وفاقی شرعی عدالت کے دو متضاد فیصلے

   
تاریخ : 
۲۷ جنوری ۲۰۰۰ء

گزشتہ کئی کالموں میں عرض کیا جا چکا ہے کہ نکاح و طلاق اور وراثت کے بارے میں شرعی قوانین پر مختلف مسلم ممالک میں اس حوالے سے بحث و تمحیص اور متعلقہ اداروں کے فیصلوں کا سلسلہ جاری ہے کہ اسلام کے یہ خاندانی اور عائلی قوانین مبینہ طور پر آج کے عالمی عرف اور مروجہ بین الاقوامی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتے اس لیے انہیں نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس عمل کا دائرہ اس قدر وسیع ہوتا جا رہا ہے کہ قرآن و سنت کے صریح احکام بھی ہماری حکومتوں، عدالتوں اور اسمبلیوں کے فیصلوں کی زد سے محفوظ نہیں رہے۔

اسی پس منظر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے دو حالیہ فیصلوں کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے جو ایک ہی مسئلہ کے بارے میں ہیں، صرف دو ہفتوں کے وقفہ سے سامنے آئے ہیں، مگر ایک دوسرے سے واضح طور پر متضاد ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کے خاندانی قوانین کے بارے میں ذہنی انتشار ہمارے ہاں کس حد تک سرایت کیے ہوئے ہے، اور اسی سے اس ایجنڈے پر کام کرنے والی سینکڑوں این جی اوز کی کارکردگی کی سطح بھی معلوم کی جا سکتی ہے۔

ایک موقر قومی روزنامہ کے لاہور ایڈیشن نے ۶ جنوری ۲۰۰۰ء کو خبر شائع کی ہے کہ

’’وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس میاں محبوب اور جسٹس فدا احمد اور جسٹس اعجاز یوسف پر مشتمل تین رکنی فل بینچ نے عائلی قوانین میں طلاق، دوسری شادی اور وراثت سے متعلق دائر کی جانے والی ۳۷ مختلف درخواستوں پر بدھ کے روز اپنا مختصر فیصلہ صادر کیا ہے۔ ایک سو سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلوں میں قرار دیا ہے کہ خفیہ نکاح غیر اسلامی ہے اور نکاح کی رجسٹریشن نہ کرانے والوں کی پہلے سے موجود سزا دوگنی کر دی گئی ہے۔ اب یہ سزا تین ماہ سے بڑھ کر چھ ماہ کر دینے کے لیے قانون میں ترمیم کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ اسلام میں خفیہ شادی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نکاح کی رجسٹریشن کرانا لازمی قرار دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی شرعی عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں خفیہ شادی کو خلاف اسلام قرار دیا گیا ہے۔‘‘

اسی موقر روزنامہ کے لاہور ایڈیشن میں ۲۰ جنوری ۲۰۰۰ء کو وفاقی شرعی عدالت کے ایک اور فیصلے کی خبر دی گئی ہے جو خفیہ شادی کے بارے میں ہے لیکن مذکورہ فیصلے سے قطعی مختلف ہے۔ خبر کا متن درج ذیل ہے:

’’فیڈرل شریعت کورٹ نے خفیہ نکاح کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بچی کو جائز اولاد قرار دے دیا۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے ڈویژن بینچ نے، جو چیف جسٹس میاں محبوب احمد اور جسٹس اعجاز یوسف پر مشتمل تھا، عالم زیب بنام سرکار میں ملزمان کے باہمی خفیہ نکاح کے اقرار کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ہاں پیدا ہونے والی بچی کو جائز اولاد قرار دے دیا۔ یاد رہے کہ ملزمان کے ماتحت عدالت میں باہمی نکاح کے اقرار کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ماتحت عدالت نے ملزمان کو زنا کے الزام میں آٹھ سال قید کی سزا دی تھی۔ ملزمان کی طرف سے ڈاکٹر اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا معاشرہ جبر و استبداد کا معاشرہ ہے جہاں والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر لڑکی اور لڑکے کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کئی جوڑے شرعی نکاح کرنے کے باوجود جان کے خوف سے اس کا اعلان نہیں کرتے۔ عدالت نے فاضل وکیل کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے قرار دیا کہ نکاح کے لیے میاں بیوی کا باہمی اقرار یعنی تصادق زوجین ہی کافی ہے اس کے لیے گواہوں کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت نے اس اصول سے اتفاق کرتے ہوئے ملزمان کے باہمی نکاح کو تسلیم کرتے ہوئے سزا سے بری کر دیا اور ڈیڑھ سالہ کنیزا کو جائز قرار دے دیا۔‘‘

اس سے قطع نظر کہ وفاقی شرعی عدالت کے ان دو فیصلوں میں تضاد کا پس منظر کیا ہے، جبکہ دونوں فیصلے ایک ہی ماہ کے دوران سامنے آئے ہیں اور دونوں فیصلے صادر کرنے والے جج بھی مشترک ہیں، ہم دوسرے فیصلے میں خفیہ نکاح کو جائز قرار دینے اور نکاح میں گواہوں کی موجودگی کو غیر ضروری قرار دینے کے بارے میں مختصرًا یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ سراسر غلط، قرآن و سنت کے صریح احکام کے منافی، اور زنا کاری کا قانونی سرٹیفیکیٹ مہیا کرنے کے مترادف ہے۔ اس پر مذکورہ ججوں کو نہ صرف اپنے فیصلے پر از خود نظر ثانی کرنی چاہیے بلکہ اگر وہ اس بات پر یقین کھتے ہیں تو انہیں رات کے پچھلے پہر اٹھ کر دو رکعت نماز توبہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی چاہیے کیونکہ ان کا یہ فیصلہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے صریح منافی ہے۔ اور اس لحاظ سے اس کی سنگینی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے کہ یہ فیصلہ شرعی عدالت کے نام سے صادر کیا گیا ہے۔

قرآن کریم نے سورۃ النساء آیت ۲۶ اور سورۃ المائدہ آیت ۵ میں نکاح ہی سے متعلقہ امور کا ذکر کرتے ہوئے مرد و عورت کے خفیہ تعلقات کو ناجائز اور حرام کاری قرار دیا ہے۔ جبکہ ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ ’’گواہ کے بغیر نکاح کرنے والی عورتیں بدکار ہیں‘‘۔ بلکہ موطا امام مالک میں حضرت عمرؓ کا اس بارے میں ایک فیصلہ بھی منقول ہے جو انہوں نے امیر المومنین اور خلیفہ راشد کی حیثیت سے صادر فرمایا۔ روایت کے مطابق امیر المومنین حضرت عمرؓ کے سامنے ایک نکاح کا مقدمہ پیش کیا گیا جس میں گواہ تو موجود تھے مگر گواہوں کا شرعی نصاب پورا نہ تھا۔ گواہی کا شرعی نصاب یہ ہے کہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں تو شہادت مکمل ہوتی ہے۔ جبکہ اس نکاح میں ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی تھی، اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’یہ خفیہ نکاح ہے اور میں اس کو جائز قرار نہیں دیتا۔‘‘

فقہائے امت میں جمہور فقہاء کا فتویٰ یہ ہے کہ گواہوں کے بغیر نکاح جائز نہیں ہے اور کم از کم دو گواہوں کا موجود ہونا نکاح کے جواز کی شرط ہے۔ صرف حضرت امام مالک اس سے اختلاف کرتے ہیں اور ان کا ارشاد ہے کہ نکاح میں گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں ہے۔ ممکن ہے فاضل عدالت کو یا ان کے سامنے دلائل پیش کرنے والے فاضل وکیل کو حضرت امام مالکؒ کے اس قول سے دھوکہ ہوا ہو۔ لیکن انہوں نے گواہوں کے ضروری نہ ہونے کے بارے میں تو حضرت امام مالکؒ کا قول دیکھ لیا مگر نکاح کے حوالہ سے حضرت امام مالکؒ کے نزدیک جو شرط ضروری ہے اس کی طرف وکیل صاحب اور جج صاحبان کی توجہ نہیں ہوئی حالانکہ وہ شرط دو گواہوں کی موجودگی سے زیادہ سخت ہے۔ حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ نکاح کے انعقاد کے لیے گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں ہے مگر نکاح کی تشہیر اور اس کا اعلان شرط ہے جس کے بغیر ان کے نزدیک نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ امام مالکؒ سے ایک بار مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک مرد اور ایک عورت نے دو گواہوں کی موجودگی میں آپس میں نکاح کر لیا ہے مگر وہ اس نکاح کو لوگوں سے چھپا رہے ہیں، اس پر امام مالک نے فتویٰ دیا کہ ’’یہ نکاح جائز نہیں ہے اور ان دونوں کو الگ الگ کر دیا جائے۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت امام مالکؒ خفیہ نکاح کو جائز قرار نہیں دے رہے بلکہ نکاح میں صرف دو گواہوں کی موجودگی کو ناکافی سمجھتے ہوئے اس کے عمومی اعلان اور تشہیر کو بھی ضروری قرار دے رہے ہیں۔ اس لیے اگر وفاقی شرعی عدالت نے اپنے اس فیصلے کی بنیاد امام مالکؒ کے فتویٰ پر رکھی ہے تو یہ امام مالک کے موقف سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ اور امام مالکؒ کے علاوہ اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلمہ فقہاء میں سے کوئی بزرگ بھی ایسا نہیں ہے جو نکاح میں کم از کم دو گواہوں کی موجودگی کو نکاح کے جواز کی شرط نہ قرار دیتا ہو۔

اس لیے ہم وفاقی شرعی عدالت کے معزز جج صاحبان سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک تو اپنے مذکورہ دو فیصلوں میں پائے جانے والے واضح تضاد کو رفع کریں کیونکہ یہ تضاد موجودہ معروضی حالات کے پس منظر میں بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ نکاح میں گواہوں کی موجودگی کی شرط ختم کرنے کےلیے مذکورہ فیصلے کے مضمرات اور سوسائٹی میں اس کے نتیجے میں ہونے والے اثرات و نتائج کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے از خود ہی اس پر نظر ثانی فرما لیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter