قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب

قیام پاکستان کے وقت پنجاب کی سرحدی تقسیم کے موقع پر ضلع گورداس پور میں قادیانی حضرات نے اپنی آبادی کو خود ہی مسلمانوں سے الگ شمار کروایا تھا اس لیے انہیں اس بات پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی آبادی کو الگ طور پر شمار کیا جائے۔ جبکہ یہ بات دستور پاکستان کے مطابق ان کے حقوق اور معاشرتی حیثیت کے صحیح طے ہونے کا ذریعہ بھی ہے۔ ہمیں قادیانیوں کے سیاسی، شہری، انسانی، اور معاشرتی حقوق سے کوئی انکار نہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور کو تسلیم کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ ستمبر ۲۰۱۶ء

دستور سے مسلسل انحراف کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا؟

1974ء کی منتخب پارلیمنٹ کے سامنے یہ مسئلہ ’’استفتاء‘‘ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا تھا کہ وہ یہ فیصلہ دے کہ قادیانی مسلمان ہیں یا کافر؟ بلکہ اسمبلی کے سامنے ’’دستوری بل‘‘ رکھا گیا تھا کہ قادیانیوں کو پوری ملت اسلامیہ غیر مسلم قرار دے چکی ہے اس لیے پارلیمنٹ بھی دستور و قانون کے دائرے میں اس فیصلہ کو تسلیم کرے اور اس کے مطابق قادیانیوں کو ملک میں مسلمانوں کے ساتھ شامل رکھنے کی بجائے غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ شمار کرے۔ یہ استفتاء نہیں تھا بلکہ قادیانیوں کے معاشرتی اسٹیٹس کو مسلمانوں سے الگ کرنے کا دستوری بل تھا اور پارلیمنٹ نے یہی فیصلہ کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ ستمبر ۲۰۱۶ء

امامِ اہلِ سنتؒ کی تحریکی و جماعتی زندگی

حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی تحریکی زندگی کا آغاز طالب علمی کے دور میں ہی ہوگیا تھا کہ وہ دور طالب علمی میں سالہا سال تک مجلس احرار اسلام کے رضاکار رہے اور تحریک آزادی میں اس پلیٹ فارم سے حصہ لیتے رہے۔ ان کی اس دور کی دو یادگاریں ہمارے گھر میں ایک عرصہ تک موجود رہی ہیں، ایک لوہے کا سرخ ٹوپ جو وہ پریڈ کے وقت پہنا کرتے تھے اور دوسری کلہاڑی۔ لوہے کا سرخ ٹوپ تو اب موجود نہیں ہے لیکن ان کی کلہاڑی اب بھی موجود ہے اور ان کے احراری ہونے کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ اسی دوران وہ جمعیۃ علماء ہند کے کارکن بھی رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جون ۲۰۰۹ء

مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ

مولانا قاری سعید الرحمٰن کو بھی اللہ تعالیٰ نے علمی، مسلکی اور تحریکی ذوق سے بہرہ ور فرمایا تھا اور راولپنڈی صدر میں کشمیر روڈ پر ان کے قائم کردہ تعلیمی ادارہ جامعہ اسلامیہ کو ان حوالوں سے مرکزیت کا مقام حاصل تھا۔ ایک دور میں شیخ الحدیثؒ حضرت مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک راولپنڈی تشریف لانے پر ان کے ہاں قیام کیا کرتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ کو مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی فرودگاہ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا بلکہ حضرت بنوریؒ کی وفات راولپنڈی میں ہوئی تو ان کی پہلی نماز جنازہ جامعہ اسلامیہ میں ہی ادا کی گئی جس میں شرکت کی مجھے بھی سعادت حاصل ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء

مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی

مولانا سید امیر حسینؒ گیلانی اس وقت پاکستان میں موجود چند گنے چنے فضلائے دیوبند میں سے تھے اور ان کے ساتھ جماعتی زندگی میں میرا طویل رفاقت کا دور گزرا ہے۔ ان کا تعلق مہاجرین کشمیر سے تھا اور ان کے خاندان کے بہت سے افراد گوجرانوالہ میں رہتے تھے اس لیے ان کا گوجرانوالہ اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ انہوں نے جماعتی اور تحریکی زندگی کا آغاز 1953ء کی تحریک ختم نبوت سے کیا اور وہ ملاقاتوں میں اس دور کے حالات اور اپنی سرگرمیاں بتایا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ اپریل ۲۰۰۹ء

علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ

17 اگست کو صبح ڈیٹرائٹ کی مسجد بلال میں فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد واشنگٹن واپسی کے لیے ایئرپورٹ جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ مولانا قاری محمد الیاس نے اطلاع دی کہ علامہ علی شیر حیدریؒ کو شہید کر دیا گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ مسجد میں آنے سے پہلے انٹرنیٹ پر جنگ اخبار دیکھ کر آئے تھے جس کی اس دن پہلی خبر یہی تھی۔ واشنگٹن پہنچ کر انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی تفصیلات معلوم کیں، بے حد صدمہ ہوا۔ وہ تحفظ ناموس صحابہؓ اور اہل سنت کے عقائد و حقوق کے دفاع کے محاذ کے ایک اہم راہنما تھے جن کی پوری زندگی اسی مشن میں گزری ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اگست ۲۰۰۹ء

مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ

ہمیں خاندانی طور پر گزشتہ ہفتے کے دوران ایک بڑے صدمہ سے دوچار ہونا پڑا کہ میرے بہنوئی مولانا قاری خبیب احمد عمر کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ہمارے بزرگ اور مخدوم حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کے فرزند تھے اور حضرت کی وفات کے بعد گزشتہ گیارہ برس سے جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے مہتمم اور جامع مسجد گنبد والی کے خطیب کی حیثیت سے ان کی جانشینی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ میری چھوٹی بہن ان کی اہلیہ ہیں جو جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام للبنات جہلم میں گزشتہ ربع صدی سے تدریس کی خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ مارچ ۲۰۰۹ء

مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت

میں ابھی تک اس گومگو کی کیفیت میں ہوں کہ مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ کے حوالے سے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کس کا ذکر پہلے کروں۔ اول الذکر پاک فوج کے جیٹ طیاروں کی بمباری سے شہید ہوئے ہیں اور ثانی الذکر کو ایک خودکش بمبار نے ان کی قیمتی جان سے محروم کر دیا ہے۔ دونوں کا تعلق دینی مدارس سے تھا اور دونوں دینی تعلیم کے ذریعہ ملک و ملت کی خدمت کر رہے تھے۔ مولانا محمد امین اورکزئی ہنگو میں جامعہ یوسفیہ کے استاذ تھے جبکہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی لاہور میں جامعہ نعیمیہ کے مہتمم تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جون ۲۰۰۹ء

حضرت ابراہیمؑ اور مذاہب عالم

حضرت ابراہیمؑ کا بنیادی پیغام توحید ہی ہے لیکن ان کا یہ امتیاز بھی ہے کہ ان کی توحید صرف فکری اور قولی نہیں بلکہ عملی اور فعلی بھی تھی۔ اس لیے کہ انہوں نے بت پرستی کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ کھلم کھلا پوری قوم کو بت پرستی ترک کر کے ایک اللہ کی بندگی کرنے کی تلقین کی اور بت پرستی کے خلاف عملی کاروائی بھی کی۔ اور جہاں حضرت ابراہیمؑ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تمام آسمانی مذاہب ان کی طرف اپنی نسبت کرنے پر فخر کرتے ہیں وہاں یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی ذات گرامی اور شخصیت کو اسلام کا راستہ روکنے کے لیے بطور شیلٹر بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ دسمبر ۲۰۰۸ء

مولانا طارق جمیل کے مدرسے کا دورہ

مولانا طارق جمیل کو گزشتہ روز ایک نئے روپ میں دیکھا تو دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس مشن اور پروگرام میں کامیابی اور ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین۔ مولانا موصوف کا تعلق تلمبہ خانیوال کے ایک کھاتے پیتے زمیندار گھرانے سے ہے۔ تبلیغی جماعت سے تعلق قائم ہوا تو اس میں اس رفتار سے آگے بڑھے کہ اسی کے ہو کر رہ گئے۔ مولانا دعوت و تبلیغ کے عمل سے وابستہ ہوئے تو تنہا تھے کہ خاندان میں کوئی اس کار خیر پر شاباش دینے والا نہیں تھا لیکن یہ ان کی استقامت اور جہد مسلسل کا ثمر ہے کہ اب پورا خاندان بلکہ پورا علاقہ اس نیک عمل میں ان کا دست و بازو ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ جون ۲۰۰۳ء

Pages

2016ء سے
Flag Counter