں معلوم ہوا کہ انہوں نے نکاح کے اگلے روز ولیمہ کی تقریب میں شرکت کے لیے اس گاؤں جانا ہے۔ اس دور میں حافظ آباد کی طرف جانے کا راستہ صرف چوک گھنٹہ گھر والا تھا جہاں سے مدرسہ نصرۃ العلوم چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ ہماری خواہش تھی کہ کچھ دیر کے لیے حضرت کی تشریف آوری مدرسہ میں ہو جائے مگر متعلقہ حکام سے اس کی اجازت ملنا بہت مشکل تھا کہ حضرتؒ کی شخصیت کے حوالہ سے ان کے گرد پولیس حکام کا حصار تھا اور انہیں صرف ولیمہ میں شرکت کی اجازت ملی تھی جس کی خلاف ورزی کسی طرح مناسب نہ تھی۔ مگر ہمیں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ حضرت مولانا سید محمد میاںؒ مدرسہ نصرۃ العلوم کے قریب سے گزر جائیں گے اور مدرسہ میں تشریف نہیں لا سکیں گے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد یوسف عثمانی اس وقت بھی میرے سرگرم رفیق کار تھے، چنانچہ ہم دونوں نے مل کر ایک پلان ترتیب دیا جس کے تحت حضرت کو لے جانے والے قافلہ کی گاڑی گھنٹہ گھر چوک کے قریب سے گزرتے ہوئے ’’اتفاقاً‘‘ خراب ہوگئی، ہم سکیورٹی افسر کے پاس گئے اور کہا کہ قریب ہی مدرسہ ہے حضرت کو وہاں لے چلتے ہیں تاکہ تھوڑی دیر آرام سے بیٹھ جائیں۔ گاڑی ٹھیک ہونے پر واپس لے آئیں گے۔ پولیس افسر نے اجازت دے دی اور ہم حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کو مدرسہ نصرۃ العلوم میں لے آئے جہاں ’’اتفاقاً‘‘ شہر کے بڑے علماء کرام اور جماعتی احباب جمع تھے۔ حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ، والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ بھی موجود تھے۔ حضرت مولانا سید محمد میاںؒ تھوڑی دیر وہاں تشریف فرما رہے اور موجود علماء کرام ان کی زیارت کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ گفتگو سے بھی محظوظ ہوتے رہے۔ اتنے میں گاڑی ’’ٹھیک‘‘ ہو گئی اور حضرت ہم سے رخصت ہو کر ولیمہ والے گاؤں کی طرف روانہ ہوگئے۔

اس موقع پر ایک اور لطیفہ ہوا جس کا ذکر شاید نامناسب نہ ہو۔ قاری محمد یوسف عثمانی ہمارے انتہائی باذوق دوست ہیں، اس زمانے میں خاصے بنے ٹھنے رہتے تھے، زمانہ ان کا بھی میری طرح طالب علمی کا ہی تھا لیکن صاف ستھرے کپڑے، قراقلی، اچکن اور چشمہ پہنے ہوئے اپنے لمبے قد کے ساتھ وہ بہت نمایاں نظر آتے تھے۔ حضرت مولانا سید محمد میاںؒ علماء کی مجلس میں بیٹھے تھے اور جو بھی بزرگ آتے وہ ان سے بیٹھے بیٹھے ہی مصافحہ کرتے تھے کہ بزرگ مہمان تھے، بار بار اٹھنا مشکل تھا اور نامناسب بھی لگتا تھا۔ لیکن جب قاری محمد یوسف عثمانی کمرہ کے دروازہ سے اندر آنے لگے تو حضرت اٹھ کر کھڑے ہوگئے، ان کا خیال تھا کہ شہر کی کوئی بڑی شخصیت ہیں، اب قاری صاحب کی شرم کے مارے پانی پانی ہونے کی باری تھی، وہ بھی میری طرح سخت شرمندہ تھے جبکہ مجلس میں بیٹھے ہر شخص کے لبوں پر مسکراہٹ تھی اور ہم سب اس منظر سے محظوظ ہو رہے تھے۔ البتہ یہ واقعہ قاری صاحب کی زندگی میں اہم تبدیلی کا باعث بنا اور وہ بھی ہماری طرح رفتہ رفتہ ’’درویش‘‘ ہوگئے۔

کالم کے بہت سے فائدوں کے ساتھ ساتھ اس کا ایک نقصان بھی ہے کہ ساری باتیں بیک وقت نہیں لکھی جا سکتیں، میں نے بات ’’مقالات حامدیہ‘‘ کے حوالہ سے حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کے بارے میں شروع کی تھی مگر بڑے حضرتؒ کے تذکرہ پر ہی کالم کا دامن تنگ پڑنے لگا ہے، اس لیے چھوٹے حضرت کی باتیں پھر کسی مناسب موقع پر، ان شاء اللہ تعالٰی۔

   
2016ء سے
Flag Counter