طالبان اور شمالی اتحاد میں مفاہمت

   
اپریل ۱۹۹۹ء

گزشتہ ہفتے ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں افغانستان کی طالبان حکومت اور ان کے مخالف شمالی اتحاد کے درمیان مذاکرات کے پہلے دور کے بعد دونوں فریقوں کی طرف سے اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان میں قومی حکومت کے قیام پر اتفاق ہو گیا ہے، اور طالبان کی حکومت نے شمالی اتحاد کو حکومت کے علاوہ مقننہ اور عدلیہ میں نمائندگی دینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ جبکہ عید الاضحٰی کے بعد مذاکرات کے دوسرے دور میں مستقل جنگ بندی اور دیگر امور طے کر لیے جائیں گے۔

طالبان کی اسلامی حکومت پر ایک عرصہ سے بین الاقوامی دباؤ تھا کہ وہ اقتدار کو بلاشرکتِ غیرے اپنے پاس رکھنے کی بجائے ’’وسیع البنیاد‘‘ حکومت قائم کرے جس میں افغانستان کے تمام نسلی گروہوں کو نمائندگی دی جائے۔ جبکہ طالبان کا موقف یہ تھا کہ چونکہ انہوں نے افغانستان میں خانہ جنگی پر قابو پا کر امن قائم کیا ہے، ملک کے بہت بڑے حصے میں ان کا کنٹرول ہے، اور دارالحکومت کابل بھی ان کے پاس ہے، اس لیے دنیا کے مسلّمہ اصولوں کے مطابق انہیں افغانستان کی جائز حکومت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ مگر اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں اور مغربی حکومتوں کے ساتھ ساتھ کم و بیش سب مسلم حکومتوں نے بھی طالبان کے اس جائز اور اصولی موقف کی حمایت کرنے کی بجائے بین الاقوامی دباؤ کا ساتھ دینے میں عافیت سمجھی، جس کے نتیجہ میں اشک آباد کے یہ مذاکرات اور ان کا مذکورہ نتیجہ سامنے آیا ہے۔

ہمارے نزدیک مغربی حکومتوں کا اصل مقصد یہ ہے کہ کابل کا اقتدار صرف طالبان کے پاس نہ ہو بلکہ مختلف نسلی گروہوں کے نام سے ایسے حضرات کو بھی حکومت کا حصہ دار بنا دیا جائے جو افغانستان کو خالص اسلامی اور ’’مولویانہ‘‘ ریاست بننے سے روک سکیں۔ اور بظاہر لگتا ہے کہ اس مقصد میں عملی پیشرفت ہو رہی ہے، کیونکہ شمالی اتحاد میں جہاں چند جہادی گروپ شامل ہیں وہاں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو جہادِ افغانستان کے دوران مجاہدین کے خلاف روسی افواج کے شانہ بشانہ صف آرا رہے ہیں، اس لیے ان کی شمولیت کے ساتھ قومی حکومت کا جو نقشہ سامنے آئے گا وہ مذکورہ خدشات اور خطرات سے خالی نہیں ہو گا۔

تاہم شمال کی جنگ کے خاتمہ اور مستقل جنگ بندی سے طالبان کی حکومت کو افغانستان کی تعمیرِ نو کی طرف زیادہ توجہ دینے کا موقع ملے گا اور وہ اپنے مسائل کو مزید دل جمعی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کر سکیں گے۔ البتہ ان کا محاذِ جنگ عسکری میدانوں سے مذاکرات کی میز کی طرف منتقل ہو جائے گا اور افغانستان کو ایک خالص اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کے لیے اب انہیں ٹیبل ٹاک اور ڈپلومیسی کی جنگ لڑنا پڑے گی۔ جس میں ان کا سامنا اگرچہ ہوشیار اور تجربہ کار راہنماؤں سے ہے مگر طالبان کے خلوص، دینداری اور اسلام کے ساتھ ان کی محبت کے باعث ہمیں امید ہے کہ انہیں اس محاذ پر بھی پسپائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، اور ہم اس نئی آزمائش پر ان کی ثابت قدمی اور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter