محترم راجہ انور صاحب نے اپنے موقف کے دفاع میں قلم اٹھایا ہے اور میرے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ انہیں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ کسی موقف کو محض جذبات کی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لیے استدلال اور تجزیہ و تنقیح کے مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ راجہ صاحب محترم کے ساتھ کوئی ملاقات تو مجھے یاد نہیں مگر غائبانہ تعارف بہت پرانا ہے اور میں نے ایک نظریاتی کارکن کے طور پر ان کے لیے اپنے دل میں ہمیشہ احترام کے جذبات محسوس کیے ہیں۔ میں خود ایک متعین اور مخصوص سوچ، فکر، فلسفہ اور مشن کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ رکھنے والا نظریاتی کارکن ہوں، اس لیے کسی بھی فلسفہ و نظریہ کے ساتھ مخلصانہ وابستگی رکھنے والے ہر کارکن کا احترام کرتا ہوں خواہ اس کا تعلق کسی بھی کیمپ سے ہو۔
راجہ صاحب کو خدا جانے واضح سوچ اور کمٹمنٹ رکھنے والے لوگ کیوں اچھے نہیں لگتے، اس کی وضاحت وہی کر سکتے ہیں۔ جہاں تک اختلاف رائے کا تعلق ہے میں اس کا حق ہر صاحب الرائے کے لیے تسلیم کرتا ہوں، پھر وہی حق اپنے لیے کسی رو رعایت کے بغیر مانگتا ہوں اور اسے بے جھجھک استعمال بھی کرتا ہوں جس پر اس کالم میں میری تحریریں گواہ ہیں۔
راجہ صاحب محترم کو یہ غلط فہمی ہے کہ اہل دین کج بحث ہوتے ہیں اور کسی منطق اور استدلال کے بغیر محض تقدس اور احترام کے زور پر اپنی بات منوانے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے ان کا واسطہ کبھی کسی کج بحث سے پڑ گیا ہو، ورنہ جہاں تک دین کے اصولوں کا تعلق ہے ان کی بنیاد ہمیشہ استدلال اور جائز حدود میں اختلاف رائے کے احترام پر رہی ہے۔ اور اس حوالہ سے راجہ صاحب کی اطلاع کے لیے صرف ایک بات کا تذکرہ کر دینا سردست کافی سمجھوں گا۔ ہمارے ہاں جن احکام و مسائل کا تعلق فقہ سے ہے ان معاملات میں امت مسلمہ کا بہت بڑا حصہ چار اماموں امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، یا امام احمد بن حنبلؒ میں سے کسی نہ کسی کی اس معنی میں تقلید کرتا ہے کہ کسی امام کے قول اور فیصلہ کو ان کے علم، فہم اور دیانت پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے کوئی دلیل طلب کیے بغیر مان لیا جاتا ہے۔ مگر ان تقلیدی معاملات میں بھی اصول یہ ہے کہ اگر ایک مسئلہ پر میں امام ابوحنیفہؒ کے فتویٰ کو مان رہا ہوں تو یہ سمجھ کر کہ ’’صواب یحتمل الخطاء‘‘ یہ فتویٰ صحیح ہے مگر اس میں خطا کا بھی احتمال ہے۔ اور اسی مسئلہ میں اگر میں حضرت امام مالکؒ یا امام شافعیؒ کے فتویٰ پر عمل نہیں کر رہا تو یہ سمجھ کر کہ ’’خطاء یحتمل الصواب‘‘ یہ فتویٰ خطا ہے مگر درست ہونے کا احتمال بھی رکھتا ہے۔
اس لیے جب خالصتًا تقلیدی معاملات میں مجھے اپنے امام کے قول میں خطا کا احتمال اور دوسرے فریق کے فتویٰ میں درستگی کا احتمال ذہن میں رکھنا پڑتا ہے تو جو مسائل نظری ہیں اور جن کا مدار ہی نظر و فکر اور بحث و تمحیص پر ہے، ان میں اپنی رائے کو حتمی، قطعی اور آخری قرار دے کر مخالف فریق کی رائے کو حتمی طور پر غلط کیسے کہہ سکتا ہوں؟ اس اصولی وضاحت کے بعد دو تین غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری سمجھتا ہوں جو محترم راجہ انور صاحب کے جواب الجواب سے پیدا ہوگئی ہیں۔
ایک یہ کہ راجہ صاحب محترم نے مکہ مکرمہ کی فتح کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’دفاعی جنگ‘‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے جو تاریخی طور پر درست نہیں ہے۔ غزوہ بدر کے بارے میں تو بعض مؤرخین کے ہاں یہ بحث چلتی ہے کہ وہ دفاعی تھی یا اقدامی، جبکہ ہمارے نزدیک اسے بھی دفاعی جنگ قرار دینا درست نہیں ہے۔ مگر فتح مکہ کے بارے میں تو بالکل واضح بات ہے کہ جناب نبی اکرمؐ مدینہ منورہ سے دس ہزار صحابہ کرامؓ کا لشکر لے کر مکمل عسکری تیاری کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچے اور مشرکین مکہ نے مقابلہ کی ہمت نہ پا کر ہتھیار ڈال دیے۔ اور رسول اکرمؐ نے اس طرح عسکری یلغار کے ذریعہ مکہ مکرمہ کو فتح کیا جسے کسی طور پر بھی ’’دفاعی جنگ‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔
دوسرا یہ کہ محترم راجہ انور صاحب کو اس بات سے الجھن ہو رہی ہے کہ ان کے بقول راقم الحروف نے عام قومی آزادی کی جنگ اور جہاد کو باہم کنفیوژ کر دیا ہے، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ تاریخی حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں قومی جنگ آزادی بھی جہاد ہی کے عنوان سے لڑی گئی ہے۔ دہلی پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہو جانے کے بعد امام ولی اللہ دہلویؒ کے جانشین شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر انگریز حکومت کے خلاف جہاد کے فرض ہونے کا باقاعدہ فتویٰ جاری کیا تھا جو ’’فتاویٰ عزیزی‘‘ میں موجود ہے۔ اسی فتویٰ کی بنیاد پر قومی آزادی کی جنگ کو ’’جہاد آزادی‘‘ کے عنوان سے منظم کیا گیا تھا۔ اور جن شہدائے بالاکوٹ کی خدمات کا اعتراف راجہ صاحب محترم نے بھی کیا ہے ان کے سرخیل شاہ اسماعیل شہیدؒ انہی شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے بھتیجے تھے جنہوں نے اپنے تایا محترم کے فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے جہاد میں شرکت اختیار کی تھی اور حضرت سید احمد شہیدؒ کے ساتھ مل کر پورے برصغیر کی آزادی کے لیے صوبہ پشاور کو بیس کیمپ بنانے کی غرض سے سکھوں سے لڑ کر اسے فتح کیا تھا اور ۱۹۳۱ء کو وہاں باقاعدہ حکومت قائم کی تھی۔ مگر چھ ماہ بعد بالاکوٹ میں ان کا پورا قافلہ شہادت سے ہمکنار ہوگیا تھا۔ پھر ۱۸۵۷ء کا معرکہ آزادی بھی دہلی، لدھیانہ اور دیگر شہروں کے اکابر علماء کے باقاعدہ فتویٰ جہاد کی بنیاد پر بپا ہوا تھا۔ اور ان کے علاوہ فقیر ایپیؒ، سردار احمد خان کھرل شہیدؒ اور دیگر مجاہدین آزادی نے بھی انہی فتوؤں کے حوالہ سے اسے جہاد سمجھتے ہوئے انگریز حکمرانوں سے بغاوت کی تھی۔ اس لیے ہمارے ہاں قومی جنگ آزادی جہاد ہی کا ایک شعبہ رہی ہے اور جہاد اور جنگ آزادی میں کبھی فرق نہیں کیا گیا۔
میرا سوال راجہ صاحب محترم سے یہی تھا کہ جو کچھ ہمارے ان بزرگوں نے برصغیر میں برطانوی استعمار کے خلاف کیا تھا وہی کچھ افغانستان اور چیچنیا کے مجاہدین نے روسی استعمار کے خلاف کیا ہے۔ وہی فتویٰ جہاد ہے، وہی تکنیک ہے، وہی جذبۂ آزادی ہے اور وہی بے سروسامانی کے باوجود وقت کی بہت بڑی قوت کے ساتھ ٹکرانے کا عمل ہے۔ اس لیے اگر ہمارے مجاہدین آزادی قومی ہیرو ہیں اور ان کی جدوجہد کو خودکشی سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے تو ان کے نقش قدم پر چلنے والے افغان مجاہدین اور چیچن مجاہدین بھی اسی طرح کے قومی ہیرو ہیں اور انہیں صرف اس وجہ سے اعزاز سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی جنگ آزادی میں ان کا سامنا روس سے ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔
راجہ صاحب محترم کے لیے میری یہ گزارش بہت اطمینان کا باعث بنی ہے کہ افغان مجاہدین نے امریکہ کی امداد قبول کر کے غلطی کی تھی۔ میں اس رائے پر اب بھی قائم ہوں لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ امریکی امداد قبول کرنے والے جہادی گروپ آج بھی امریکی کیمپ میں ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے افغان عوام کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے تکوینی طور پر طالبان کو آگے کر دیا ہے جنہوں نے امریکی امداد کی نحوست کو ایک طرف کر کے افغان عوام کے جذبات کی صحیح ترجمانی اور جہاد کے منطقی ثمرات کو صحیح رخ پر رکھنے کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ اور میرے نزدیک یہ بارگاہ ایزدی میں افغان عوام کے خلوص اور قربانیوں کی قبولیت کی دلیل ہے کہ جہاد افغانستان میں امریکی امداد کے منحوس اثرات بہت جلد ’’کھڈے لائن‘‘ لگ گئے ہیں۔
راجہ صاحب محترم کا ذہن اس بات کو بھی قبول نہیں کر رہا کہ صرف (ان کے بقول) دو ہزار چیچن مجاہدین نے روسی فوج کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ جنگ آزادی کیسے ہوگئی ہے اور اسے خودکشی سے کیوں تعبیر نہیں کیا جاتا؟ انہوں نے اس حوالہ سے یہ بھی سوال کیا ہے کہ آخر یہ کس کی سنت ہے؟ اس کے جواب میں اسلامی تاریخ کے سینکڑوں ایسے معرکوں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جن میں مٹھی بھر مسلمانوں نے دشمن کی افواج قاہرہ کا بے جگری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ان میں سے صرف ایک واقعہ کا تذکرہ سردست کر رہا ہوں۔
حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور خلافت میں رومۃ الکبریٰ کی عظیم سلطنت کی افواج کے مقابلہ میں ایک محاذ پر حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراحؒ اسلامی لشکر کی کمان کر رہے تھے، دشمن کی فوج کی تعداد تین لاکھ جبکہ مسلمانوں کی تعداد ۳۰ ہزار تھی۔ جب آمنا سامنا ہوا تو دشمن نے دو لاکھ چالیس ہزار فوج کو ریزرو میں ایک طرف رکھتے ہوئے ساٹھ ہزار فوج کو مسلمانوں کے سامنے کر دیا۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی تیس ہزار فوج کا مقابلہ اس ساٹھ ہزار کے لشکر سے ہوگا اور جب دونوں لشکر جنگ میں تھک ہار جائیں گے تو دو لاکھ چالیس ہزار کی تازہ دم ریزرو فوج اچانک حملہ کر کے مسلمانوں کا صفایا کر دے گی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے دشمن کی چال کو محسوس کرتے ہوئے ساتھیوں کے مشورہ سے فیصلہ کیا کہ ہمیں بھی تھوڑی سی فوج کو مقابلہ میں کھڑا کر کے باقی فوج کو ریزور میں رکھنا چاہیے تاکہ تازہ دم فوج کا مقابلہ تازہ دم فوج سے ہی ہو۔ یہ طے کر کے انہوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ مجھے اسلامی فوج میں سے اپنی مرضی کے صرف ساٹھ افراد منتخب کرنے کا اختیار دے دیجیے، میں ان ساٹھ نوجوانوں کے ساتھ ساٹھ ہزار کے اس لشکر سے خود ہی نمٹ لوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور خالد بن ولیدؓ نے صرف ساٹھ نوجوانوں کی کمان کرتے ہوئے ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل فوج کو میدان جنگ میں عبرتناک شکست سے دوچار کر دیا۔ یہ معرکہ اس قدر معروف ہے کہ اس پر عرب شعراء نے مجاہدین کی تعریف میں قصیدے لکھے جن میں سے ایک شعر اس وقت میرے ذہن میں آرہا ہے:
ومع ہذا تولوا مدبرینا
ترجمہ: ساٹھ مجاہدین نے ساٹھ ہزار کے لشکر کا مقابلہ کیا اور ساٹھ ہزار کا لشکر کثرت کے باوجود میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔
اس لیے راجہ انور صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اگر روسی وحشیوں کے خلاف بد دعا میں کوئی حرج محسوس نہ کرتے ہوں تو حضرت خالد بن ولیدؓ کی سنت زندہ کرنے والے چیچن مجاہدین کو خودکشی کا طعنہ دینے کی بجائے ان کی کامیابی کے لیے بارگاہ ایزدی میں دعا کریں۔