تلاوتِ قرآنِ کریم کے تقاضے

   
تاریخ: 
۹ اکتوبر ۲۰۱۱ء

(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ہفتہ وار درس قرآن کریم کی افتتاحی تقریب سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہمارے اس سال کے تعلیمی پروگرام میں ہفتہ وار درس قرآن کریم کا اہتمام بھی شامل ہے جو ہر اتوار کو نماز مغرب کے فوراً بعد ہوا کرے گا۔ کوشش کروں گا کہ میں خود اس کو جاری رکھوں، البتہ کسی وقت میری غیر حاضری ہوئی تو اکادمی کے کوئی سینئر استاذ درس دیں گے اور درس قرآن کریم کے اس سلسلہ کی پابندی کی کوشش کی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ آج تمہید اور آغاز کے طور پر چند گزارشات پیش کر رہا ہوں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کارِ خیر کو جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ قرآن کریم نے خود اپنے بارے میں متعدد ہدایات اور احکامات بیان فرمائے ہیں جن میں سے دو تین کا تذکرہ کرنا چاہوں گا، مثلاً:

  1. ایک جگہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’لایمسہ الا المطہرون‘‘ قرآن کریم کو پاک لوگ ہی ہاتھ لگاتے ہیں۔ اس سے فقہاء کرام نے یہ مسئلہ بیان فرمایا ہے کہ قرآن کریم کو طہارت کے بغیر ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے۔ طہارت کے دو درجے ہیں:
    • ایک یہ کہ جب انسان پر غسل واجب ہو، مرد ہو یا عورت، اگر اس پر غسل واجب ہو گیا ہے تو قرآن کریم کو ہاتھ سے چھونا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ اور فقہاء کرام نے اس حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے بھی منع کیا ہے۔ الّا یہ کہ کوئی جملہ دعا کے طور پر پڑھ لیا جائے مگر تلاوت کی غرض سے قرآن کریم کی کوئی آیت زبانی پڑھنا اس کیفیت میں جائز نہیں ہے جب تک کہ غسل کر کے طہارت حاصل نہ کر لی جائے۔
    • دوسرا درجہ یہ ہے کہ کسی شخص کا وضو نہ ہو، بے وضو شخص کے لیے قرآن کریم کی زبانی تلاوت تو جائز ہے وہ جتنی چاہے تلاوت کر سکتا ہے لیکن قرآن کریم کو ہاتھ لگانا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ قرآن کریم کو ہاتھ میں لینا ہو اور اسے پکڑ کر یا ہاتھ سے اس کے ورق الٹ کر تلاوت کرنی ہو تو اس کے لیے وضو ضروری ہے، اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے بے وضو حالت میں قرآن کریم کو پکڑنا یا ہاتھ لگانا ضروری ہو جائے تو کسی پاک کپڑے کے ساتھ اسے پکڑے مگر ننگے ہاتھوں سے قرآن کریم کو نہ چھوئے۔
  2. دوسرا مسئلہ قرآن کریم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’ورتل القرآن ترتیلا‘‘ قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر آرام سے پڑھا جائے۔ اس کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت اتنی تیزی سے نہ کی جائے کہ اس کے حروف کٹ جائیں، یا لفظوں کی ہیئت بدل جائے، یا تلفظ خراب ہو۔ مگر ہم عجمی لوگوں کے لیے، جن کی زبان عربی نہیں ہے، اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کریم کو صحیح تلفظ کے ساتھ اور صحیح لہجے میں پڑھا جائے۔ ظاہر بات ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت عربی زبان میں ہی ہو گی، دوسری زبانوں میں اس کی تعلیم تو ہو سکتی ہے اور اس کا ترجمہ اور اس کے احکام و مسائل کی تشریح ہو سکتی ہے، لیکن تلاوت کسی اور زبان میں جائز نہیں ہے۔ دنیا کے کسی علاقے یا کسی بھی قوم کا کوئی بھی مسلمان جب قرآن کریم کی تلاوت کرے گا تو اسے عربی زبان میں ہی کرنا ہو گی۔ تلاوت کا ثواب اور اس کی برکات عربی زبان میں تلاوت کرنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں جبکہ عجمی لوگ جن کی زبان عربی نہیں ہے اور وہ عربی زبان کا تلفظ اور لہجہ سیکھے بغیر عربی میں صحیح طریقے سے تلاوت نہیں کر سکتے۔ ہر زبان کے اپنے حروف ہوتے ہیں۔ ان حروف کے الگ الگ مخارج ہوتے ہیں، ہر زبان کا اپنا تلفظ اور لہجہ ہوتا ہے۔ حروف کی صحیح ادائیگی اور الفاظ کے صحیح تلفظ کے بغیر کسی بھی زبان کے کلام کو پڑھنا ممکن نہیں ہوتا اور اس کے بغیر پڑھنے سے بسا اوقات معنٰی، مفہوم اور مقصد سب کچھ بگڑ کر رہ جاتا ہے۔

    قرآن کریم کا معاملہ تو ان سب سے بالاتر ہے اس لیے کہ وہ اللہ رب العزت کا کلام ہے۔ بسا اوقات صرف تلفظ اور زیر زبر کے فرق سے معنٰی کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے اور بے پرواہی کے ساتھ ایسا کرنے سے ثواب ملنے کی بجائے گناہ ذمہ لگ جاتا ہے۔ مثلاً قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ ہے ’’انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ کی ہ پر زبر ہے اور العلماء کی ہمزہ پر ضمہ ہے، جس سے معنٰی یہ بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے علم والے بندے ہی صحیح معنوں میں ڈرتے ہیں۔ لیکن اگر اللہ کی ہ پر ضمہ پڑھ دیں اور العلماء کی ہمزہ پر فتحہ پڑھا جائے تو معنٰی بالکل الٹ ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) اپنے علم والے بندوں سے ڈرتا ہے۔

    اسی طرح ہم جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو السلام علیکم کہتے ہیں اور وعلیکم السلام کے ساتھ اس کا جواب دیتے ہیں۔ اس کا صحیح تلفظ ’’السلام علیکم‘‘ ہے مگر ہمارے ہاں اکثر جلدی سے جب سلام کہا جاتا ہے تو درمیان میں لام کا حرف کٹ جاتا ہے اور جملہ یوں بن جاتا ہے ’’سام علیکم‘‘۔ سام کا معنٰی عربی میں موت ہے۔ اگر ہم السلام علیکم کہیں تو اس کا معنٰی ہے تم پر سلامتی ہو اور جواب میں وعلیکم السلام کہا جائے تو اس کا مطلب ہے اور تم پر بھی سلامتی ہو۔ گویا دو مسلمان جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا دیتے ہیں مگر تیزی کے ساتھ سلام کی بجائے سام بول دیں تو اس کا مطلب بنتا ہے کہ تم پر موت آئے جواب میں دوسرا شخص کہتا ہے کہ تم پر بھی موت آئے۔ مدینہ منورہ کے یہودی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جان بوجھ کر شرارت سے یہ لفظ اس طرح کہا کرتے تھے ’’السام علیکم‘‘۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جس دور میں پردے کا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا جناب نبی کریمؐ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور کہا کہ ’’السام علیکم‘‘۔ حضورؐ نے جواب دیا ’’علیکم‘‘۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کو سخت غصہ آیا اور اس شخص سے کہا ’’علیک السام واللعنۃ‘‘ تم پر موت آئے اور تم پر لعنت ہو۔ وہ جب چلا گیا تو نبی کریمؐ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ تم اس قدر غصے میں کیوں آگئی تھیں؟ حضرت عائشہؓ نے کہا یا رسول اللہ! کیا آپ نے سنا نہیں کہ اس نے کیا لفظ کہا ہے؟ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ تم نے میرا جواب نہیں سنا، میں نے تو اسے جواب دے دیا تھا۔

    یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اگر جواب میں ’’وعلیکم‘‘ واؤ کے ساتھ کہا جائے تو معنٰی بنے گا کہ ’’اور تم پر بھی ہو‘‘، لیکن اگر واؤ کے بغیر ’’علیکم‘‘ کہا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ’’تم پر ہو‘‘ (مجھ پر نہیں)۔ تو ان مثالوں سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ کسی حرف کے کٹ جانے سے یا اس کا تلفظ صحیح نہ کرنے سے یا زیر زبر کا فرق ہو جانے سے معنٰی بالکل بدل جاتا ہے اور جملہ کا مفہوم الٹ ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کے لیے عربی حروف، الفاظ، تلفظ اور لہجے کو سیکھا جائے تاکہ ہم قرآن کریم کی تلاوت صحیح طور پر کر سکیں، ورنہ معنٰی کچھ کا کچھ ہو جائے گا جس سے نماز میں بھی فرق پڑتا ہے اور تلاوت بھی صحیح طریقہ سے نہیں ہوتی۔ تو دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کریم کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے ضروری ہے اور اسے باقاعدہ طور پر سیکھنے کی ضرورت ہے۔

  3. تیسرا مسئلہ قرآن کریم کے حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جب ابھی شراب حرام نہیں ہوئی تھی اور اکثر لوگ شراب پیتے تھے۔ شراب زیادہ پینے سے نشہ ہو جاتا ہے، نشے کی حالت میں انسان کو اپنی گفتگو اور الفاظ پر کنٹرول نہیں رہتا اور اسے کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے؟ ہمارے ہاں ایک لطیفہ عام طور پر مشہور ہے کہ کوئی شرابی آدھی رات کو نشے کی حالت میں لڑکھڑاتا ہوا اپنے گھر کے دروازے تک پہنچا تو اس سے دروازے کا تالا نہیں کھل رہا تھا، اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور وہ تالا کھولنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا، گلی سے گزرنے والے ایک شخص نے دیکھا تو اس کی مدد کرنے کے خیال سے کہا کہ چابی مجھے دو میں تالا کھول دیتا ہوں، اس نے جواب میں کہا کہ تالا تو میں خود ہی کھول لوں گا، تم ذرا اس دیوار کو پکڑ کر رکھو کیونکہ یہ ہل رہی ہے اور اس کی وجہ سے تالا نہیں کھل رہا۔ مطلب یہ ہے کہ نشے کی حالت میں آدمی کو اپنی گفتگو پر اور اپنی چال ڈھال پر کنٹرول نہیں رہتا۔

    بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک بزرگ صحابی نشے کی حالت میں نماز پڑھا رہے تھے، سورۃ الکافرون کی تلاوت نماز میں کی تو ’’لا اَعبد‘‘ کی بجائے ’’اَعبد‘‘ پڑھ گئے جس سے آیت کریمہ کا مفہوم ہی الٹ ہو گیا۔ اس پر قرآن کریم میں حکم اترا کہ اے ایمان والو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ، جب تک اس ذہنی کیفیت میں واپس نہ آجاؤ کہ جو کچھ تم پڑھ رہے ہو اس کا تمہیں خود بھی علم ہو۔ یہاں قرآن کریم کا جملہ یوں ہے کہ ’’حتٰی تعلموا ما تقولون‘‘ حتٰی کہ تمہیں علم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس حوالہ سے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نماز میں جو کچھ ہم پڑھتے ہیں اس کا ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں؟

    نماز اللہ تعالیٰ کے ساتھ مناجات کا نام ہے جس کا طریق کار متعین ہے اور اس کے آداب و شرائط طے شدہ ہیں۔ ہم وضو کر کے پاک جسم اور پاک کپڑوں کے ساتھ پاک جگہ پر قبلہ رخ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہوتے ہیں اور تکبیر تحریمہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر ساری دنیا کے ساتھ تعلقات کو منقطع کر کے تھوڑی دیر کے لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہم کھڑے، بیٹھے، سجدے میں پڑے، ہاتھ باندھ کر، ہاتھ چھوڑ کر اور مختلف کیفیات میں اپنے مالک اور رب سے باتیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہمیں علم ہوتا ہے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں؟ عجیب سا معاملہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ہم سے باتیں کرتے ہیں اور ہم اپنی زبان سے ان باتوں کو دہراتے ہیں، جبکہ نماز میں ہم خدا سے باتیں کرتے ہیں۔ لیکن ہم نہ اللہ کی باتیں سمجھتے ہیں اور نہ ہی اپنی باتیں ہماری سمجھ کے دائرے میں ہوتی ہیں، ہمیں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا فرما رہے ہیں اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ کیفیت قرآن کریم کے اس ارشاد سے مطابقت نہیں رکھتی کہ ’’حتٰی تعلموا ما تقولون‘‘ نماز اس حالت میں پڑھو کہ جو تم زبان سے کہہ رہے ہو اس کا تمہیں علم بھی ہو۔ کیونکہ قول زبان سے لفظ ادا کرنے کو کہتے ہیں جبکہ علم کا تعلق مفہوم اور معنٰی سے ہوتا ہے۔

یہ باتیں میں نے آج کی تمہیدی گفتگو میں اس لیے عرض کی ہیں کہ قرآن کریم کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا اور کم از کم نماز میں کی جانے والی تلاوت اور پڑھے جانے والے دیگر جملوں، دعاؤں اور اذکار کا ہمیں علم ہونا چاہیے اور ان کا مفہوم ہمارے ذہن میں موجود ہونا چاہیے۔ یہ ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے ضروری ہے اور باقاعدہ سیکھنے کے بغیر یہ دونوں چیزیں حاصل نہیں ہو سکتیں۔ میں درس کے شرکاء کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ یہ چیزیں سیکھنے کے لیے خود بھی وقت نکالیں اور اپنے دیگر دوستوں کو بھی تیار کریں اور اس کے لیے روزانہ دس پندرہ منٹ کا وقت فارغ کریں۔ الشریعہ اکادمی کے اساتذہ اس خدمت کے لیے حاضر ہیں آپ رابطہ کر کے جو وقت آپ کے پاس آپ کی سہولت کے مطابق فارغ ہو سکتا ہو ہم اس وقت میں آپ کی یہ خدمت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

2016ء سے
Flag Counter