چار دسمبر جمعرات کو ”نور علی نور اکیڈمی“ فیصل آباد میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پیغامِ توحید کے عنوان سے سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ یہ اکیڈمی مولانا عبد الرشید انصاری نے قائم کر رکھی ہے اور اس کے ذریعہ وہ فیصل آباد کے علماء کرام اور دینی کارکنوں میں فکری اور تحریکی ذوق بیدار کرتے رہتے ہیں۔ مولانا عبد الرشید انصاری ہمارے پرانے ساتھیوں میں سے ہیں اور مولانا عبید اللہ انورؒ اور مولانا مفتی محمودؒ کے دور میں ہفت روزہ ”خدام الدین“ لاہور کے مدیر رہے ہیں ۔ تیھکی رپورٹنگ، چبھتی ہوئی سرخیاں نکالنا اور اداریہ نویسی میں بھی سنسنی کا ماحول برقرار رکھنا ان کا خصوصی ذوق رہا ہے اور دیوبندی اکابر و مسلک کا ہر حوالہ سے تعارف ان کی ترجیحات میں ہمیشہ سرفہرست رہتا ہے۔ ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں ”سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیغامِ توحید اور مذاہبِ عالم“ کے عنوان سے یہ سیمینار انہوں نے اس پس منظر میں منعقد کیا کہ حج اور قربانی کی آمد آمد ہے اور اس کے ساتھ عالمی سطح پر ہونے والی بین المذاہب کانفرنسوں میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ مسلسل سامنے آ رہا ہے اور اس لحاظ سے یہ وقت کی ایک اہم ضرورت تھی۔
سیمینار کی صدارت بزرگ عالم دین، یادگارِ اسلاف مولانا مجاہد الحسینی نے کی اور اس سے مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا خورشید احمد گنگوہی، مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد اعوان، مولانا مفتی محمد ضیاء مدنی، مولانا سید محمد زکریا شاہ اجمل اور دیگر علماء کرام نے خطاب کیا، جبکہ فیصل آباد کی معروف روحانی شخصیت جناب حافظ ریاض احمد قادری کی پرسوز دعا پر یہ سیمینار اختتام پذیر ہوا۔ راقم الحروف نے بھی سیمینار میں موضوع کی مناسبت سے کچھ معروضات پیش کیں، جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیغام توحید پر ہمارے فاضل دوستوں نے مختلف حوالوں سے گفتگو کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا سب سے بڑا پیغام توحید کا تھا اس لیے وہی اہل مذاہب و اقوام ابراہیمی ہونے کے دعویٰ کا حق رکھتے ہیں جو توحید کے علمبردار ہیں، چنانچہ آج کی دنیا میں یہ اعزاز صرف مسلمانوں کو حاصل ہے۔ میں یہ عرض کروں گا کہ حضرت ابراہیمؑ کا بنیادی پیغام توحید ہی ہے لیکن ان کا یہ امتیاز بھی ہے کہ ان کی توحید صرف فکری اور قولی نہیں بلکہ عملی اور فعلی بھی تھی۔ اس لیے کہ انہوں نے بت پرستی کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ کھلم کھلا پوری قوم کو بت پرستی ترک کر کے ایک اللہ کی بندگی کرنے کی تلقین کی اور بت پرستی کے خلاف عملی کاروائی بھی کی۔ اور جہاں حضرت ابراہیمؑ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تمام آسمانی مذاہب ان کی طرف اپنی نسبت کرنے پر فخر کرتے ہیں وہاں یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی ذات گرامی اور شخصیت کو اسلام کا راستہ روکنے کے لیے بطور شیلٹر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ چودہ سو سال قبل بھی ایسا ہوا تھا اور آج بھی عالمی سطح پر یہ کام ہو رہا ہے۔
جب جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی اور شرک و بت پرستی سے توبہ کر کے ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف واپس آنے کا پیغام دیا تو نہ صرف مشرکین عرب نے حضرت ابراہیمؑ کی آڑ میں اپنے شرک اور رسوم و رواج کا تحفظ کرنا چاہا بلکہ اہل کتاب کے دونوں گروہوں یہود و نصاریٰ نے بھی اپنے حق پر ہونے کے لیے ابراہیمی ہونے کا حوالہ دیا۔ لیکن قرآن کریم نے واضح طور پر اعلان کیا کہ
ما كان ابراهيم يهوديا ولا نصرانيا ولكن كان حنيفا مسلما وما كان من المشركين۔ ان اولى الناس بابراهيم للذين اتبعوه وهذا النبى والذين امنوا والله ولى المؤمنين۔ (سورہ آل عمران ۳ ۔ آیت ۶۷ و ۶۸)
’’ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی لیکن سیدھے راستے والے مسلمان تھے، اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔ لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ابراہیم کے وہ لوگ تھے جنہوں نے اس کی تابعداری کی، اور یہ نبی اور جو اس نبی پر ایمان لائے، اور اللہ ایمان والوں کا دوست ہے۔‘‘
ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے، نہ نصرانی تھے، اور نہ ہی بت پرست اور مشرک تھے بلکہ وہ توحید کے علمبردار تھے، اس لیے ان کی نسبت کے صحیح حقدار وہی ہیں جو عقیدۂ توحید میں ان کے پیروکار ہیں۔ چنانچہ جناب رسول اللہؐ اور ان کے متبعین ہی اس کا صحیح مصداق ہیں۔ اسی طرح آج کی دنیا میں جب عالمی دانشور یہ دیکھ رہے ہیں کہ سوسائٹی کو وحی اور آسمانی تعلیمات کی راہنمائی سے الگ کرنے کے منفی اور تلخ نتائج سامنے آرہے جن سے نجات کے لیے آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی ضروری ہوتی جا رہی ہے، اور انہیں یہ بات نظر آرہی ہے کہ انسانی سوسائٹی جب آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کرے گی تو آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کا مستند ذخیرہ صرف مسلمانوں کے پاس ملے گا، چنانچہ وہ مستقبل میں اسلام کا راستہ روکنے کے لیے حضرت ابراہیمؑ کے نام کو سامنے لا رہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ کی طرف نسبت کا اظہار کرنے والے سارے مذاہب برحق ہیں، ان میں سے کسی کو دوسرے کی نفی نہیں کرنی چاہیے اور سب کو مل جل کر رواداری اور مفاہمت و یگانگت کے ساتھ انسانی سوسائٹی کی راہنمائی کرنی چاہیے۔
اس پس منظر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو پیغامات کا ذکر کرنا چاہوں گا، ایک اہل کفر کے لیے ہے جبکہ دوسرا اہل ایمان کے لیے ہے۔ اور ان دونوں پیغامات میں حضرت ابراہیمؑ نے خود ان طبقوں کو مخاطب کیا ہے۔ اہل کفر کے نام حضرت ابراہیمؑ کا پیغام قرآن کریم میں جبکہ اہل ایمان یعنی مسلمانوں کے نام پیغام حدیث نبویؐ میں ہے کہ وہ جناب رسول اللہؑ کی وساطت سے ہم تک پہنچا ہے۔
سورہ الممتحنہ کی آیت نمبر ۴ میں اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں سے کہا ہے کہ
قد كانت لكم اسوة حسنة فىٓ ابراهيم والذين معهٝ اذ قالوا لقومهم انا برآء منكم ومما تعبدون من دون الله كفرنا بكم وبدا بيننا وبينكم العداوة والبغضآء ابدا حتى تؤمنوا بالله وحده۔ (سورہ الممتحنہ ۶۰ ۔ آیت ۴)
’’بے شک تمہارے لیے ابراہیم میں اچھا نمونہ ہے اوران لوگوں میں جو اس کے ہمراہ تھے، جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا بے شک ہم تم سے بیزار ہیں اور ان سے جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، ہم نے تمہارا انکار کر دیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور بیر ہمیشہ کے لیے ظاہر ہوگیا یہاں تک کہ تم ایک اللہ پر ایمان لاؤ ۔‘‘
یعنی تمہارے لیے حضرت ابراہیمؑ اور ان کے ساتھیوں کا یہ طرز عمل بطور خاص اسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتا ہے جب انہوں نے اہل کفر سے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے برأت کا اعلان کرتے ہیں اور تمہاری بات قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، بلکہ ہمارے اور تمہارے درمیان کھلی دشمنی او رعداوت ظاہر ہو چکی ہے جو اس وقت تک ہمیشہ قائم رہے گی جب تک تم اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان نہیں لے آتے۔
گویا حضرت ابراہیمؑ نے دوٹوک یہ کہہ دیا کہ اہل توحید اور اہل شرک کے درمیان یگانگت اور مفاہمت کا رشتہ نہیں بلکہ عداوت اور بغضاء کا تعلق ہے۔ اور جب تک وہ کفر و شرک کو ترک کر کے توحید و ایمان کا راستہ اختیار نہیں کرتے تب تک یہ دشمنی دوستی میں تبدیل نہیں ہو سکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کی دنیا میں حضرت ابراہیمؑ کے نام پر توحید اور شرک کے عقائد کو گڈمڈ کرنے اور حق اور باطل کے درمیان امتیاز کو ختم کرنے کی جو تحریک عالمی سطح پر جاری ہے اس میں حضرت ابراہیمؑ کا یہ پیغام بالکل واضح ہے جسے زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔
جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ جب نجران کے مسیحیوں کا مکالمہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دو ٹوک موقف دے دیا کہ
قل يآ اهل الكتاب تعالوا الى كلمة سوآء بيننا وبينكم الا نعبد الا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله ۚ فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون۔ (سورہ آل عمران ۳ ۔ آیت ۶۴)
’’کہہ دیجیے کہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے اللہ کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور سوائے اللہ کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے، پس اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہونے والے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی توحید اور انسان پر انسان کی خدائی یعنی حکمرانی کی نفی کو قرآن کریم نے آسمانی مذاہب کے درمیان قدر مشترک قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دو باتوں پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا اور ان دونوں اصولوں کو تسلیم کر لینے کے بعد ہی کسی مزید مکالمہ کی بات ہو سکتی ہے۔
یہ پیغام تو وہ ہے جو حضرت ابراہیمؑ نے اہل کفر کو دیا، جبکہ ہم مسلمانوں کے نام ان کا پیغام ترمذی شریف کے باب فضیلت ذکر میں آنحضرتؒ کے سفر معراج کی تفصیلات میں بیان ہوا ہے۔ جنت میں جب حضورؐ کی حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ
یا محمد اقرا امتک منی السلام واخبرھم ان الجنۃ طیبۃ التربۃ عذبۃ الماء وانھا قیعان وان غراسھا سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر۔
’’اے محمد! آپ میری طرف سے اپنی امت کوسلام کہنا اور ان بتانا کہ جنت کی زمین بہت پاکیزہ ہے عمدہ پانی والی ہے اور ہموار میدان ہے اور اس کی شجرکاری سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر کہنے سے ہوتی ہے۔‘‘
یعنی حضرت ابراہیمؑ فرما رہے ہیں کہ جنت کی زمین عمدہ ہے اور پانی بہت میٹھا ہے لیکن یہ چٹیل میدان ہے۔ دنیا میں تم جس قدر اللہ کا ذکر کرو گے اور تحمید و تسبیح کرو گے اتنا ہی جنت میں تمہارے حصے کی زمین سرسبز و شاداب ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں خالی پلاٹ الاٹ ہو جاتے ہیں جنہیں مسلمانوں نے دنیا میں رہ کر تعمیر کرنا ہے اور اس کا طریقہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ یہ تعمیر اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر سے ہوگی۔
گویا اہل کفر کے لیے ابراہیم علیہ السلام کا پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف واپس آؤ اور شرک و بت پرستی کو ترک کردو۔ جبکہ اہل ایمان کے لیے پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے ایمان و عقیدہ کو مضبوط بناؤ اور جس قدر ہو سکے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو۔ یہ ماضی کی طرح نہ صرف آج کی دنیا کے لیے بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیغام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔