دینی مدارس کے تحفظ کے لیے علماء کرام کا اہم فیصلہ (۲)

   
۱۴ فروری ۱۹۷۵ء

مولانا پیر کرم شاہ الازہر

مولانا پیر کرم شاہ الازہری نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تجربہ جو یہاں کیا جانے والا ہے، اس سے قبل تاشقند، بخارا، ماوراء النہر جیسے علمی مراکز میں کامیاب ہو چکا ہے، اور اس سلسلہ میں علماء کرام کو جس حریف سے پالا پڑا ہے وہ بہت شاطر ہے، اس لیے علماء کرام کو سوچ سمجھ کر مضبوط قدم اٹھانا چاہیے۔ آپ نے کہا، ہم نے مدارس اِن لوگوں کے لیے بنائے، اگر ہم نے مدارس اُن کے حوالے کر دیے تو جن لوگوں نے مدارس کے قیام میں ہماری امداد کی تھی ان کی روحیں تڑپ اٹھیں گی۔

میاں فضل حق

جمعیۃ اہل حدیث کے ممتاز رہنما اور جامعہ سلفیہ لائل پور کے صدر جناب میاں فضل حق صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ تحریکِ ختمِ نبوت کی طرح مدارسِ دینیہ کے تحفظ کے لیے بھی متحدہ اور ہمہ گیر جدوجہد ہونی چاہیے۔ حریف نے ہمارا ردعمل معلوم کرنے کے لیے ہمارے گھر میں پتھر پھینکا ہے، ہمیں بیداری اور اتحاد کا ثبوت دینا چاہیے تاکہ یہ ناپاک سازش ناکام ہو جائے۔

چوہدری نذیر احمد

چوہدری نذیر احمد مہتمم جامع العلوم ملتان نے کہا کہ یہ اقدام دینِ آزاد کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم نے پوری قوت کے ساتھ اس کی مزاحمت نہ کی تو پھر وقت ہاتھ میں نہیں آئے گا۔

جناب حکیم عبد الرحیم اشرف

جناب حکیم عبد الرحیم اشرف نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام دراصل حکمرانوں کے منصوبہ کی آخری اور فیصلہ کن کڑی ہے، اس سے پہلے وہ مزاروں اور مساجد کو تحویل میں لے چکے ہیں۔ اور فقہی مسائل مجروح ہوتے ہوئے بھی جب ان کی مزاحمت نہ ہوئی تو آخر میں انہوں نے مدارس کو بھی قومیانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس اقدام کے پیچھے چار مقاصد کارفرما نظر آتے ہیں:

(۱) عامۃ الناس کا یہ رجحان کہ ہمارے مصائب کی وجہ دین سے انحراف ہے۔ سوشلسٹ حکومت اس رجحان کو ختم کر کے مادہ پرستانہ رجحان پیدا کرنا چاہتی ہے۔

(۲) عوام عمل کے بارے میں کمزور ہونے کے باوجود دین کے نام پر بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ حکمران علماء کو کنٹرول میں لے کر عوام کے جذبۂ قربانی کو دین کے نام پر اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

(۳) موجودہ حکمران مختلف میدانوں میں ناکامیوں کے بعد کچھ کامیابیاں بھی قوم کو دکھانا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم مدارس کو تحویل میں لے کر یہ کہیں گے کہ علماء ان مدارس میں یہ خرابیاں کرتے تھے، ہم نے ان کو دور کر کے دینی تعلیم کی سرپرستی کی ہے۔

(۴) علماء کرام کے اثرات ختم کرنے کے لیے ان کے اڈوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے بعد ان کا مقصد وہ بدترین قسم کی آمریت مسلط کرنا ہے جو بخارا، سمرقند، تاشقند میں مسلط ہو چکی ہے۔

حضرت مولانا عبد الحق صاحب

ممبر قومی اسمبلی و مہتمم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نے ارشاد فرمایا کہ حکومت دوسرے شعبوں میں قومیانے کے عمل کے ذریعہ استحصال کر چکی ہے، اور دین کا استحصال کرنا چاہتی ہے اور دین کو لونڈی بنانا چاہتی ہے۔ حکومت بالکل اسی طرح مدارس ختم کرنا چاہتی ہے جس طرح انگریز نے کیا تھا۔ لیکن حضرۃ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھ کر مدارس کا تحفظ کیا۔ یہ دارالعلوم کی برکت ہے کہ انگریز کی طرف سے دینی تعلیم کو مٹانے کی تمام تر کوششوں اور عیسائی مشنریوں کی بے پناہ ناپاک مساعی کے باوجود دین زندہ ہے۔ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ جب تک یہ مدارس موجود ہیں ان کی شاطرانہ چالیں اور باطل کا غلبہ اس ملک میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ایوب خان نے ایک دور میں کہا تھا کہ ہم ایک دارالعلوم دیوبند کا واویلا کرتے تھے، مولویوں نے پاکستان کے گھر گھر میں دیوبند بنا دیا ہے۔

باہمی اتحاد کی ضرورت: آپ نے کہا ہمیں باہمی اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے اس مقدس مشن کی خاطر متحد ہو جانا چاہیے اور کسی بھی قسم کی لالچ اور انتشار کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

ہم حکومت کو امداد دیں گے: کچھ عرصہ قبل حکومت نے دارالعلوم حقانیہ کے سلسلہ میں ہمیں کہا کہ حکومت دارالعلوم دیوبند کی امداد کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم نے کہا ہمیں امداد کی ضرورت نہیں بلکہ اگر حکومت چاہے تو اس کی امداد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حکومت اپنے الگ مدارس قائم کر لے، جہاں تک ہم سے ہوا ہم اس کی امداد کریں گے، لیکن ہمیں اس کی امداد کی ضرورت نہیں۔

مولانا مفتی زین العابدین

مہتمم دارالعلوم لائل پور نے فرمایا کہ اللہ کی مدد دو باتوں پر آتی ہے:

(۱) انابت الی اللہ یعنی اپنی کوتاہیوں کے اعتراف کے ساتھ آئندہ ان کے ازالہ کا عزم کیا جائے اور نیتوں کو صاف کیا جائے۔

(۲) باہمی جوڑ یعنی آپس کے اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کر دیں اور یک جان ہو کر فتنہ کا مقابلہ کیا جائے۔

وفد کی تشکیل: میری رائے میں ایک مضبوط وفد تشکیل دیا جانا چاہیے جو مدارس کے سلسلہ میں حکمرانوں سے تفصیلی بات چیت کر کے انہیں اس کے مضمرات و مضرات سے آگاہ کرے اور اس وفد کی بات چیت کی روشنی میں آئندہ لائحۂ عمل طے کیا جائے۔

مولانا مفتی محمد حسین نعیمی

مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری غلطیاں ضرور ہیں لیکن یہ وقت ان میں الجھ جانے کا نہیں۔ مسئلہ فوری نوعیت کا ہے اس لیے ہمیں اس اقدام کا سدباب کرنے کے لیے کوئی معقول قدم اٹھانا چاہیے۔

قائدین کے خطابات کے بعد علامہ محمود احمد رضوی کی تجویز پر تینوں مکاتبِ فکر کے مندرجہ ذیل نمائندوں پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی گئی تاکہ متفقہ لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔

(۱) دیوبندی

مولانا محمد یوسف بنوری، کراچی۔ مولانا مفتی محمود، ملتان۔ مولانا عبد الحق، اکوڑہ خٹک۔ مولانا مفتی زین العابدین، لائل پور۔ مولانا نور محمد سجاول، سندھ۔

(۲) بریلوی

علامہ عبد المصطفٰی الازہری، کراچی۔ پیر کرم شاہ الازہری، بھیرہ۔ علامہ محمود احمد رضوی، لاہور۔ مفتی محمد حسین نعیمی، لاہور۔ مفتی عبد القیوم صاحب۔

(۳) اہل حدیث

مولانا حافظ عبد القادر روپڑی۔ مولانا معین الدین لکھوی۔ جناب میاں فضل حق۔ مولانا عطاء اللہ حنیف۔ مولانا محمد اسحاق چیمہ۔

عصر کے بعد کمیٹی نے بند کمرہ میں اجلاس کیا اور تفصیلی بحث و تمحیص کے بعد آئندہ کے لیے لائحہ عمل طے کیا گیا۔

فیصلوں کا اعلان

مغرب کی نماز کے بعد دوبارہ اجلاس عام منعقد ہوا جس میں علامہ محمود احمد رضوی نے کمیٹی کی تجاویز کا اعلان کیا جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں۔

الف: ان فیصلوں کے مطابق تمام مکاتب فکر کے مدارس کی مشترکہ تنظیم اتحاد المدارس العربیہ کے نام سے قائم کر دی گئی ہے جس کے صدر علامہ سید محمد یوسف بنوری اور ناظم اعلیٰ علامہ سید محمود احمد رضوی ہوں گے۔ اس تنظیم کے مقاصد درج ذیل ہیں:

(۱) دینی مدارس کے بقاء و استحکام کے لیے متحدہ کوشش کرنا۔

(۲) مدارس کو حکومت کی مداخلت اور استحصال سے محفوظ و مصئون رکھنا۔

(۳) مدارس کو دینی حیثیت سے مزید مفید بنانا

ب: یہ طے پایا کہ مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت نے قادیانیت کے بارے میں آئین کی ترمیم پر عملدرآمد کے سلسلہ میں وزیر اعظم بھٹو سے بات چیت کرنے کے لیے جو وفد تشکیل دیا ہے وہ دینی مدارس کے سلسلہ میں بھی وزیر اعظم اور دیگر متعلقہ حضرات سے بات چیت کرے گا۔ اس وفد کے ارکان درج ذیل ہیں:

مولانا مفتی محمود، ایم این اے۔ مولانا عبد المصطفٰی الازہری، ایم این اے۔ پروفیسر عبد الغفور، ایم این اے۔ چوہدری ظہور الٰہی، ایم این اے۔ حاجی مولانا بخش سرومرو، ایم این اے۔

ج: اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ دینی مدارس کو قومی تحویل میں لینے کے سلسلہ میں شائع ہونے والی خبر پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے مداخلت فی الدین قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ اسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اجلاس وثوق کے ساتھ یہ اظہار کرتا ہے کہ اس غیر جمہوری اور غیر اسلامی اقدام کا اصل محرک وہ سوشلسٹ طبقہ ہے جو دینی اقدار کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter