(جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویۃ، ریواز گارڈن، راجگڑھ، لاہور کے سالانہ جلسہ ۲۰۲۴ء سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرات مشائخ عظام، اساتذہ کرام اور عزیز طلبہ، جامعہ کے منتظمین کا شکر گزار ہوں کہ مجھے یہاں حاضر ہونے کا، بزرگوں کی زیارت کا، طلبہ سے ملاقات کا، کچھ کہنے سننے اور بہت سی پرانی یادیں تازہ کرنے کا موقع عنایت فرمایا۔ حضرت حافظ صغیر احمد صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کے زمانے میں ان کی دکان اور جامعہ میری جولانگاہ ہوتی تھی، میں یہاں بہت دفعہ آیا ہوں۔ حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑی مہربانی فرماتے تھے، میں ان کا نیازمند تھا اور وہ میرے بزرگ تھے، ان سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے اور بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں اور ان کے خاندان اور رفقاء کو ان کا صدقہ جاریہ تادیر جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں (آمین)۔
یہ مدرسہ کی سالانہ تقریب ہے تو میرے ذہن میں ایک بات آئی ہے کہ ہم علومِ عصریہ کے خلاف نہیں ہیں لیکن صرف علومِ عصریہ کے خلاف ہیں۔ علومِ عصریہ سے ہمارا کوئی بیر نہیں ہے بلکہ یہ ہماری ضرورت ہے۔ قرآن مجید نے اس تقسیم کو یوں تعبیر کیا ہے ’’یعلمون ظاہرا من الحیاۃ الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غافلون‘‘ (الروم ۶) دنیا کی ظاہری زندگی کا علم تو حاصل کرتے ہیں اور جانتے ہیں لیکن آخرت اور انجام کیا ہے، اس سے بے خبر ہیں۔ آج کے مغربی نظامِ تعلیم میں اور ہمارے نظامِ تعلیم میں بنیادی فرق یہی ہے۔ آج کا یہ عصری نظامِ تعلیم، جس کا ہمیں بھی پابند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، دنیا کی زندگی تک محدود ہے کہ پیدا ہو کر مرنے تک کیا کرنا ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا، وہ اس تعلیمی نظام کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔
کسی جگہ بات ہو رہی ہے تو ایک دوست دوسرے دوست سے کہہ رہے تھے کہ یار تم نے اپنے بچے کو مدرسے میں داخل کر دیا ہے، اس کا فیوچر نہیں سوچا؟ ہمارے ہاں یہ بھی ایک سوال ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ مستقبل آپ کسے کہتے ہیں؟ ہم نے مستقبل ’’ان ھی الا حیاتنا الدنیا‘‘ (المؤمنون ۳۸) کو سمجھ رکھا ہے۔ پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ مستقبل صرف باقی ماندہ دنیاوی زندگی نہیں ہے، مستقبل کا دائرہ بہت لمبا ہے۔ کیا قبر ہمارا مستقبل ہے یا نہیں؟ حشر کا میدان ہمارا مستقبل ہے یا نہیں؟ پل صراط ہمارا مستقبل ہے یا نہیں؟ جنت ہمارا مستقبل ہے یا نہیں؟ اللہ سے دعا کریں کہ جہنم ہمارا مستقبل نہ ہو۔ بس اتنا ہی فرق ہے مغرب کے نظامِ تعلیم میں اور ہمارے نظامِ تعلیم میں۔
ہم بس اتنی دنیا سیکھنے کی بات کرتے ہیں جتنا ہم نے یہاں رہنا ہے۔ ایک سادہ سی مثال ہے کہ جب آپ تبلیغی جماعت کے ساتھ سہ روزہ کے لیے نکلتے ہیں تو کتنا بندوبست کرتے ہیں؟ اور جب چالیس دن کے لیے نکلتے ہیں تو کیا سہ روزے والا بندوبست کرتے ہیں؟ اور جب سال کے لیے نکلتے ہیں یا بیرون ملک سفر پر جاتے ہیں تب بندوبست کا فرق ہوتا ہے یا نہیں؟ بس اتنی سی بات ہے کہ جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنی یہاں کی تیاری کرو، اور جتنا آخرت میں رہنا ہے اتنی وہاں کی تیاری کرو۔
ایک اور مثال دیکھ لیں کہ انسان صرف جسم کا نام نہیں ہے۔ انسان جسم اور روح دونوں کا نام ہے۔ جسم کا ماخذ اور مرجع زمین ہے، یہیں سے اللہ تعالیٰ نے سب کچھ چنا ہے ’’ولقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین‘‘ (المؤمنون ۱۲) اسی سے انسان بنایا گیا ہے اور اسی میں اس نے جانا ہے جہاں سے پھر آگے منتقل ہوں گے۔ روح کا مرکز اور مرجع کیا ہے؟ جسم اور روح دونوں اکٹھے ہوں گے تو انسان کا بندوبست ہو گا۔ میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ ہم فون کے سیٹ کا بندوبست تو کریں لیکن اس کی سم کا انتظام نہ کریں۔ جبکہ سیٹ کی ضرورت ہے کہ اسے چارجنگ ملتی رہے، اور سم کی ضرورت ہے کہ اسے بیلنس ملتا رہے۔ انسان جسم اور روح دونوں کا مرکب ہے، دونوں کے تقاضے پورے کیے بغیر انسان مکمل ہی نہیں ہوتا۔
آج کے فلسفے اور تعلیم کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے ’’ان ھی الا حیاتنا الدنیا‘‘ کہ پیدا ہوئے ہیں اور جب مریں گے تو ختم ہو جائیں گے۔ مگر قرآن مجید کہتا ہے اس دنیا کا علم بھی حاصل کرو اور آنے والے مستقبل کا علم بھی حاصل کرو۔ قبر بھی انسان کا مستقبل ہے، حشر کے پچاس ہزار سال بھی انسان کا مستقبل ہے، پل صراط بھی انسان کا مستقبل ہے، جنت اور دوزخ بھی انسان کا مستقبل ہے۔ بس یہی فرق ہے۔
میں یہ پس منظر بھی بیان کرنا چاہوں گا کہ مدرسہ اور سکول الگ الگ کب ہوئے تھے اور کس نے کیے تھے۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے صرف مدرسہ ہی ہوتا تھا، اسی میں قرآن پڑھایا جاتا تھا، عربی پڑھائی جاتی تھی، فارسی پڑھائی جاتی تھی، اسی میں ریاضی پڑھائی جاتی تھی، طب پڑھائی جاتی تھی، ٹیکنالوجی پڑھائی جاتی تھی۔ سب کچھ اکٹھا تھا، مشکوٰٰۃ شریف، اقلیدس، معقولات وغیرہ سب کچھ ایک جگہ پڑھایا جاتا تھا۔ ۱۸۵۷ءکے بعد یہ تقسیم انگریزوں نے کی تھی۔ انہوں نے ریاستی نظامِ تعلیم میں سے عربی اور فارسی زبانوں کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث اور فقہ کے علوم نکال دیے تھے۔ عربی اور فارسی کی جگہ انگریزی زبان لے آئے تھے اور فقہ کی جگہ انگریزی قانون نافذ کر دیا تھا۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ تقسیم ہم نے نہیں کی تھی، انگریزوں نے کی تھی۔
ہمارے بزرگوں نے ان نکالے گئے علوم کی تعلیم باقی رکھنے کے لیے مدارس کا یہ آزادانہ نظام قائم کیا تھا جو الحمد للہ چل رہا ہے، اور صرف چل نہیں رہا بلکہ ایک دنیا کی ضرورت پوری کر رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ بات چلی تھی کہ دونوں نصابوں کو اکٹھا کرنا چاہیے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، جو علوم انگریزوں نے اس زمانے میں نکالے تھے وہ واپس لے آئیں تو سارا قصہ ختم ہو جائے گا۔ یہ تقسیم ہم نے نہیں کی بلکہ تقسیم کرنے والا یہاں سے چلا گیا ہے مگر ہم نے اس تقسیم کو گلے سے لگا رکھا ہے۔ہم جدید تعلیم کے مخالف نہیں ہیں، لیکن صرف جدید تعلیم نہیں، وہ مضامین جن کو انگریزوں نے نظامِ تعلیم سے نکال دیا تھا اور ان کے لیے ہمیں الگ نظام قائم کرنا پڑا تھا، قرآن کریم، حدیث و سنت، شریعت و فقہ، عربی زبان، ان کے بغیر ہم جدید تعلیم کو ادھوری سمجھتے ہیں۔ ہم جدید تعلیم کا انکار نہیں کرتے بلکہ ریاضی، انگلش، ٹیکنالوجی، سوشیالوجی وغیرہ سب ہماری ضروریات میں سے ہیں، لیکن ہم صرف جدید تعلیم کے حق میں نہیں ہیں، دونوں کو ملا کر ۱۸۵۷ء والے ماحول میں جائیں تو ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
البتہ میں یاد دلانا چاہوں گا کہ صدر محمد ایوب خان کے دور میں ایک تجربہ ہوا تھا کہ مدارس کو سرکاری کنٹرول میں لایا جائے، اور کچھ مدارس تجربتاً سرکاری نظم میں آئے تھے۔ ان مدارس کی صورتحال دیکھ لیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ ریاست بہاولپور کا سب سے بڑا مدرسہ تھا جامعہ عباسیہ، دونوں تعلیموں کو اکٹھا کرنے کے نام پر اسے جامعہ اسلامیہ کا نام دیا گیا اور وہاں دونوں نصاب اکٹھے کیے گئے۔ حضرت مولانا شمس الحق افغانی، مولانا سعید احمد کاظمی، مولانا عبد الرشید نعمانی، مولانا عبد الغفار حسن رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے مختلف مکاتب فکر کے اکابر اس نظم میں شریک ہوئے تھے۔ ہم نے تو اکٹھا کرنا قبول کر لیا تھا اور ہمارے اکابر وہاں جا کر بیٹھ گئے تھے کہ ہم جامعہ عباسیہ میں دونوں نصابوں کو اکٹھا پڑھائیں گے ، جو آج بہاولپور یونیورسٹی کہلاتی ہے۔ میرا سادہ سا سوال ہے کہ وہاں آج درسِ نظامی کا کوئی ایک مضمون بھی باقی رہ گیا ہے؟ ایک کہاوت ہے، کہتے امریکہ میں ایک ریسٹورنٹ پر بورڈ لگا ہوا تھا کہ یہاں اونٹ اور خرگوش کا گوشت مکس پکایا جاتا ہے۔ لوگ وہاں آ کر شوق سے کھاتے تھے۔ ایک دن کسی نے مینیجر سے پوچھ لیا کہ کہ آپ کا فارمولا کیا ہے؟ اس نے کہا کہ سادہ سا فارمولا ہے، ایک اونٹ اور ایک خرگوش۔ تو اس طرح کی مکسنگ ہمارے ہاں تعلیمی نظام میں ہوئی ہے، جسے ہم نہیں مانتے۔
اسی طرح کچھ مدارس محکمہ اوقاف نے بھی اپنی تحویل میں لیے تھے کہ ہم بہتر نظام چلائیں گے، ان میں سے دو کا ذکر کروں گا۔ اوکاڑہ میں جامعہ عثمانیہ بہت بڑا مدرسہ تھا، حضرت مولانا عبدا لحنان صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کے شیخ الحدیث تھے، محکمہ اوقاف نے تحویل میں لیا تھا لیکن آج اس کے کمرے کمپنیوں کو کرائے پر دیے ہوئے ہیں اور وہاں ناظرہ کی کلاس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اور نیلا گنبد کا جامعہ رحیمیہ بھی محکمہ اوقاف نے تحویل میں لیا تھا، اسے دیکھ لیں کہ وہ کیا تھا اور اب کیا ہے۔ میرا ان لوگوں کے لیے پیغام ہے، جو مدارس کو اپنے کنٹرول میں لے کر ان کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں، کہ یہ اصلاح ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
اور ہم سرکاری امداد کیوں نہیں لیتے؟ ایک صاحب تشریف لائے کہ گورنمنٹ آپ کو امداد دینا چاہتی ہے۔ میں نے کہا، ہم نہیں لیتے۔ پوچھا، کیوں؟ میں نے کہا، ہمارے بابا جی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے وصیت کی تھی ، انہوں نے اصولِ ہشتگانہ میں ایک شق لکھی تھی کہ کسی ریاست سے کسی سرکار سے کسی نواب سے مستقل امداد نہیں لینی، لوگوں کے ایک ایک دو دو روپے پر گزارا کرنا ہے، آج کے دور میں دس بیس روپے کر لیں، الحمد للہ ہمارا اس پر گزارا ہو رہا ہے۔ یہ دارالعلوم دیوبند کے اصولِ ہشتگانہ میں ایک مستقل اصول موجود ہے۔ تو میں نے عرض کیا کہ دینی تعلیم کی نفی کر کے دنیا کی تعلیم ’’یعلمون ظاھرا من الحیاۃ الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غافلون‘‘ والی بات ہے۔
مدارس اور ان کا نظام اب تو خیر بہت اچھا ہو گیا ہے، میں نے وہ مدرسے دیکھے ہیں اور ان میں رہا ہوں جب مسجد کی چٹائیاں اور محلے کی روٹیاں، بس یہی مدرسہ ہوا کرتا تھا۔ میں نے خود چھابہ ہاتھ میں پکڑ کر محلے سے روٹیاں لائی ہیں اور مجھے اس پر فخر ہے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ سن ۱۹۴۳ء میں گکھڑ تشریف لائے تھے، اور گوجرانوالہ میں مدرسہ نصرۃ العلوم ۱۹۵۲ء میں بنا تھا، درمیان کے نو دس سال وہ گکھڑ کی مسجد بوہڑ والی ہی مدرسہ تھا، جہاں حضرت والد صاحبؒ کے پاس کچھ طلبہ اکٹھے ہو جاتے تھے، محلے والے روٹی کھلا دیتے تھے، اور والد صاحبؒ صبح سے لے کر شام تک پڑھاتے رہتے تھے۔ ایک دن میں نے پوچھا، ابا جی! آپ نے کتنے سبق پڑھائے ہوں گے ایک دن میں؟ کہنے لگے اٹھارہ تک تو پڑھائے ہیں۔ آج ہمیں پانچ سے چھٹا سبق مل جائے تو دماغ گھوم جاتا ہے۔
بہرحال میں ان لوگوں سے یہی بات عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے راستے سے نہ ہٹائیں ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا راستہ، شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کا راستہ ، اور ہم ان شاء اللہ ہٹیں گے بھی نہیں۔ حضرت شیخ الہندؒ نے بھی دونوں کو اکٹھا کیا تھا، وہ خود علی گڑھ گئے تھے، وہ ہمارے مقاصد سے خالی نہیں ہے، لیکن اصل بنیاد دین کی تعلیم ہے۔ اور الحمد للہ یہ مدرسہ کے آزادانہ کردار کی بدولت ہے کہ آج پوری دنیا دینی تہذیب و تمدن، شکل و شباہت، اور دینی روایات کے حوالے سے جنوبی ایشیا ، ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی طرف دیکھتی ہے۔ الحمد للہ یہ اس مدرسے کی برکت ہے کہ اس وقت برصغیر پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا میں مدارس کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ ان شاء اللہ العزیز یہ مدارس آزادانہ کام کرتے رہیں گے۔
طلبہ سے میری ایک گزارش ہوتی ہے کہ یہاں سے فارغ ہو کر آپ نے کیا کرنا ہے؟ علماء کا عمومی تعارف ’’العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘ کا ہوتا ہے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات نے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا کام کیے تھے؟ نماز پڑھائی تھی، روزے رکھوائے تھے، حج کی قیادت کی تھی، نظام ِ معیشت کی اصلاح کی تھی، حکومت اور سیاست کی تھی، جنگ کی تھی، کون سے کام ہیں جو نہیں کیے تھے۔ یہ کام تقسیمِ کار سے ہوتے ہیں لیکن انبیاء کرامؑ نے صرف نماز اور عبادت پر زور نہیں دیا تھا، زندگی کا باقی نظام بھی ان کے ایجنڈے کا حصہ رہا ہے۔ علماء انبیاء کرامؑ کے نمائندے ہیں، وہ پورے دین کی نمائندگی کریں گے تو اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے فرائض ادا کر سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان مدارس کو، خانقاہوں اور دینی مراکز کو دن دگنی رات چوگنی ترقی نصیب فرمائیں اور ہمیں اپنے اکابر کا راستہ اور ان کی روایات اور مشن باقی رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں (آمین)۔