مخلوط اور جداگانہ طرزِ انتخاب کی بحث اور ایک حل

   
۳۱ مارچ ۲۰۰۰ء

چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اگلے سال اگست تک ضلعی حکومتیں قائم کرنے اور اس سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے اور یونین کونسل، تحصیل کونسل اور ڈسٹرکٹ اسمبلی کے الیکشن کی تفصیل جاری کی ہے۔ اس موقع پر چیف ایگزیکٹو نے کہا ہے کہ وہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ملک میں جداگانہ الیکشن کے طریقِ انتخاب کو جاری رکھا جائے، یا مخلوط طرزِ انتخاب کو اپنایا جائے، اور وہ اس کے مختلف پہلوؤں کا ابھی جائزہ لے رہے ہیں۔

ملک میں اس وقت جداگانہ طرزِ انتخاب رائج ہے، جس کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی نشستیں آبادی کے تناسب کی بنیاد پر الگ الگ ہیں، اور غیر مسلم اقلیتیں اس کے مطابق اپنے نمائندوں کا خود انتخاب کرتی ہیں، جبکہ

  • قادیانیوں نے اس طرزِ انتخاب کا بائیکاٹ کر رکھا ہے کیونکہ ان کا موقف یہ ہے کہ انہیں دستوری طور پر غیر مسلم قرار دینے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا وہ ان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے، اس لیے وہ نہ تو ووٹروں کی فہرستوں میں بطور غیر مسلم ووٹر اپنا نام درج کراتے ہیں، اور نہ ہی بطور قادیانی جماعت جداگانہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کوئی قادیانی اپنے طور پر الیکشن لڑ کر اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے تو قادیانی جماعت اس سے لاتعلقی کا اعلان کر دیتی ہے۔
  • جداگانہ الیکشن کے اس طریقہ کار کے خلاف قادیانیوں کے علاوہ انسانی حقوق کے ادارے اور بین الاقوامی سیکولر لابیاں بھی ایک عرصہ سے متحرک ہیں۔ اور ان کی دلچسپی اس وجہ سے ہے کہ جداگانہ طرز انتخاب کی وجہ سے پاکستان کا اسلامی تشخص ابھرتا ہے اور انتخابات میں مذہبی بنیاد پر امتیاز قائم ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی طرف سے یہ مطالبات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں جداگانہ طرز انتخاب ختم کر کے مخلوط طریق انتخاب رائج کیا جائے، جس میں کسی مذہبی فرق اور تشخص کے بغیر مسلمان اور غیر مسلم امیدوار اکٹھے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور ووٹر کسی تفریق کے بغیر کسی بھی امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں۔
  • قادیانیوں اور انسانی حقوق کی ان لابیوں کے علاوہ متعدد مسیحی تنظیمیں بھی جداگانہ طرز انتخاب کے خلاف ایک عرصہ سے آوازیں اٹھا رہی ہیں، اور یہی مطالبہ کر رہی ہیں کہ ملک میں مخلوط طرز انتخاب کے تحت مشترکہ طور پر الیکشن کرائے جائیں۔

اس ضمن میں گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حکومتِ پاکستان سے سفارش کی ہے اور جداگانہ طرز انتخاب میں الگ الگ فہرستیں بنانے اور نتائج مرتب کرنے میں درپیش عملی مشکلات کا حوالہ دے کر مخلوط طرز انتخاب کو اختیار کرنے کی تجویز پیش کی ہے، جس پر خود مسیحی تنظیمیں انتشار کا شکار ہو گئی ہیں، چنانچہ

  • قومی پریس کے مطابق بشپ آف پاکستان اور سابق ایم این اے ڈاکٹر روفن جولیس نے الیکشن کمیشن کی اس سفارش کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ مخلوط طرز انتخاب میں اقلیتوں کی نمائندگی عملاً ختم ہو کر رہ جائے گی، اس لیے جداگانہ طرز انتخاب ختم نہ کیا جائے۔ اسی طرح پاکستان کرسچین لیگ کے رہنماؤں ڈاکٹر ڈیوڈ جان اور کیپٹن مائیکل جیمز نے بھی الیکشن کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر مخلوط طرز انتخاب کو اختیار کیا گیا تو مسیحی اقلیت الیکشن کا بائیکاٹ کر دے گی۔
  • جبکہ دوسری طرف پاکستان میں پوپ جان پال کے خصوصی نمائندہ فادر جیمز چنن نے کہا ہے کہ ہم جداگانہ طرز انتخاب کے حق میں نہیں ہیں۔ اور اسی طرح اقلیتی مشاورتی کونسل کے رہنما بریگیڈیئر (ر) یعقوب ڈوگر اور راجہ نتھانیل گل نے مخلوط طرز انتخاب کی حمایت کی ہے، اور حکومت سے جداگانہ طرز انتخاب ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

جداگانہ اور مخلوط طرز انتخاب کی یہ بحث بہت پرانی ہے اور ایک عرصہ سے یہ کشمکش مسلسل چلی آ رہی ہے، مگر اس کے حوالے سے ایک اور نقطۂ نظر بھی سامنے آتا ہے جو ملک کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا قاضی عبدالکریم آف کلاچی کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے، اور انہیں دیگر سنجیدہ اہلِ علم کی حمایت بھی حاصل ہے۔ حضرت قاضی کا کہنا ہے کہ اسلامی نظام کے تحت منتخب ہونے والی مسلمانوں کی اسمبلی میں سرے سے غیر مسلموں کے ممبر ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے، اس لیے ان کا مطالبہ ہے کہ اسمبلیوں کو غیر مسلموں کے وجود سے پاک کیا جائے۔ ان کے اس اصولی موقف کے حق میں دو باتیں کہی جا رہی ہیں:

  1. ایک یہ کہ ان اسمبلیوں نے مسلمانوں کے لیے اسلامی نظام نافذ کرنا ہے اور اسلامی قوانین و احکام کو قانونی شکل دینی ہے، اس لیے اس عمل میں غیر مسلموں کی شرکت جائز نہیں ہے۔
  2. اور دوسری بات یہ کہ یہ غیر مسلموں کو بھی ان کے عقیدہ اور مذہب کے خلاف قانون سازی پر مجبور کرنے کے مترادف ہے، جو ان کے عقیدہ و مذہب کے تحفظ اور آزادی کے منافی ہے اور سراسر زیادتی ہے۔

اس لیے ان کے نزدیک اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سرے سے غیر مسلموں کی نشستیں ختم کر دی جائیں۔ اور اگر جمہوری عمل میں ان کی شرکت ضروری ہو تو اس کے لیے کوئی ایسا متبادل انتظام کر لیا جائے کہ وہ اپنے معاملات نمٹانے کی حد تک تو اپنے نمائندہ منتخب کر سکیں، تاکہ ان کے معاملات ان کے مشورہ سے طے ہوں مگر اسلامی قانون سازی کے عمل میں ان کی کسی طرح شرکت نہ ہو۔

ہم چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف اور ان کے رفقاء سے عرض کریں گے کہ وہ جب اس مسئلہ کا جائزہ لے رہے ہیں اور ابھی تک کسی فیصلہ تک نہیں پہنچ پائے تو اس حوالہ سے غور طلب پہلوؤں میں اس موقف کو بھی شامل کر لیں اور اس کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لے لیں۔ بلکہ اس تجویز کے محرک مولانا قاضی عبدالکریم آف کلاچی اور ان کے رفقاء سے متعلقہ حکام تبادلۂ خیال بھی کر لیں تاکہ کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے سے پہلے اس مسئلہ کے تمام پہلو ان کے پیش نظر ہوں اور وہ قوم و ملک کے مفاد میں کوئی بہتر فیصلہ کر سکیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter