امریکہ کا حالیہ سفر اور چند تاثرات

   
جولائی ۲۰۰۳ء

مجھے گزشتہ ماہ کے دوران دو ہفتے کے لیے امریکہ جانے کا موقع ملا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اس سال سہ ماہی اور شش ماہی امتحان یکجا کر دیے گئے اور سال کے درمیان میں ایک ہی امتحان رکھا گیا جس کے بعد دو ہفتے کی چھٹیاں کر دی گئیں۔ میرے پاس امریکہ کا ویزا موجود تھا اس لیے میں نے اس سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ ۱۰ مئی ۲۰۰۳ء کو لاہور سے پی آئی اے کے ذریعے روانہ ہوا اور اسی روز ہیتھرو سے یونائیٹڈ ایئر کے ذریعے شام کو واشنگٹن جا پہنچا۔ اس سے قبل ۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۰ء تک چار پانچ دفعہ امریکہ جا چکا ہوں اور امریکہ کے بہت سے شہروں میں مہینوں گھوما پھرا ہوں۔ اس کے بعد ویزے کی کوشش کرتا رہا مگر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا حتیٰ کہ مئی ۲۰۰۱ء میں مجھے پانچ سال کے لیے ملٹی پل ویزا مل گیا مگر اس کے بعد ۱۱ ستمبر کے سانحہ کے باعث حالات میں ایسی تبدیلی آئی کہ خواہش کے باوجود امریکہ کا سفر نہ کر سکا اور اب تقریباً تیرہ سال کے بعد امریکہ کے مختصر سے مطالعاتی دورے کا موقع مل گیا۔

واشنگٹن میٹرو پولیٹن کے علاقے میں ڈمفریز کے مقام پر میرے ہم زلف محمد یونس صاحب سالہا سال سے بچوں سمیت قیام پذیر ہیں۔ ان کے ہاں قیام رہا جبکہ اس کے قریب سپرنگ فیلڈ میں دار الہدیٰ نامی ایک دینی مرکز میری دینی سرگرمیوں کا محور تھا۔ پیر طریقت حضرت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندی رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ مجاز مولانا عبد الحمید اصغر اس مرکز کے منتظم ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔ انجینئر ہیں اور انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں استاذ رہے ہیں۔ ایک عرصہ سے واشنگٹن میں قیام پذیر ہیں۔ پہلے الیگزینڈریا کے علاقے میں کرایے کے مکان میں دینی مرکز قائم کر کے کام کر رہے تھے، اب سپرنگ فیلڈ میں ایک بلڈنگ خرید کر وہاں ۱۹۹۴ء سے مصروف کار ہیں۔ جامع مسجد ہے، اس کے ساتھ مقامی بچوں اور بچیوں کے لیے سکول ہے اور قرآن کریم اور عربی کی تعلیم کا بھی نظم ہے۔ میں نے واشنگٹن کے قیام کے دوران میں دونوں جمعے وہیں پڑھائے اور جتنے دن رہا، مغرب کے بعد سیرت النبی ﷺ پر بیان ہوتا رہا۔

اس دوران میں دو روز کے لیے نیو یارک اور ایک روز کے لیے بفیلو جانے کا موقع ملا۔ نیو یارک کے کوئینز کے علاقے میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے مولانا مفتی روح الامین کی قیادت میں ’’دار العلوم نیو یارک‘‘ کے نام سے دینی درس گاہ قائم کر رکھی ہے۔ وہاں ایک عوامی تقریب میں شرکت ہوئی اور بہت سے پرانے دوستوں سے ملاقات ہو ئی۔ اس موقع پر یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ دار العلوم میں درس نظامی کے نصاب کی باقاعدہ تعلیم ہوتی ہے اور اس سال حفظ کے شعبہ میں گیارہ بچوں نے قرآن کریم حفظ مکمل کیا ہے۔ دوسرے روز بروک لین کی مکی مسجد میں مغرب کے بعد درس ہوا اور مسجد کے خطیب حافظ محمد صابر صاحب کے گھر میں سرکردہ دوستوں سے ملاقات اور تبادلہ خیالات کی ایک نشست ہوئی۔

میرے ایک پرانے دوست اور جمعیۃ علماء اسلام کے سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا عبد الرزاق عزیز کچھ عرصہ سے نیو یارک کے علاقہ لانگ آئی لینڈ میں ایک دینی مرکز سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاں حاضری ہوئی اور انہوں نے جزیرے کی خوب سیر کرائی۔

بفیلو نیاگرا آبشار کے قریب امریکہ کا سرحدی شہر ہے جہاں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی کے خلیفہ مجاز محترم ڈاکٹر محمد اسماعیل میمن صاحب نے دار العلوم مدنیہ کے نام سے ایک بڑا دینی مرکز قائم کر رکھا ہے۔ طالبات کا شعبہ ہے جہاں ایک سو کے لگ بھگ طالبات ہاسٹل میں رہتی ہیں اور درس نظامی کے ساتھ ساتھ سکول کی مروجہ تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ دورۂ حدیث بھی ہوتا ہے۔ طلبہ کے ہاسٹل میں سو کے لگ بھگ طلبہ رہتے ہیں اور شعبہ حفظ اور درس نظامی کے ابتدائی درجات کی تعلیم ہوتی ہے۔ ایک بڑا چرچ خرید کر انہوں نے اس میں حضرت شیخ کے نام پر ’’مسجد زکریا‘‘ بنائی تھی جو ۱۱ ستمبر کے سانحہ کے بعد نذر آتش کر دی گئی اور اب اس کی دوبار ہ تعمیر ہو رہی ہے۔ جوہر آباد خوشاب سے تعلق رکھنے والے ہمارے پرانے دوست جناب محمد اشرف صاحب کے ہمراہ بفیلو جانے اور ڈاکٹر میمن صاحب کے اداروں اور کام کو دیکھنے کا موقع ملا اور بہت خوشی ہوئی کہ ۱۱ ستمبر کے سانحہ کے بعد رونما ہونے والے واقعات اور تبدیلیاں اہل دین کے کام اور عزم کو متاثر نہیں کر سکیں اور اگرچہ اس سانحہ کے اثرات سے امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کا کوئی طبقہ محفوظ نہیں رہا لیکن مشکلات ومصائب میں اضافے کے باوجود اہل دین کا سفر جاری ہے اور دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ تعلیم واصلاح کے شعبوں میں ان کا کام نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں بحمد اللہ تعالیٰ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

امریکہ کے تیرہ سال قبل کے اسفار میں اپنے ایجنڈے کے دو پہلوؤں پر میں نے کام شروع کیا تھا جو ادھورا رہ گیا تھا۔ اسی کو آگے بڑھانے کے لیے بار بار امریکہ جانے کی کوشش کرتا رہا اور اب بھی وہاں جانے کے مقاصد میں ایک اہم مقصد اس ایجنڈے میں پیش رفت کے امکانات کا جائزہ لینا تھا مگر بات امکانات کا جائزہ لینے تک محدود رہی اور دو ہفتے کی ملاقاتوں اور حالات کے مطالعہ کے بعد صرف اس قدر اطمینان حاصل کر سکا کہ پیش رفت کے امکانات بالکل معدوم نہیں ہوئے اور اگر تھوڑی سی محنت ہو جائے تو اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکل آئے گی۔ ان میں سے ایک بات تو یہ تھی کہ غالباً ۱۹۸۹ء میں امریکی ریاست اٹلانٹا کے ایک اہم مسیحی مذہبی راہ نما سے ملاقات کر کے میں نے ان سے گزارش کی تھی کہ آسمانی تعلیمات سے بے زاری اور وحی الٰہی کی راہ نمائی سے دست برداری کے موجودہ عالمی ماحول میں خاندانی نظام، شراب وسود، رقص وسرود، ہم جنس پرستی اور دیگر بہت سے حوالوں سے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں ہے بلکہ بائبل کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے اور انسانی سوسائٹی کو آسمانی تعلیمات سے انحراف کے اس عالمی رجحان سے نکالنے کی کوشش کرنا مسلم علما کے ساتھ ساتھ مسیحیت کے مذہبی راہ نماؤں کی بھی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے میری اس گزارش سے اتفاق کیا تھا اور ہم دونوں نے آئندہ تبادلہ خیالات جاری رکھنے کا ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا مگر اس کے بعد اس کی نوبت نہ آ سکی۔ میری خواہش اور کوشش ایک عرصہ سے چلی آ رہی ہے کہ مسیحیت کے سنجیدہ راہ نماؤں کے ساتھ اس رخ پر بات کی جائے اور انسانی سوسائٹی کو آسمانی تعلیمات کی طرف رجوع پر آمادہ کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی کوئی صورت نکالی جائے۔ برطانیہ کے بعض مسیحی مذہبی راہ نماؤں سے بھی اس مسئلہ پر میری گفتگو ہوئی ہے اور میں نے انہیں بھی اس معاملہ میں فکر مند پایا ہے۔ میری خواہش تو پاکستان کے مسیحی پادری صاحبان سے بات چیت کی بھی ہے مگر وہ این جی اوز کے جال میں اس بری طرح سے جکڑے ہوئے ہیں کہ ان میں سے کسی کے قریب جانے سے خود اپنے جکڑے جانے کا ڈر محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس بارمیں چاہتا تھا کہ کسی سنجیدہ مسیحی راہ نما سے ملاقات ہو اور اس سلسلے میں ان سے گفتگو ہو مگر حالات کے تناؤ میں ابھی اس قدر کمی نہیں ہوئی کہ اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا اس لیے اسے کسی اگلے سفر کے لیے موخر کرنا ہی قرین مصلحت قرار پایا۔

دوسری بات یہ بھی ہے کہ امریکی دستور میں یہودیوں نے مسلسل محنت کے بعد اپنے لیے ایک سہولت حاصل کر رکھی ہے کہ وہ ایک خاص طریقہ کار کے تحت خاندانی قوانین اور مالیاتی معاملات میں اپنی کمیونٹی کے لیے الگ عدالتی نظام قائم کر سکتے ہیں جو ان کے مذہبی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کا مجاز ہے اور اس کے فیصلوں کا سپریم کورٹ تک میں احترام کیا جاتا ہے۔ یہ سسٹم چونکہ مذہبی اقلیتوں کے عنوان سے ہے، اس لیے مسلمان بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن الجھن یہ ہے کہ ایک تو امریکی مسلمانوں کی اکثریت اس دستوری سہولت اور حق سے بے خبر ہے اور دوسرے یہ کہ مسلم کمیونٹی میں اس قدر ہم آہنگی اور اشتراک کار نہیں ہے کہ وہ کوئی مشترکہ نظام اور طریق کار اس سلسلے میں طے کر سکیں۔

گزشتہ اسفار کے دوران میں، میں نے متعدد اجتماعات میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور بہت سے مسلم راہ نماؤں نے میری اس گزارش سے اتفاق کیا تھا کہ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو اس دستوری حق اور سہولت سے محروم نہیں رہنا چاہیے اور اسے بروے کار لانے کے لیے مشترکہ اور سنجیدہ محنت کا آغاز ہونا چاہیے۔ حالیہ سفر میں ا س مسئلہ پر مولانا عبد الحمید اصغر سے تفصیلی بات ہوئی۔ انہیں اس سلسلے میں باخبر اور فکر مند پایا اور آئندہ کسی سفر کے موقع پر ان کے ساتھ اس حوالے سے پیش رفت کے پروگرام کا ہلکا پھلکا سا نقشہ بھی طے ہوا۔

بہرحال ان سرگرمیوں اور اس قسم کے جذبات کے ساتھ ۲۴ مئی کو واشنگٹن سے واپسی ہوئی۔ ۲۵ مئی کو لندن پہنچا، حسب معمول ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے اہم احباب کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ملاقات ہوئی، مختلف مسائل پر تبادلہ خیالات ہوا۔ اس کے بعد برمنگھم، نوٹنگھم، مانچسٹر اور برنلے جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ بہت سے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور کم وبیش چار دن برطانیہ میں گزارنے کے بعد پروگرام کے مطابق ۲۹ مئی کو گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter