عصر حاضر کے چیلنجز اور دینی جدوجہد کے ۷ دائرے

   
تاریخ: 
۳ جون ۲۰۰۶ء

(۳ جون ۲۰۰۶ء کو ابراہیم کمیونٹی کالج (وائٹ چیپل، لندن) کے ہال میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ایک علمی و فکری نشست سے خطاب۔)

اس وقت پورے عالم اسلام میں علماء کرام اور دین سے تعلق رکھنے والے حلقے، شخصیات اور ادارے جن دائروں میں کام کر رہے ہیں، اور جو دین کے حوالے سے ان کی تگ و دو کے دائرے ہیں، ان کی معروضی صورتحال پر میں اس وقت آپ حضرات سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں، تاکہ یہ بات آپ دوستوں کے سامنے آ جائے کہ کون سے کام ہمارے کرنے کے ہیں؟ ان میں سے کون سے ہو رہے ہیں اور کون سے نہیں ہو رہے ہیں؟ میں نے موجودہ مسلم معاشرے اور عالمی ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے دینی جدوجہد کی مختلف سطحوں کو سات دائروں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کے علاوہ اور زاویے بھی ہیں، لیکن وقت کی کمی کے باعث اس وقت انہی کے بارے میں گفتگو کر سکوں گا۔

  1. دینی مکاتب، مدارس، اداروں، شخصیات اور مساجد کی محنت کا ایک دائرہ یہ ہے کہ عام مسلمان کا دین سے تعلق قائم رہے اور اسلامی عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات اور دیگر ضروری شعبوں کے بارے میں انہیں معلومات فراہم ہوتی رہیں۔ یہ کام نچلی سطح پر مساجد، مدارس اور دیگر مراکز میں وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے اور اسی کی برکت ہے کہ مسلم سوسائٹی کے ایک بڑے حصے میں دین کے ساتھ تعلق، اس کی تعلیم اور اس کے بارے میں بیداری کا ماحول قائم ہے۔ لیکن اس حوالے سے میں ایک پہلو کی طرف علماء کرام اور دینی اداروں کی توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان مدارس، مکاتب اور تعلیمی اداروں سے تھوڑی بہت تعلیم پانے والے مسلم بچوں اور بچیوں کے تناسب پر ایک نظر ضرور ڈال لینی چاہیے کہ مجموعی آبادی کی نسبت سے وہ کتنے فیصد ہیں؟ اگر ہم اس کا صحیح اندازہ کر سکیں تو مسلم آبادی کے دوسرے حصے کو دینیات کی ضروری تعلیم کے اس دائرے میں لانے کی محنت کرنا بھی ہماری ذمہ داری میں شامل ہے اور ہمیں اس کے راستے تلاش کرنے چاہئیں۔
  2. اس کے بعد دینی جدوجہد کا دوسرا دائرہ وہ نوجوان اور پڑھے لکھے لڑکے اور لڑکیاں ہیں جن کا تعلق اسکول اور کالج سے ہے۔ وہ جدید تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ذرائع ابلاغ تک ان کی رسائی ہے، اور اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ ان کے استعمال میں ہیں۔ ان کے ذہنوں کو ٹٹولنے اور وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے، اس لیے کہ یہ نوجوان بچے اور بچیاں زبان سے کچھ کہیں یا نہ کہیں، ان کے ذہنوں سے اسلام کے مختلف احکام اور تعلیمات کے حوالے سے سوالات اور شکوک و شبہات کی ایک وسیع دنیا آباد ہے، لیکن وہ احتراماً یا فتوے کے ڈر سے اپنی زبانوں پر انہیں لانے کا حوصلہ نہیں پا رہے ہیں۔

    آپ کسی پڑھے لکھے نوجوان لڑکے یا لڑکی کو جو مسلمان خاندان میں پیدا ہوا ہے اور اس کا دینی تعلیمات کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہے، ٹٹول کر دیکھیں، اس کے ذہن میں جھانکیں اور بے تکلفی کے ماحول میں اس سے بات کریں۔ اس کے ذہن کے بند دروازے کے پیچھے سوالات اور شکوک کا جنگل آپ کو ملے گا اور خاردار جھاڑیوں کی ایک لمبی قطار آپ کو دکھائی دے گی۔ ہم میں سے کسی کو اس سے واسطہ پڑتا ہے تو ہم ذہن سے کانٹوں کو نکالنے کی بجائے انہیں فتوے، معاشرتی دباؤ اور دیگر مختلف حیلوں سے دبا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں اس صورتحال کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہوں گا کہ ہمیں اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا اس سلسلے میں ہم اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر پوری کر رہے ہیں؟ اور اگر نہیں کر رہے ہیں تو ہمیں اس کے لیے کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟

  3. دینی جدوجہد کا تیسرا دائرہ جس میں خاصا کام ہو رہا ہے لیکن بہت سے کام کی ابھی ضرورت ہے، سوسائٹی کو دینی قیادت فراہم کرنا ہے۔ حافظ، قاری، امام، خطیب، مدرس اور مفتی حضرات کا وجود دینی قیادت کے حوالے سے مسلم معاشرے کی ضرورت ہے اور ہمارے دینی مدارس گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے اسی خلا کو پر کرنے اور ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ جنوبی ایشیا یعنی پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے دینی مدارس کے بارے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ مسلم معاشرے کو امام، خطیب، مدرس، قاری اور مفتی فراہم کرنے میں یہ مدارس نہ صرف خود کفیل ہیں، بلکہ بہت بڑے ایکسپورٹر بھی ہیں۔ آپ دنیا کے جس خطے میں بھی چلے جائیں، آپ کو پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت کے کسی نہ کسی مدرسے سے پڑھے ہوئے امام، خطیب اور قاری دینی خدمات سرانجام دیتے ہوئے ملیں گے، البتہ اس شعبے میں دو باتوں کی طرف توجہ دلانا میرے نزدیک انتہائی ضروری ہے:
    • ایک یہ کہ ہمیں یہ بات چیک کر لینی چاہیے کہ جن ضروریات کے لیے ہم ان افراد کو تیار کر رہے ہیں، کیا ان کی تعلیم و تربیت اور تیاری ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے؟ میرے خیال میں مسجد و مدرسے کے داخلی ماحول کی ضروریات کے لیے تو شاید تعلیم و تربیت کا موجودہ دائرہ کافی ہو، لیکن مسلم سوسائٹی کی اجتماعی ضروریات اور عالمی گلوبل ماحول کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں تعلیم و تربیت کے اس نظام کا بہرحال ازسرنو جائزہ لینا ہوگا اور بہت سے تغیرات اور اضافوں کے لیے پیشرفت کرنا ہوگی۔
    • دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے معاشرے کو خطیب فراہم کرنے کی ذمہ داری تو قبول کر رکھی ہے، لیکن ایک اچھا صحافی اور ایک اچھا قلم کار تیار کرنے کو ہم ابھی تک اپنی ذمہ داری سے باہر کی چیز سمجھ رہے ہیں، حالانکہ زبان اور قلم دونوں ابلاغ کا ذریعہ ہیں۔ آج کے دور میں قلم کی اہمیت اگر زبان سے زیادہ نہیں تو اس سے کم بھی نہیں ہے۔ بلکہ فکر و فلسفہ، عقائد اور تہذیب و ثقافت کی کشمکش کی اصل جولان گاہ قلم بلکہ اس سے بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا ہے جس کے لیے افراد کی تیاری کو دینی مدارس ابھی تک اپنی ذمہ داری نہیں سمجھ رہے۔ میرے نزدیک یہ المیہ سے کم نہیں اور ارباب علم و دانش کو اس خلا کا احساس دلانا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔
  4. دینی محنت کا چوتھا دائرہ جسے دراصل پہلے نمبر پر ذکر کرنا چاہیے تھا، لیکن میں کام کی عملی ترتیب کے پیش نظر اس کا چوتھے نمبر پر ذکر کر رہا ہوں، یہ ہے کہ پوری دنیائے انسانیت تک اسلام کی دعوت اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچانے کی فکر کی جائے۔ اس وقت دنیا میں چھ ارب کے لگ بھگ انسان بستے ہیں جن میں مسلمانوں کی تعداد سوا ارب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ باقی ساڑھے چار یا پونے پانچ ارب انسانوں تک اسلام کی دعوت پہنچانا اور انہیں قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرانا امت مسلمہ کا اجتماعی فریضہ ہے اور اس کے راستے تلاش کرنا دینی مدارس، شخصیات اور حلقوں کی ذمہ داری ہے۔ میرے مطالعے اور معلومات کے مطابق دنیا کے مختلف حصوں میں کچھ ادارے اور افراد اس کے لیے علاقائی سطح پر ضرور کام کر رہے ہیں، لیکن ایسا کوئی کام جسے اجتماعی محنت اور ملّی جدوجہد سے تعبیر کیا جا سکے، کم از کم میرے علم میں اس کا کوئی وجود نہیں۔
  5. دینی جدوجہد کا پانچواں دائرہ عالمی سطح پر اسلام کے بارے میں پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کا سامنا کرنا اور ان کے ازالے کے لیے محنت کرنا ہے۔ اس وقت بین الاقوامی سطح پر میڈیا اور لابنگ کے ادارے اسلامی تعلیمات اور احکام کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے اور انسانی ذہنوں کو اس سے دور کرنے کے لیے جو منظم کام کر رہے ہیں، ان کا اس سطح پر کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ ہم میں سے بہت سے افراد دنیا کے مختلف حصوں میں ان شکوک و شبہات کے ازالے کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن ان کا دائرہ بہت محدود ہے۔ مثلاً خود میری گفتگو اور تحریروں کا موضوع اکثر یہی باتیں ہوتی ہیں، لیکن ان کی حدود اور دائرۂ اثر اس قدر تنگ ہے کہ اسے عالمی سطح اور بین الاقوامی لیول کے کسی کام کا جواب تصور کرنا شاید خود فریبی کے مترادف ہو۔ دینی جدوجہد کا یہ شعبہ بھی ہم سے توجہ مانگ رہا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے راستے تلاش کرنا اور اس کے لیے مناسب ماحول بنانا آخر کار دینی اداروں اور شخصیات ہی کی ذمہ داری ہے۔
  6. دینی محنت اور تگ و تاز کا چھٹا دائرہ جو اس وقت عالمی سطح پر بہت زیادہ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے، ’’بین المذاہب مکالمہ‘‘ ہے جس کا دائرہ کار روز بروز وسیع ہو رہا ہے۔ میرے نزدیک اس وقت بین المذاہب مکالمے کا جو ماحول منظم طریقے سے بنایا جا رہا ہے وہ دراصل توجہ ہٹانے کی ایک سازش ہے۔ اس لیے کہ عالمی سطح پر جو کشمکش موجود ہے، اس کے اصل متحارب فریق مذاہب نہیں ہیں بلکہ مذہب اور لامذہبیت کے درمیان کشمکش ہے، جسے لامذہبیت بڑی ہوشیاری کے ساتھ مذاہب کے درمیان کشمکش اور پھر مفاہمت و مکالمہ کا عنوان دے کر خود کو اس کے پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس فرق کو واضح کرنا ضروری ہے کہ مسلم علماء تو مذہب اور سوسائٹی دونوں کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن مسیحیت سمیت دوسرے مذاہب کے علماء صرف مذہب کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ اپنی سوسائٹی کے نمائندہ نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کی سوسائٹی کی نمائندگی وہ لوگ کر رہے ہیں جو مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی کرتے ہیں اور سوسائٹی میں مذہب یا مذہبی نمائندوں کو کوئی اجتماعی کردار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    اس لیے انسانی سوسائٹی کے مسائل کے حوالے سے بات ہوگی تو اس میں دوسرا فریق دوسرے مذاہب کے علماء نہیں ہوں گے بلکہ وہ سیکولر عناصر ہوں گے جو سوسائٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مذہبی علماء کے ساتھ صرف مذہب کے سوال پر بات ہوگی۔ کچھ عرصہ قبل مجھے اس نوعیت کے ایک مکالمے میں شمولیت کے لیے کہا گیا تو میں نے عرض کیا کہ پادری صاحبان سے گفتگو قرآن کریم یا بائبل کے بارے میں ہو سکتی ہے، انسانی حقوق کے عنوان سے ان کے ساتھ گفتگو کا کوئی محل نہیں ہے، اس لیے کہ وہ انسانی حقوق یا انسانی حقوق کے اداروں کے نمائندے نہیں ہیں۔ انسانی حقوق اقوام متحدہ کا ایجنڈا ہے، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن کا ایجنڈا ہے، اس لیے ان کے بارے میں جب بھی بات ہوگی تو انہی کے نمائندوں سے ہوگی، پادری صاحبان کا اس سلسلے میں کوئی کردار نہیں ہے۔

    صورتحال کی یہ وضاحت اپنی جگہ، لیکن اس کے باوجود بین المذاہب مکالمے کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس کے روز بروز پھیلتے ہوئے دائرہ کار کو آنکھیں بند کر کے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اور یہ بھی دینی اداروں اور علماء کرام کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

  7. دینی جدوجہد کے ساتویں دائرے کے طور پر اس عالمی تہذیبی کشمکش کا تذکرہ کرنا چاہوں گا، جو اگرچہ پہلی باتوں میں بھی شامل ہے، لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کا الگ تذکرہ کرنا ضروری سمجھ رہا ہوں۔ عالمی تہذیبی کشمکش جس فیصلہ کن دور میں داخل ہو گئی ہے اور پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ ہمارے دینی مدارس کے ماحول میں اس کی سرے سے کوئی فکر موجود نہیں، حالانکہ مغربی فلسفہ و تہذیب سے واقفیت، اس کے طریق کار اور ہتھیاروں سے شناسائی اور ان کے توڑ کی کوششیں ان دینی مدارس کے فرائض میں سے ہیں جن مدارس نے اسلامی عقائد کی حفاظت اور قرآن و سنت کی تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرت و تہذیب کی بقا اور تحفظ کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ کیونکہ مغربی فلسفہ اور فکر کا براہ راست حملہ انہی پر ہے اور اس کی تمام تر تگ و دو کا اصل نشانہ اور ہدف وہی ہیں۔ اس لیے مغربی فلسفہ و فکر اور تہذیب و ثقافت سے خود واقف ہونا، اپنے اساتذہ اور طلبہ کو اس سے روشناس کرانا، علمی و فکری ماحول میں اس کے مقابلے کے لیے انہیں تیار کرنا، اور اس شعبے میں متخصصین تیار کر کے اس چیلنج کا سامنا کرنا بہرحال دینی مدارس اور شخصیات ہی کا کام ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان امور کی طرف صحیح طور پر توجہ دینے کی توفیق دیں۔ آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter