تبدیلی کا نعرہ اور دینی مدارس

   
تاریخ: 
۲۸ جنوری ۲۰۱۵ء

۲۸ جنوری کو اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں پاکستان تحریک انصاف کے ’’علماء و مشائخ ونگ‘‘ کے زیر اہتمام ایک کنونشن میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی کی ہدایت پر شرکت کا موقع ملا جس میں جناب عمران خان کے علاوہ مفتی محمد سعید خان، مفتی عبد القوی، سلطان احمد علی آف درگاہ سلطان باہوؒ ، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، اعجاز چودھری اور راقم الحروف نے خطاب کیا۔ اس موقع پر پیش کی گئی گزارشات درج ذیل ہیں۔

بعد الحمد والصلوٰۃ ! اعجاز چودھری صاحب نے اس کنونشن کا مقصد یہ بتایا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف علماء کرام سے راہ نمائی حاصل کرنا چاہتی ہے اس لیے سرکردہ علماء کرام کو اس اجتماع میں شرکت کی زحمت دی گئی ہے۔ چنانچہ ایک طالب علم کے طور پر میں بھی حاضر ہوا ہوں اور محترم عمران خان صاحب کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

جب ملک کے نظام میں تبدیلی کی کوئی بات ہوتی ہے تو سب سے زیادہ خوشی ہمیں ہوتی ہے، اس لیے کہ ہم نے بچپن میں ہی حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے اس فلسفہ کی تعلیم حاصل کی تھی ’’فک کل نظام‘‘ کہ پورے نظام کی تبدیلی کے بغیر بات نہیں بنے گی۔ خود میں نصف صدی سے نظام کی تبدیلی کی یہ بات پڑھتا اور پڑھاتا چلا آرہا ہوں، اس لیے نظام میں تبدیلی کی بات پر سب سے زیادہ خوشی مجھے ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ اب دو تحفظات شامل ہوگئے ہیں جن کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔

ایک یہ کہ تبدیلی کی بات تو بار بار ہوتی ہے لیکن تبدیلی آتی دکھائی نہیں دیتی۔ ملک کے نظام میں تبدیلی کا نعرہ ہم قیام پاکستان کے بعد سے اب تک مسلسل سن رہے ہیں، سنتے سنتے کان پک گئے ہیں، کوئی سیاسی تبدیلی کا نعرہ لگاتا ہے، کہیں سے معاشی تبدیلی کا نعرہ بلند ہوتا ہے، اور کسی طرف سے سماجی انقلاب کی نوید سنائی جاتی ہے۔ لیکن تبدیلی کی کوئی عملی بات ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی اور نہ ہی اس کے کوئی آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو بہتری کی بجائے بدتر صورت حال کی طرف ہم جا رہے ہیں۔ ریورس گیئر لگا ہوا ہے اور الٹی گنتی کا عمل جاری ہے۔ اس لیے اب تبدیلی کے کسی نعرہ پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا اور نہ ہی کوئی سنجیدگی دکھائی دیتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ تبدیلی کا نعرہ تو آپ نے بھی لگایا ہے مگر اس کا رخ واضح نہیں ہے۔ اور ہم آپ سے یہی سمجھنا چاہتے ہیں کہ تبدیلی کا رخ کیا ہے؟ نظام میں ایک تبدیلی وہ ہے جس کا وعدہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کیا تھا اور جو تبدیلی قوم چاہتی ہے۔ جبکہ تبدیلی کا دوسرا رخ اس کی مخالف سمت میں ہے اور یہ وہ تبدیلی ہے جو مغرب چاہتا ہے، یورپی یونین چاہتی ہے، امریکہ چاہتا ہے اور سیکولر لابیاں چاہتی ہیں۔ اس تبدیلی کے بیسیوں پہلو ہیں جن میں سے مثال کے طور پر میں دو کا تذکرہ کروں گا۔ ایک یہ کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ملک کے معاشی نظام کو مغرب کے معاشی فلسفہ پر نہیں بلکہ اسلام کے معاشی اصولوں پر استوار دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مغرب کے معاشی فلسفہ نے انسانی سوسائٹی کو تباہی سے دوچار کیا ہے۔ جبکہ ابھی حال میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں سروے کرایا ہے جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عوام کی اٹھانوے فی صد اکثریت ملک سے سودی نظام کا خاتمہ چاہتی ہے۔

نظام کی تبدیلی کا ایک رخ یہ ہے، جبکہ دوسرا رخ یہ ہے کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں نے ہمارے ملک پر پنجے گاڑھ رکھے ہیں۔ مغربی قوتیں سودی نظام کو ہم پر ہر قیمت پر مسلط رکھے ہوئے ہیں اور ہمارے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک چوس لینا چاہتی ہیں۔ اسی طرح خاندانی نظام کے حوالہ سے دیکھ لیجئے، مغرب کے دانش ور اپنی سوسائٹی میں فیملی سسٹم کی تباہی کا مسلسل رونا رو رہے ہیں اور خاندانی نظام کی بحالی کا راستہ تلاش کر رہے ہیں، لیکن جن اسباب و عوامل نے مغرب میں فیملی سسٹم کو تباہی سے دوچار کیا ہے اور خاندانی نظام کو بکھیر کر رکھ دیا ہے، مغرب اپنی قوت کے ساتھ وہی اسباب ہمارے معاشرہ میں ابھارنے کی کوشش کر رہا ہے، اور مغربی میڈیا، لابیاں اور سرمایہ دارانہ نظام خاندانی نظام کی تباہی کے اسباب کو ہماری سوسائٹی میں عام کرنے میں مسلسل مصروف ہے۔

ہم آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تبدیلی کے نعرے سے آپ کی مراد کیا ہے اور اس تبدیلی کی جدوجہد میں آپ کا رخ کس جانب ہے؟ اور یہ بات واضح الفاظ میں بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر نظام کی تبدیلی کا رخ اس جانب ہے جس کا قائد اعظمؒ نے ذکر کیا تھا اور جو آج بھی قوم کا واضح رخ ہے تو اس کے لیے ہماری جانیں بھی حاضر ہیں۔ لیکن اگر تبدیلی سے مراد وہ ہے جو یورپی یونین چاہتی ہے اور مغربی سیکولر لابیاں اور این جی اوز ہم پر مسلط کرنے کے درپے ہیں، تو اس کی راہ میں سب سے بڑی مزاحمت ہم خود ہیں۔ ہم اس میں مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں اور آئندہ بھی یہ مزاحمت جاری رہے گی۔

یہاں میرے بعض پیش رو مقررین نے دینی مدارس کا ذکر کیا ہے اور ان کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان میں اصلاح کی باتیں کی ہیں۔ میں اس سلسلہ میں تفصیل میں جانے کی بجائے صرف ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مدارس کے بارے میں جو سوالات آج پھر سے اٹھائے جا رہے ہیں، ان سب پر بار بار بات ہو چکی ہے، اور ماضی میں حکومتوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد معاہدات ہو چکے ہیں۔ ان میں کوئی مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس پر حکومت اور دینی مدارس کے وفاقوں کے درمیان اتفاق نہ ہو چکا ہو اور معاہدہ نہ طے پا چکا ہو۔ مثال کے طور پر ایک معاہدہ اکتوبر ۲۰۱۰ء کے دوران وزارت داخلہ اور دینی مدارس کے تمام وفاقوں کے درمیان ہوا تھا۔ ایک طرف وزیر داخلہ تھے جن کے ساتھ سیکرٹری داخلہ اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ تھے، جبکہ دوسری طرف تمام وفاقوں کے ذمہ دار قائدین تھے۔ دہشت گردی، نصاب تعلیم، فنڈز کی مانیٹرنگ، فرقہ وارانہ تعلیم اور نظام کی اصلاح سمیت تمام امور پر تفصیلی بات چیت کے بعد باقاعدہ معاہدہ طے پا گیا تھا۔ میں یہ معاہدہ آج کی اس محفل میں جناب عمران خان کے سپرد کر رہا ہوں اور یہ گزارش کر رہا ہوں کہ وہ اس بات کی انکوائری کرائیں کہ اس معاہدہ پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا اور عمل نہ کرنے کی ذمہ داری کس پر ہے؟

دینی مدارس کے ساتھ ایک عرصہ سے یہ آنکھ مچولی کھیلی جا رہی ہے کہ مسائل چھیڑے جاتے ہیں اور ملک بھر میں ان کی بنیاد پر مدارس کی کردار کشی کی مہم چلائی جاتی ہے۔ دینی مدارس کے وفاقوں کے ساتھ حکومتی مذاکرات ہوتے ہیں، معاہدات طے پاتے ہیں اور ان معاہدات کو داخل دفتر کر دیا جاتا ہے۔ پھر آٹھ دس سال کے بعد کسی نہ کسی بہانے انہی طے شدہ مسائل کو از سر نو ’’ری اوپن‘‘ کر کے پنڈورا باکس دوبارہ کھول دیا جاتا ہے۔ یہ دینی مدارس کے خلاف عالمی استعمار کی سازش کا تسلسل ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب یہ سارے مسائل طے ہو چکے ہیں اور ۲۰۱۰ء میں ان پر باقاعدہ معاہدہ ہو چکا ہے تو اس معاہدہ پر عمل درآمد کرنے کی بجائے انہی مسائل کو از سر نو کیوں چھیڑا جا رہا ہے اور پھر سے طوفان کیوں کھڑا کیا جا رہا ہے؟ میں اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف سے انصاف کا تقاضہ کر رہا ہوں۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے اکتوبر کے اس معاہدہ کا متن درج کیا جا رہا ہے، جس پر وفاقی وزیر داخلہ اور وفاقوں کا قائدین کے دستخط ہیں۔ لیکن اس کے مطابق نہ قانون سازی ہوئی ہے اور نہ ہی اس پر عملدرآمد پر حکومت کی طرف سے کوئی سنجیدگی دکھائی دے رہی ہے۔

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ عنوان: معاہدہ مابین حکومت پاکستان اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان۔

حکومت پاکستان چاہتی ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ کو تمام شعبہ ہائے حیات میں مناسب مواقع ملنے چاہئیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حکومت پاکستان اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے درمیان آج مورخہ ۷ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو حسب ذیل نکات پر اتفاق ہوا:

  1. اتحاد تنظیمات مدارس کی قیادت نے اس امر پر اتفاق کیا کہ میٹرک (مساوی ثانویہ عامہ) اور انٹرمیڈیٹ (مساوی ثانویہ خاصہ) کے نصاب میں لازمی عصری مضامین کو شامل کریں گے۔
  2. اتحاد تنظیمات مدارس میں شامل پانچوں بورڈ اپنا دینی نصاب طے کرنے میں آزاد اور خود مختار ہوں گے اور لازمی عصری مضامین حکومت پاکستان کے مجوزہ نصاب کے مطابق ہوں گے۔
  3. اتحاد تنظیمات مدارس کے پانچوں رکن بورڈز کو پاکستان میں قائم دیگر تعلیمی بورڈز کی طرح ایکٹ آف پارلیمنٹ / ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے باضابطہ قانونی حیثیت دی جائے گی۔
  4. پانچوں بورڈز کو حکومت کی جانب سے قانونی حیثیت ملنے کے بعد ان کا رابطہ وزارت تعلیم سے ہوگا۔
  5. عصری مضامین کی تعلیم اور امتحانات کے معیار میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے ہر بورڈ کی مجلس نصاب میں حکومت اپنے دو نمائندے نامزد کرے گی۔
  6. حکومت مدارس کے بارے میں کوئی بھی معلومات حاصل کرنے کے لیے ان پانچوں بورڈز سے رابطہ کرے گی۔ اگر حکومت کو کسی مدرسے کے خلاف شکایت ہو تو کسی بھی کاروائی سے پہلے متعلقہ بورڈ کی قیادت کو اعتماد میں لے گی۔
  7. کوئی مدرسہ ایسی تعلیم نہیں دے گا اور نہ ہی ایسا مواد شائع کرے گا جس سے عسکریت اور فرقہ واریت کو فروغ ملے۔ ہر مدرسہ آرڈیننس نمبر XIX مجریہ ۲۰۰۵ء ترمیم شدہ سوسائٹیز ایکٹ ۱۸۶۰ء کی پابندی کرے گا۔ لیکن اس ایکٹ کے تحت مختلف ادیان یا مسالک و مذاہب کی تقابلی تعلیم یا قرآن و سنت اور فقہ و اصول فقہ کے مضامین کی تدریس پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی۔
  8. معیار تعلیم، نصاب تعلیم اور معیار امتحان میں یکسانیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت پاکستان اور اتحاد تنظیمات مدارس کے مابین مشاورت اور اتفاق رائے سے ’’ادارہ‘‘ کا قیام عمل میں آئے گا جس کی ہیئت، دائرہ کار اور نام طے کرنے کا عمل آج سے تیس دن کے اندر مکمل کیا جائے گا (انشاء اللہ)۔
  9. پارلیمنٹ کے ایکٹ کا مسودہ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کی مشاورت اور اتفاق رائے سے طے پائے گا۔ اور اس میں کوئی بھی تبدیلی باہمی اتفاق رائے سے ہی کی جائے گی۔
  10. غیر ملکی طلبہ کی رجسٹریشن وزارت داخلہ کے ذریعے کی جائے گی۔

اس معاہدہ پر وفاقی وزیر داخلہ عبد الرحمن ملک، سیکرٹری داخلہ قمر زمان چودھری اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ شاہد حامد کے علاوہ مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا عبد المالک خان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر یاسین ظفر اور قاضی نیاز حسین نقوی کے دستخط ہیں۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۳۱ جنوری ۲۰۱۵ء)
2016ء سے
Flag Counter