امام ابو جعفر طحاویؒ نے ’’شرح مشکل الآثار‘‘ میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک صاحب نے کہا ’’من اطاع اللہ ورسولہ فقد رشد و من عصاھما‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے بات موقوف کر دی اور جملہ مکمل نہیں کیا۔ اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ فرما کر ڈانٹ دیا کہ ’’بئس الخطیب انت، قم‘‘ تم برے خطیب ہو، اٹھ جاؤ۔
اس پر امام طحاویؒ نے لکھا ہے کہ ادھوری بات نہیں کہنی چاہیے کیونکہ مطلب بدل جاتا ہے۔ اب یہاں اگر ’’ومن عصاھما فقد رشد‘‘ کہہ کر جملہ مکمل نہیں کیا تو آخری جملہ پہلے کے ساتھ شمار ہو گا اور معنی یہ بنے گا کہ جس نے اللہ اور رسول اکرمؐ کی نافرمانی کی تو وہ بھی ’’فقد رشد‘‘ کے زمرہ میں شمال ہو جائے گا، یعنی جس نے فرمانبرداری کی وہ ہدایت پا گیا اور جس نے نافرمانی کی وہ بھی (نعوذ باللہ) ہدایت پر ہے۔
اس حوالے سے ایک بات میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں بعض دانشوروں اور مفکرین کی یہ عادت بن گئی ہے کہ وہ بات مکمل نہیں کرتے، ادھوری اور صرف اپنے مطلب کی بات کر دیتے ہیں جس سے کنفیوژن پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب ان سے وضاحت کا کہا جاتا ہے تو وہ کسی اور تحریر کا حوالہ دے دیتے ہیں کہ باقی بات وہاں دیکھ لیں۔ کسی مسئلہ پر مکمل بات نہ کرنا اور صرف اپنے مطلب کا پہلو ذکر کر کے آگے بڑھ جانا الجھن اور کنفیوژن کا باعث بنتا ہے، تقریر اور تحریر دونوں میں اس سے گریز کرنا چاہیے اور جو مسئلہ بھی بیان کیا جا رہا ہو اس کے ضروری پہلو سامنے رکھ کر بات کرنی چاہیے، یہی بات ہمارے درس و تدریس میں ’’دفع دخل مقدر‘‘ کہلاتی ہے۔