جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے ،خواتین بھی ساتھ تھیں، رسول اللہؐ کے اونٹوں کے قافلہ کو رنجشہؓ نامی ایک نوجوان چلا رہے تھے اور حدی بھی پڑھ رہے تھے۔اونٹ حدی سن کر مست ہو جاتا ہے اور اپنی رفتار تیز کر لیتا ہے جس سے سفر جلدی اور آسانی سے کٹ جاتا ہے۔ اس لیے لمبے سفر میں حدی خواں ساتھ رکھے جاتے تھے جو مخصوص لے اور لہجے میں حدی پڑھتے۔ حدی اشعار کی طرز پر ہوتی جس کے ساتھ ترنم بھی شامل ہوتا تھا، یہ تر نم اور آواز کا زیرو بم اونٹ کو مست کر دیا کرتا تھا۔ یوں سمجھ لیجیے جیسے پنجابی میں ’’ماہیا‘‘ گایا جاتا ہے کم و بیش اسی طرز پر حدی ہوتی تھی۔ رنجشہؓ نے جب حدی کی آواز بلند کرنا شروع کی اور اس کے سوز اور لے میں اضافہ ہوا تو اونٹوں کی رفتار بھی تیز ہونے لگی۔یہ دیکھ کر جناب نبی اکرمؐ نے آواز دی کہ
’’اے رنجشہ!حدی کی آواز مدھم کرو تم اپنے ساتھ آبگینے لے کر چل رہے ہو۔‘‘
مقصد یہ تھا کہ تمہاے ساتھ اونٹوں پر عورتیں بھی سوار ہیں، اونٹ زیادہ تیز چلیں گے تو ان کی تکلیف ہوگی اس لیے حدی آہستہ پڑھو تاکہ اونٹوں کی رفتار مناسب رہے اور نازک اندام عورتوں کو سفر میں تکلیف نہ ہو۔جناب نبی اکرمؐ نے اس ارشاد گرامی میں عورتوں کو ’’آبگینوں ‘‘سے تعبیر کیا جو نرم و نازک اور صاف و شفاف ہوتے ہیں اور ہلکی سی ٹھوکر بھی برداشت نہیں کر سکتے۔
لیکن آج کل یہ ’’آبگینے‘‘ رسم و رواج اور خاندانی و علاقائی روایات کی بے رحم ٹھوکروں کی زد میں ہیں۔ مظفر گڑھ میں ایک حافظہ قرآن لڑکی کے ساتھ پنچایت کے فیصلے پر اجتماعی بدکاری کی خبروں کی سیاہی ابھی مدھم نہیں پڑی تھی کہ میانوالی میں قتل کے ایک مقدمے میں آٹھ لڑکیوں کو صلح کے معاوضہ میں شامل کرنے کی شرمناک کارروائی نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ یہ تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سربراہ جسٹس شیخ ریاض احمد کی جانب سے ان معاملات کا ازخود نوٹس لینے کا نتیجہ ہے کہ یہ دو واقعات منظر عام پر آئے اور قومی حلقوں میں بحث و مباحثہ کا عنوان بن گئے ہیں، ورنہ اس قسم کے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہتے ہیں۔علاقائی اور قبائلی روایات و رسوم کے سیاہ پردے کی پیچھے یہ ’’ آبگینے‘‘ ظلم و جبر کے پاؤں تلے کرچیوں میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں لڑکی کی پیدائش کو باعث عار سمجھا جاتا ہے اور کئی مائیں اس جرم میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں یا کم از کم طلاق کی مستحق قرار پاتی ہیں کہ ان کی کوکھ سے بیٹے کی بجائے بیٹی نے جنم لیا ہے۔ یہاں عورت کو وراثت کے جائز حق سے جان بوجھ کر محروم کر دیا جاتا ہے، باپ یا خاوند کی وراثت سے اپنا حق وصول کرنے والی خواتین خاندان میں ’’نکو ‘‘ بن کر رہ جاتی ہیں۔ بعض علاقوں میں وراثت اور جائیداد تک عورت کی رسائی کا امکان ختم کرنے کیلئے اسے شادی کے فطری اور جائز حق سے محروم رکھا جاتا ہے اور قرآن کریم کے ساتھ اس کی شادی کا شرمناک ناٹک رچایا جاتا ہے۔ یہاں قتل اور دیگر مقدمات میں صلح کی لیے عورت کو فدیہ اور تبادلہ کے مال کی حیثیت دی جاتی ہے اور معصوم لڑکیوں کو ان کے دادوں کی عمر کے لوگوں کی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ۔ یہاں عورت انتقام کا سب سے بڑا اور آسان نشانہ ہے جسے جھوٹی انا اور مصنوعی خاندانی وقار کی خاطر اجتماعی آبروریزی تک کا شکار بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ اس حوالے سے ہماری معاشرتی پستی کی انتہاء یہ ہے کہ ایک مرد دوسرے مرد پر غصہ اتارتے ہوئے گالی کیلئے بھی اس کی بجائے اس کی ماں، بہن یا بیٹی کا نام بے تکلف زبان پر لا کر نفسیاتی تسکین محسوس کرتا ہے۔
یہ سب اور اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ہمارے معاشرے کا حصہ ہے جس نے ہمارے ملک میں، ہمارے معاشرہ میں اور اسلام کا کلمہ پڑھنے والوں کے ماحول میں بعض علاقوں میں عورت کو پرانے دور کی بے زبان لونڈی بلکہ جانور سے بھی بد تر حیثیت دے رکھی ہے۔ اس پس منظر میں مظفر گڑھ اور میانوالی کی مظلوم خواتین اور معصوم بچیوں کی داد رسی اور انہیں علاقائی رواج اور قبائلی درندگی کا نشانہ بننے سے روکنے کیلئے چیف جسٹس جناب شیخ ریاض احمد کا اقدام لائق تحسین ہے اور وہ بلا شبہ اس پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہم ان کی خدمت میں یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان واقعان کا نوٹس لینا بہت اچھی بات ہے مگر سسٹم اور نظام کا نوٹس لینا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے جس کی وجہ سے علاقائی روایات اورقبائلی رواجوں کا یہ شرمناک سلسلہ اب تک ہمارے ملک میں چلا آرہا ہے۔
یہ برطانوی نو آبادیاتی دور کا تحفہ ہے کہ برٹش استعمار نے جنوبی ایشیا پر تسلط قائم کرنے کے بعد اپنی اقتدار قائم رکھنے کیلئے علاقائیت، قبائلی سسٹم اور جاگیر داری نظام کی حوصلہ افزائی کی۔ صدیوں کی محنت کے بعد سلطان اورنگزیب عالمگیر نے فتاویٰ عالمگیری کی صورت میں قانون کی یکسانیت کی طرف جو عملی پیش رفت کی تھی اس کی بساط لپیٹ کر رکھ دی اور ایک ایسا فریب کارانہ عدالتی نظام متعارف کرایا جہاں ایک طرف پیچیدہ اور سست رفتار برطانوی عدالتی نظام شہروں اور قصبات کی سطح پر رائج تھا تو دوسری طرف ریاستی قانونی نظاموں کا ایک جنگل تھا جو سینکڑوں مختلف عدالتی نظاموں کی صورت جنوبی ایشیا کو حصار میں لیے ہوئے تھا۔ تیسری طرف قبائل اور جاگیرداروں کی روایات اور رسم و رواج کے نام پر جبرو ظلم، وحشت و بربریت اور درندگی کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا۔ جس پر رسم و رواج اور روایات و اقدار کی مہر ثبت کر کے اسے قانونی جواز کی چھتری فراہم کر دی گئی تھی۔ ریاستی نوابوں، جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کا وجود نو آبادیاتی نظام کی ضرورت تھی اور ان کے ہاتھوں غریب عوام کے وحشیانہ استحصال پر خاموشی اختیار کرنا استعماری نظام کی مجبوری تھی، جس کی وجہ سے یہ روایات و اقدار اور رسوم و رواج مستحکم ہوتے چلے گئے اور ان کا سب سے زیادہ شکار عورت ذات بنی ہے۔
جب تک جاگیردارانہ نظام اس ملک سے مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا، نو آبادیاتی دور کی پیچیدہ اور تہہ در تہہ قانونی نظام کو ختم کر کے اسلام کا فطری اور سادہ نظام قانون یہاں رائج نہیں ہوتا، اور ملک سے اساسی نظریہ کی بنیاد پر ملک بھر کیلئے قانون کی یکسانیت کا اہتمام نہیں کیا جاتا، یہ ’’آبگینے‘‘ اسی طرح رسوم و رواج کی ٹھوکروں کا نشانہ بنتے رہیں گے اور عدالت عظمیٰ کے خود نوٹس لینے کے باوجود اس قسم کے شرمناک واقعات کے تسلسل میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ ناپاک کنویں سے پانی کے ڈول بھر بھر کر نکالنے سے پہلے کتے کی متعفن لاش کو کنویں سے نکالنا ہوگا جس نے سارے ماحول کو بدبودار بنا رکھا ہے، ورنہ صرف پانی کے ڈول نکالتے رہنے سے کنویں کی ناپاکی اور تعفن میں کسی قسم کی کمی کی توقع کرنا محض خود فریبی ہوگی۔