(جامع مسجد نور ملحقہ جامعہ نصرۃ العلوم، گھنٹہ گھر، گوجرانوالہ میں عید الفطر ۱۴۳۳ھ کے اجتماع سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ ۔ آج عید کا دن ہے جو رمضان المبارک میں روزے رکھنے اور دیگر عبارات کی توفیق ملنے پر شکرانے کا دن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رحمتوں اور برکتوں کا یہ مہینہ زندگی میں ایک بار پھر نصیب فرمایا ہے اور تھوڑی بہت عبادات کی توفیق بھی دی ہے جس پر ہم آج عید کا دن منا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ٹوٹی پھوٹی عبادات کو قبول فرمائیں اور صحت و عافیت اور توفیقِ عمل کے ساتھ زندگی میں ایسے رمضان اور عیدیں بار بار عطا فرمائیں، آمین یارب العالمین۔
دنیا کی ہر قوم میں عید کا کوئی نہ کوئی دن ہوتا ہے جس دن قوم اجتماعی طور پر خوشی کا اظہار کرتی ہے اور مختلف طریقوں سے لوگ خوشی مناتے ہیں۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے سال بھر میں دو عیدیں دی ہیں۔ ایک رمضان المبارک کی تکمیل کی خوشی میں عید الفطر، اور دوسری حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں عید الاضحیٰ۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو عیدوں کا اعلان فرمایا اور خود بھی یہ عیدیں منائیں، اس لیے اس دن کو خوشی کے دن کے طور پر منانا سنتِ نبویؐ ہے۔
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں مختلف اقوام کی بعض عیدوں کا ذکر ہے جن کی طرف آپ حضرات کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا نبی بنا کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف یہ دعوت او رمشن دے کر بھیجا کہ فرعون کو اللہ تعالیٰ کی توحید کا عقیدہ بتائیں، اور اس سے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کریں جو کئی سالوں سے فرعون اوراس کے خاندان کے غلام چلے آرہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ان پیغمبروں نے فرعون کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اطاعت کی دعوت دینے کے بعد عصا اور یدِ بیضاء کے دو معجزے اپنی صداقت کے اظہار کیلئے دکھائے تو فرعون نے اسے جادو قرار دیا اور حضرت موسیٰؑ کے مقابلہ میں جادو گر اکٹھے کر کے مقابلہ کی دعوت دی۔ قرآن کریم نے بتایا ہے کہ یہ مقابلہ ’’یوم الزینۃ‘‘ (طہ ۵۹) یعنی ان کی عید کے دن ہوا تھا۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ کو فرعون کے جادوگروں پر واضح فتح دی تھی جس کے نتیجے میں وہ جادو گر ایمان لے آئے تھے۔
اسی طرح قرآن کریم نے سورہ المائدہ میں ذکر کیا ہے کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ان کے حواریوں نے مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں کہ وہ ہم پر آسمان سے پکے پکاے کھانوں کا دسترخوان اتاریں۔ حضرت عیسیٰؑ نے پہلے تو ڈانٹا اور ’’قال اتقوا اللہ ان کنتم مؤمنین‘‘ (المائدہ ۱۱۲) کہا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ مگر پھر حواریوں کے اصرار پر اللہ تعالیٰ سے دعا کر دی کہ یا اللہ ! ان پر آسمان سے پکے پکائے کھانوں کا دستر خوان نازل فرما دے ،وہ ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے ’’عید ‘‘ کا دن ہو گا اور آپ کی قدرت کی نشانی ہو گا۔
روایات میں آتا ہے کہ یہ دستر خوان کئی روز تک اترتا رہا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یہ وعید تھی کہ اگر تم میں سے کسی نے اس کی ناشکری کی تو ’’فانی اعذبہ عذابًا لا اعذبہ احدًا من العالمین‘‘ (المائدہ ۱۱۵) میں اسے ایسی سزا دوں گا جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہوگی۔ مفسرین کرامؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کسی بھی نعمت کی نا شکری عذاب کا باعث ہوتی ہے، لیکن جو نعمت خود مانگ کر لی جائے اس کی ناشکری پر عذاب بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ان لوگوں پر پابندی تھی کہ دستر خوان پر خود کھا سکتے ہو لیکن ذخیرہ کر کے گھر نہیں لے جا سکتے، مگر انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی جس پر انہیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کر دیا گیا۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضورؐ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ دس محرم (عاشورا) کا روزہ رکھتے ہیں۔ ان سے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ اس روز بنی اسرائیل کو فرعون کے جبر اور غلامی سے نجات ملی تھی، فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہو گیا تھا اور بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰؑ کی قیادت میں آزادی حاصل کر لی تھی۔ آپؐ نے فرمایا نحن احق بموسیٰ منکم کہ موسٰی علیہ السلام کے ساتھ ہمارا تعلق اور حق تم سے زیادہ ہے، اس لیے ہم بھی اس دن روزہ رکھا کریں گے۔ چنانچہ نبی اکرمؐ عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ مفسرین کرامؒ فرماتے ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورا کا روزہ فرض تھا، بعد میں اس کی حیثیت نفلی روزے کی ہو گئی۔ جبکہ آخری سال جناب نبی اکرمؐ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ یہودیوں کے ساتھ عبادت میں فرق قائم رکھنے کے لیے وہ اگلے سال اس کے ساتھ ایک روزہ زائد رکھیں گے، مگر اگلے سال سے قبل آنحضرتؐ وفات پا گئے۔
بخاری شریف ہی کی روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ایک یہودی عالم نے کہا کہ قرآن کریم میں ایک آیت ایسی ہے اگر وہ ہم پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنا لیتے۔ وہ آیت کریمہ یہ ہے:
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینًا (المائدہ ۳)
’’آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے تین باتیں فرمائی ہیں:
- ایک یہ کہ میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے کہ جو وحی اور دین حضرت آدم علیہ السلام سے نازل ہونا شروع ہوا تھا وہ حضرت محمدؐ پر قرآن کریم کی صورت میں مکمل ہو گیا ہے اور اب کسی نئی وحی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
- دوسری بات یہ فرمائی کہ دین ہی اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے جو تمام ہو گیا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا تم پر احسان عظیم ہے کہ جناب رسول اللہؐ جیسی جامع شخصیت اور قرآن کریم جیسی مکمل کتاب تمہیں عطا فرمائی ہے۔
- اور تیسری بات یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اسی دین پر راضی ہے۔ سورہ آل عمران میں ارشاد ربانی ہے ’’ان الدین عند اللہ الاسلام‘‘ (اٰل عمران ۱۹) کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین یعنی انسانوں کے زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ صرف اسلام ہے۔ جبکہ ایک اور جگہ یہ بات یوں بیان فرمائی ہے کہ جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین یا ضابطۂ حیات تلاش کرے گا ’’فلن یقبل منہ‘‘ (اٰل عمران ۸۵) اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔
چنانچہ یہ تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کی آیت ہے جس کے بارے میں یہودی عالم نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ یہ اگر ہم پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اسے عید کا دن بنا لیتے۔ حضرت عمرؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہمارا وہ عید کا دن ہی تھا جس روز یہ آیت کریم نازل ہوئی تھی اور میں اس کا گواہ ہوں۔ وہ عرفہ کا دن تھا اور جمعہ کا دن بھی تھا۔ اس لیے جس روز یہ آیت کریمہ نازل ہوئی وہ ہمارے لیے دوہری عید کا دن تھا۔
عید کے حوالے سے قرآن و حدیث میں ان چند ایام کا ذکر ہے جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیے ہیں اور ہمارے لیے ان سب میں سبق موجود ہے۔
عید کا مفہوم اور مقصد کیا ہے؟ اس حوالے سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک ارشاد گرامی ہے کہ کل یوم لا یعصی اللہ فیہ عز وجل فھو لنا عید۔ ہروہ دن جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے بغیر گزر جائے وہ ہمارے لیے عید کا دن ہے۔ یعنی مسلمان کی اصل عید یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے اور اس کی رضا کا حقدار قرار پائے۔ ایک انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اسے ہدایت مل جائے اور وہ دوزخ سے بچ کر جنت میں چلا جائے، اور ایسا اللہ تعالیٰ کی رضا سے ہوگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہی مسلمان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ حتیٰ کہ جنت میں داخل ہونے والوں کو بھی ساری نعمتیں مل جانے کے بعد جو سب سے بڑی اور آخری نعمت ملے گی وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہو گی جسے ’’ورضوان من اللہ اکبر‘‘ (التوبہ ۷۲) کہا گیا ہے۔ اس لیے حضرت علیؓ عید کا مفہوم و مقصد یہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے انسان محفوظ رہے اور اس کی رضا کا مستحق ٹھہرے۔
میں اس بارے میں ایک بات علامہ اقبالؒ کے حوالے سے بھی کرنا چاہوں گا، اس لیے کہ امیر شریعت حضرت سید عطا ء اللہ شاہ بخاریؒ کا ایک عجیب ارشاد میں نے کسی جگہ پڑھا ہے، وہ فرماتے تھے کہ نئی نسل کے نوجوانوں کوقرآن کریم کا مطالعہ کرنا چاہیے، اگر وہ سید احمد شہیدؒ کی طرح نہیں پڑھ سکتے تو کم از کم علامہ اقبالؒ کی طرح ہی پڑھ لیں۔ اور علامہ اقبالؒ نے عید کے بار ے میں کہا ہے کہ ؎
کہ آزاد قوموں کی عید تب ہوتی ہے جب ملک با وقار ہو اور دین سر بلند ہو۔ آج ہمارا دین کے ساتھ کیا معاملہ ہے اور ہمارے ملک کی کیا حالت ہے؟ ہماری اصل عید تو اس دن ہوگی جب ملک کو حقیقی آزادی حاصل ہوگی، قوم خود مختار ہوگی ، دین سر بلند ہوگا، اور ہم اپنے دین کے نفاذ اور سر بلندی کے لیے سرگرمِ عمل ہوں گے۔ اس لیے کہ غلاموں اور مجبوروں کی عید بھی کیا عید ہوتی ہے؟
آئیے مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی عید نصیب فرمائیں، ملکی آزادی، قومی خود مختاری اور دین کی سر بلندی کی منزل سے ہمکنار کریں۔ اور ہماری رمضان المبارک کی عبادات کو قبول فرماتے ہوئے آئندہ بھی خلوص اور ذوق کے ساتھ عبادت کی توفیق دیتے رہیں، آمین یا رب العالمین۔