دعاؤں سے پہلے اسباب اختیار کرنے کی ضرورت

   
قدیمی عیدگاہ، قبرستان کلاں، مبارک شاہ روڈ، گوجرانوالہ
۷ جون ۲۰۲۵ء

(عید الاضحیٰ ۱۴۴۶ھ کے اجتماع سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج عید الاضحیٰ کا دن ہے، قربانیاں ہوں گی، عید پڑھی جائے گی، حرمین شریفین میں حاجی حضرات نے مناسکِ حج ادا کیے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا حج قبول فرمائیں، دنیا بھر کی امت کی قربانیاں قبول فرمائیں۔ لیکن یہ دن ہمیں کیسے ماحول میں مل رہا ہے؟ ایک طرف تو وطنِ عزیز پاکستان کو اللہ رب العزت نے بھارتی جارحیت کے مقابلے میں سرخروئی نصیب فرمائی ہے، عزت نصیب فرمائی ہے، وقار نصیب فرمایا ہے۔ اور دوسری طرف ہمارے مسلمان فلسطینی بھائی ذبح ہو رہے ہیں، قربانیاں دے رہے ہیں، اور ان کے خلاف جنگ بند کرنے کی بھی کوئی تجویز قابلِ عمل نہیں رہی کہ وہ اس ظلم اور درندگی سے نجات پا سکیں۔ اس ماحول میں ہمیں عید ملی ہے، اللہ تعالیٰ ہماری عید کو عید ہی بنائیں۔ حقیقی عید کیا ہے؟ اقبالؒ نے کہا تھا ’’عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دین‘‘ کہ دین اگر باوقار ہے اور ملک باوقار ہے تو عید ہے۔ اور ’’عیدِ محکوماں ہجومِ مومنین‘‘ (ورنہ) خالی ہجوم ہی ہے۔ عید تو دین اور قوم کی عزت اور وقار ہے۔ ایسی عید اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دیں۔ لیکن ہم ایک عرصہ سے اسی طرح کی عید دیکھ رہے ہیں کہ آزمائشیں ہیں اور مصیبتیں ہیں۔

آج یہ بات تو ساری قوم کے لیے خوشی کی ہے کہ اللہ رب العزت نے بھارتی جارحیت کے مقابلے میں ہمیں سرخروئی نصیب فرمائی اور چند روز کی جنگ میں دشمن کے پاس جنگ بندی کی بات کرنے کا سوا کوئی راستہ نہیں رہا۔ یہ پاکستان کی عزت ہے، پاکستان کا وقار ہے، اس پر تو ہم اپنی بہادر افواج کو، ان کی قیادتوں کو، اور تمام قوم کو مبارکباد بھی دیتے ہیں اور خوش بھی ہوتے ہیں کہ انہوں نے متحد ہو کر اس چیلنج کا سامنا کیا۔ لیکن دوسری طرف المیہ کی بات یہ ہے کہ فلسطینی بھائی دو سال سے ذبح ہو رہے ہیں، تقریباً‌ اسی نوے ہزار تو شہید ہو چکے ہیں، بچے ذبح ہو رہے ہیں، عورتیں ذبح ہو رہی ہیں، مکانات ختم ہو گئے ہیں، آبادی ختم ہو گئی ہے۔ ان کا قصور کیا ہے؟ یہی کہ وہ اپنا گھر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہ ہمارا گھر ہے جہاں صدیوں سے رہ رہے ہیں، کیوں چھوڑیں؟ اور اگر کوئی آدمی اپنی جگہ کے لیے اڑ جائے تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی حق قرار دیا ہے۔ وہ تو اپنے دین کے لیے، مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے، اپنے وطن کی آزادی کے لیے، اپنے وطن کو قائم رکھنے کے لیے لڑ رہے ہیں، اللہ پاک انہیں سرخروئی نصیب فرمائیں (آمین)۔

ہمارا حال یہ ہے کہ عوام اور دینی حلقے تو ان کے ساتھ ہیں، دعائیں بھی کرتے ہیں، جہاں تک ہو سکتا ہے تعاون بھی کرتے ہیں، لیکن ہماری حکومتوں کو سانپ سونگھ گیا ہے، ان کو یہ مسئلہ نظر نہیں آ رہا کہ ہمارے بھائی کہیں ذبح ہو رہے ہیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ سندھ میں لٹیروں نے ایک خاندان کو، ایک عورت کو قبضے میں لیا تھا، تو اس کو چھڑوانے کے لیے عراق سے محمد بن قاسم آیا تھا، اس نے جنگ لڑی تھی۔ اب تو کوئی بات ابہام کی نہیں رہی، صبح کوئی واقعہ ہوتا ہے تو دو گھنٹے کے بعد میڈیا پر ہوتا ہے، ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں، ذبح ہوتے دیکھ رہے ہوتے ہیں، شہید ہوتے دیکھ رہے ہوتے ہیں، بھوکے مرتے دیکھتے ہیں، اللہ رب العزت ہم پر رحم فرمائیں۔

اصل بات یہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’کیف بکم‘‘ تمہارا کیا حال ہو گا ’’يوشك الامم ان تداعی عليكم كما تداعی الاكلۃ الی قصعتھا‘‘ دنیا کی قومیں تم پر حملہ آور ہونے کی ایک دوسرے کو یوں دعوت دیں گی جیسے تیار دسترخوان پر میزبان مہمان کو کھانے کی دعوت دیتا ہے۔ حضورؐ نے یہ مثال دی کہ ایک وقت آئے گا کہ تم دنیا کی قوموں کے لیے تَر نوالہ ہو گے، جیسے دسترخوان پر بچھا ہوا کھانا ہوتا ہے، فرمایا، یہ کیفیت ہو گی تمہاری۔ صحابہؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ’’ومن قلۃ نحن يومئذ؟‘‘ اس وقت ہم اتنے تھوڑے ہوں گے؟ فرمایا، نہیں قلت کی وجہ سے نہیں ہو گا ’’بل انتم يومئذ كثير‘‘ تمہاری تعداد تو بہت بڑی ہو گی ’’وليقذفن اللہ فی قلوبكم الوھن‘‘ تم میں بیماری آجائے گی وہن کی۔

جہاں تک تعداد کی بات ہے، بدر میں ہم ۳۱۳ تھے، اور مسلمانوں کی پہلی مردم شماری غزوہ احزاب میں ہوئی ہے، غزوہ خندق کے موقع پر۔ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب عرب قبائل نے متحد ہو کر ہمارے خلاف یلغار کر دی تھی، بہت سے قبیلوں نے متحد ہو کر باقاعدہ محاذ بنا کر مدینہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ احزاب کے موقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ’’اکتبوا لی من یلفظ بالاسلام من الناس‘‘ مسلمان گنو، کتنے ہو تم؟ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے مردم شماری کی تو چھوٹے بڑے اور مرد وعورتیں ملا کر کوئی پندرہ سو بنے۔ اور حذیفہؓ کہتے ہیں کہ ہم حضورؐ کی خدمت میں گئے تو اس لہجے میں رپورٹ دی کہ یا رسول اللہ! گبھرانے کی کیا بات ہے، ہم پندرہ سو ہیں۔ یہ ہماری پہلی مردم شماری ہے۔

آج ہم کتنے پندرہ سو ہیں! لیکن جتنی گبھراہٹ ہم پر طاری ہے، آج ہماری کیفیت وہی ہے جو اسی بیت المقدس کے حوالے سے، اسی فلسطین کے حوالے سے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے کہ موسیٰ علیہ الصلوٰۃ السلام کو جب فرعون کے ظلم و ستم اور غلامی سے آزادی ملی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بھئی، تمہاری اصل جگہ تو بیت المقدس ہے، جاؤ اپنا وطن سنبھالو وہاں جا کر۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم سے کہا، چلو اپنا وطن آزاد کرواتے ہیں ’’یا قوم ادخلوا الارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم‘‘۔ قوم نے کہا ’’ان فیھا قوماً‌ جبارین‘‘ بڑے طاقتور لوگ ہیں، ہمارا ان کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ وہاں دوسرے قابض تھے، ان کو ہمت نہیں ہوئی۔ ’’انا لن ندخلھا حتیٰ یخرجوا منھا‘‘ ان کو آپ نکالیں تو ہم داخل ہو جائیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اللہ کے بندو! اللہ کے وعدے پر یقین کرو، اللہ کہتا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں، لڑو تو سہی، ہمت تو کرو۔ کہا، نہیں ’’فاذھب انت و ربک فقاتلا انا ھاھنا قاعدون‘‘ آپ اور اللہ جا کر لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم سے تو ہلا نہیں جاتا۔

سچی بات ہے، ایمانداری کی بات ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع کل عرفات میں تھا، کتنے لاکھ مسلمان تھے؟ چودہ لاکھ کے قریب بتاتے ہیں، تاریخ کا عظیم ترین اجتماع تھا۔ شیخ محترم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اللہ سے کہا، اللہ میاں تو کر دے۔ دعا اللہ سے ہی مانگنی چاہیے لیکن کیا یہ دعا مانگنے کا وقت ہے؟ مجھے کل بڑی شرم آئی وہ پڑھ کر کہ یا اللہ! تو کر دے، ہم سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ وہی موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا جواب ’’فاذھب انت و ربک فقاتلا‘‘ آپ لڑیں جا کر، ہم سے نہیں لڑا جاتا۔ اللہ پاک نے پھر سزا کیا دی؟ اللہ کے حکم کا جواب انہوں نے کیا دیا تھا، کہ ہم سے نہیں لڑا جاتا۔ اصرار پر کہا موسیٰ علیہ السلام اور اللہ لڑیں جا کر، ہمیں فتح کر کے دو۔ آج ہمارے مسلم حکمرانوں کا حال بھی یہ ہے کہ اللہ پاک فتح کر کے ان کے حوالے کر دیں … اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں غیرت نصیب فرمائیں، حمیت نصیب فرمائیں، احساس نصیب فرمائیں، دین کا، ملت کا، بھائیوں کا، مظلوموں کا احساس نصیب فرمائیں۔

آج عید کا دن ہے تو قربانی بھی کریں گے۔ ہم تو قربانی کریں گے جانوروں کی، لیکن کہیں بندے بھی ذبح ہو رہے ہیں۔ ہم تو بکرا ذبح کریں گے، اونٹ ذبح کریں گے، گائے ذبح کریں گے، یہی کریں گے نا؟ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ لیکن کہیں بندے بھی ذبح ہو رہے ہیں اور اللہ کے نام پر ہو رہے ہیں۔ یہ بھی اللہ کے نام پر ذبح ہوں گے، وہ بھی اللہ کے نام پر ذبح ہو رہے ہیں۔ ہو رہے ہیں یا نہیں ہو رہے؟ نظر آ رہے ہیں یا نہیں آ رہے؟ کس کو نظر نہیں آ رہے؟ بچے ذبح ہو رہے ہیں، عورتیں ذبح ہو رہی ہیں، اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔ ہم ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہیں جس نے رکی ہوئی جنگ دوبارہ شروع کروائی ہے، اور جس نے کل ایک بار پھر ویٹو کر کے بتایا ہے کہ میں فلسطینیوں کے خاتمے کے سوا کوئی حل قبول نہیں کرتا۔ کل امریکہ کا ویٹو کیا تھا؟ ساری دنیا ایک طرف ہے، پندرہ میں سے چودہ ووٹ ایک طرف ہیں کہ جنگ بند کرو، ظلم بند کرو، خوراک پہنچاؤ۔ اور ویٹو کون کر رہا ہے؟ ہمارا دوست، ہمارا مہربان۔ جو ہمارا مہربان ہے اور ہم اس کے مہربان ہیں۔ وہ ویٹو کر رہا ہے کہ نہیں نہیں نہیں، نہ جنگ بند کرنے کی ضرورت ہے، نہ ان کو خوراک پہنچانے کی ضرورت ہے، مرنے دیں ان کو۔ ہم (مسلم حکمران) اس قوت کے ساتھ ہیں جو تماشا دیکھ رہی ہے کہ مرنے دو، ختم کیوں نہیں ہوتے، ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، یہ توبہ کا موقع ہے، استغفار کا موقع ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ دیکھو، اللہ کا ضابطہ یہ ہے ’’ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیروا ما بانفسھم‘‘۔ اللہ دعا قبول کرتا ہے، اللہ دعا قبول فرمائے، لیکن اس دنیا کا نظام ان دعاؤں پر نہیں چلتا، دنیا کا نظام اسباب پر چلتا ہے۔ ہم نے ہر بات دعا پر چھوڑ دی ہے۔ اللہ پاک اسباب پورے کرنے کے بعد دعا قبول فرماتے ہیں۔ بدر کے میدان میں جتنی تلواریں تھیں وہ حاضر تھیں، جتنے گھوڑے تھے وہ حاضر تھے، جتنے لڑنے والے تھے وہ حاضر تھے، اور سامنے کھڑے اللہ سے دعا مانگ رہے تھے اور اللہ پاک نے قبول فرمائی۔

اسباب کے بغیر دنیا کا نظام نہیں چلتا، میں ایک واقعہ سنایا کرتا ہوں کہ اسباب کیا ہیں۔ ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک بات سمجھایا کرتے تھے کہ دیکھو، دنیا کے کام اسباب اختیار کیے بغیر خالی دعاؤں سے نہیں چلتے۔ ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام آسمان پر موجود ہیں، زندہ ہیں، ان پر موت نہیں آئی، قیامت سے پہلے آئیں گے۔ ہم یہ تو بحث کر رہے ہیں کہ کب آ رہے ہیں اور کہاں آ رہے ہیں، لیکن یہ بات بھی ہمارے سوچنے کی ہے کہ وہ جب بھی آئیں ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا سامنے کھڑے ہوں گے؟ مجھے تو اپنی فکر کرنی ہے کہ جب حضرت عیسٰی علیہ السلام آئیں گے تو میں کہیں سامنے تو نہیں کھڑا ہوں گا؟

بہرحال، تشریف لائیں گے، دمشق کی جامع مسجد پر آسمانوں سے نازل ہوں گے۔ حدیث کے مطابق مینارے پر آئیں گے، فجر کی نماز کا وقت ہو گا، نماز کی تیاری ہو رہی ہو گی، تشریف لائیں گے، مینار سے آواز دیں گے کہ میں عیسٰی بن مریمؑ آگیا ہوں، سیڑھی لاؤ میں نے نیچے اترنا ہے۔ حدیث میں ہے، اپنی طرف سے گپ نہیں لگا رہا۔ آسمان سے آ گئے ہیں اور سو دو سو فٹ کے لیے سیڑھی مانگ رہے ہیں۔ حضرت والد صاحبؒ کہا کرتے تھے کہ یہ ہے اسباب کی دنیا، دنیا کا نظام اسباب سے ہی چلے گا، اوپر سے اللہ تعالیٰ کے حکم پر آئے ہیں اور یہاں اسباب سے چلیں گے، یہاں سیڑھی مانگ رہے ہیں کہ سیڑھی لگے گی تو نیچے اتریں گے۔

ہم نے اپنے فرائض چھوڑ دیے ہیں کہ جو میں نے کرنا ہے وہ بھی اللہ نے ہی کرنا ہے، جو حکومت نے کرنا ہے وہ بھی اللہ نے ہی کرنا ہے، جو تاجروں نے کرنا ہے وہ بھی اللہ نے ہی کرنا ہے، سارے کام اللہ نے کرنے ہیں کہ یا اللہ تو کر دے۔ ہمیں اپنی حالت پر غور کرنا ہو گا، اس طرح کام نہیں چلے گا۔ اور سب سے پہلا کام ہمارا کیا ہے؟ توبہ استغفار، اللہ کی بارگاہ میں معافی، ہم سے کوتاہیاں نہیں ہو رہیں، ہم کوتاہیاں ہی کر رہے ہیں۔ ہمارے شب و روز کی زندگی، ہمارا اجتماعی ماحول، ہماری سوسائٹی کی صورتحال، ہماری تجارت، ہماری ملازمتیں، ہماری حکمرانیاں کیا ہیں؟ کوتاہیوں کے سوا ہمارے دامن میں ہے کیا؟ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ ہمارا سب سے پہلا کام ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں بہت خشک سالی ہو گئی، قحط ہو گیا، تو کسی نے تجویز پیش کی کہ امیر المومنین، استسقاء کی نماز پڑھائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، جب بارش نہیں برستی تھی تو حضورؐ استسقاء کی نماز پڑھا کرتے تھے، دعا مانگا کرتے تھے۔ استسقاء کی بعض مواقع پر نماز کے بغیر بھی دعا ہے اور نماز بھی ہے، دونوں ٹھیک ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اعلان فرما دیا کہ ٹھیک ہے بھئی کل صبح چاشت کے وقت اکٹھے ہوں گے عید گاہ میں اور استسقاء کی دعا کریں گے۔ سارا مدینہ اکٹھا ہو گیا اور لوگ منبر بھی لے گئے کہ امیر المومنین تشریف لائیں گے تو خطبہ بھی ارشاد فرمائیں گے اور نماز بھی پڑھائیں گے۔

حضرت عمرؓ تشریف لائے۔ دیکھیں، دو باتیں ہیں اس میں کہ یقین کسے کہتے ہیں اور بات سمجھانے کا طریقہ بھی ان کا اپنا ہے۔ تشریف لائے، منبر پر کھڑے ہوئے، خطبہ پڑھا، تین دفعہ استغفار پڑھا، منبر سے اترے اور گھر چلے گئے۔ لوگ حیران پریشان کہ امیر المومنین نے یہ کیا کِیا ہے۔ ہم تو آئے تھے کہ امیر المومنین نماز پڑھیں گے اور لمبا خطبہ ارشاد فرمائیں گے۔ لوگ پیچھے پیچھے چل پڑے کہ یا امیر المومنین! یہ آپ نے کیا کِیا ہے۔ بھئی! میں نے اپنا کام کر دیا ہے۔ فرمایا، دیکھو! اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں استغفار پر کتنے وعدے کیے ہیں؟ دیکھیں، ایمان کسے کہتے ہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، ہمارا انتخابی وعدہ نہیں ہے کہ کسی امیدوار نے وعدہ کیا ہو کہ میں یہ کروں گا۔

فرمایا کہ اللہ نے استغار پر کتنے وعدے کیے ہیں؟ حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدے گنوائے ہیں۔ ’’یا قوم استغفروا ربکم انہ کان غفارا‘‘ توبہ استغفار کرو، پہلی بات یہ ہے کہ اللہ معاف کر دے گا۔ ’’یرسل السماء علیکم مدرارا‘‘ تمہارے استغفار کی برکت سے اللہ تبارک و تعالیٰ آسمان سے لگاتار بارش برسائیں گے۔ ’’یمددکم باموال‘‘ مالوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا۔ ’’وبنین‘‘ اولاد کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا۔ ’’ویجعلکم جنات‘‘ باغات ہوں گے، سبزہ ہو گا، پیداوار ہو گی۔ ’’ویجعلکم انھارا‘‘ تمہارا نہروں کا نظام ٹھیک ہو گا، پانی آئے گا نہروں میں۔

یہ پانچ وعدے ایک استغفار پر اللہ نے کیے ہیں۔ فرمایا کہ اللہ نے یہ وعدے کیے ہیں اور میں نے اپنا کام کر دیا ہے۔ اور اس دن شام بارش ہو گئی تھی۔ یہ ہے ایمان کی بات۔ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں تو سہی، اپنی غلطیوں کا احساس تو کریں۔ ہم سارے ٹھیک ہیں، میں بھی ٹھیک ہوں، آپ بھی ٹھیک ہیں، حکمران بھی ٹھیک ہیں، فوج بھی ٹھیک ہے، سب ٹھیک ہیں۔ تو خرابی کہاں ہے پھر؟ پہلے خرابی کا تعین تو کریں کہ خرابی کہاں ہے۔ یہ ہمارے اندر ہے۔ میں منبر پر بیٹھا ہوں تب ہے، وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھا ہوں تب ہے، میرا فیلڈ مارشل کا منصب ہے تب ہے، کوئی صدر مملکت ہے تب ہے۔ ہم سب کو اپنی کوتاہیوں کو دیکھنا ہو گا کہ ہماری کون سی غلطیاں آگے آ رہی ہیں۔ کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں کوئی غلطی آگے آ گئی ہے۔ ہماری غلطیاں ہمارے آگے ہیں۔ ہم جھانک کر تو دیکھیں۔ میری غلطیاں کیا ہیں وہ مجھے دیکھنی چاہئیں، حکمرانوں کی غلطیاں حکمرانوں کو دیکھنی چاہئیں، تاجروں کی غلطیاں تاجروں کو دیکھنی چاہئیں۔

میں ایک بات تو یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ وقت اللہ کے سامنے جھکنے کا اور معافی مانگنے کا ہے کہ یا اللہ معاف کر دے۔ اور پھر جو کچھ ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں نا۔ یہاں جو کچھ ہم کر سکتے تھے ہم نے کیا ہے الحمد للہ۔ انڈیا نے دھمکی بھی دی، انڈیا نے حملہ بھی کیا، تو جو کچھ ہم کر سکتے تھے وہ ہم نے کیا تو اللہ نے مدد بھی کی ہے یا نہیں، دنیا میں عزت بھی رکھی ہے یا نہیں رکھی؟ وہاں ہم جو کر سکتے ہیں پہلے دیکھیں تو سہی کہ کیا کر سکتے ہیں۔ اور یہ دیکھنا کس کا کام ہے؟ یہ دیکھنا کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کو اس درندگی سے بچانے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں، یہ کس کا کام ہے؟ حکمرانوں کا۔ کیا وہ اس مسئلے کے لیے بیٹھنے کو تیار ہیں؟ اتنا تو سوچو کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ بھئی اکٹھے بیٹھ کر سوچو کہ ہم ان مظلوموں کو بچانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ محلے میں کوئی ڈاکو کسی گھر پر حملہ کر کے قتلِ عام شروع کر دے تو محلے والے سوچتے تو ہیں نا کہ یار ہم کیا کر سکتے ہیں، کیسے بچائیں، کیا کریں۔ ہم تو محلے والوں سے بھی گئے گزرے ہیں کہ سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، ہمارے بچے ہزاروں کی تعداد میں ذبح ہو گئے اور ہوتے جا رہے ہیں اور روکنے کی باتیں قبول نہیں ہو رہیں۔

بہرحال، یہ دردِ دل کا اظہار ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے دروازے پر جھکنے کی توفیق دیں، توبہ استغفار کی توفیق دیں، حج قبول فرمائیں، ہماری قربانیاں قبول فرمائیں، مولا کریم ہمیں خیر کے راستے پر چلائیں اور اپنے فرائض اور ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق دیں اور ادا کرنے کی توفیق دیں (آمین)۔

2016ء سے
Flag Counter