میں گزشتہ روز ہمدرد ہال لاہور میں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی یاد میں منعقد ہونے والے سیمینار میں شریک تھا کہ مولانا عبید الرحمان قریشی نے فون پر بتایا کہ مولانا سید امیر حسین گیلانی سخت بیمار ہیں اور شیخ زید ہسپتال لاہور میں زیر علاج ہیں۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر وہ تھوڑی دیر کے لیے آسکیں تو میں بیمار پرسی کے لیے ان کے ساتھ حاضر ہونا چاہتا ہوں مگر سیمینار کے اختتام تک وہ تشریف نہ لا سکے۔ مجھے اس کے بعد ختم نبوت کانفرنس کے لیے بادشاہی مسجد پہنچنا تھا۔ کانفرنس سے خطاب کے بعد قریشی صاحب کا فون آیا کہ وہ اس وقت آنا چاہتے ہیں مگر تب میں گوجرانوالہ کے سفر پر روانہ ہو چکا تھا اس لیے معذرت کر دی۔ صبح نماز فجر کے بعد اوکاڑہ سے فون پر ایک دوست نے بتایا کہ رات مولانا سید امیر حسین گیلانی کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جنازہ میں شرکت میرے لیے سعادت کی بات ہوتی مگر میں بیرون ملک سفر کے لیے پایۂ رکاب ہوں اور جس وقت بہت سے دوست یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے میں شاید ملک میں نہیں ہوں گا۔
مولانا سید امیر حسینؒ گیلانی اس وقت پاکستان میں موجود چند گنے چنے فضلائے دیوبند میں سے تھے اور ان کے ساتھ جماعتی زندگی میں میرا طویل رفاقت کا دور گزرا ہے۔ ان کا تعلق مہاجرین کشمیر سے تھا اور ان کے خاندان کے بہت سے افراد گوجرانوالہ میں رہتے تھے اس لیے ان کا گوجرانوالہ اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ انہوں نے جماعتی اور تحریکی زندگی کا آغاز ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت سے کیا اور وہ ملاقاتوں میں اس دور کے حالات اور اپنی سرگرمیاں بتایا کرتے تھے۔
جمعیۃ علمائے اسلام میں میرا متحرک دور ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۰ء تک کا ہے جو کہ شاہ جی کی متحرک زندگی کے عروج کا دور بھی ہے۔ حالات میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے مگر ہم آہنگی اور رفاقت قائم رہی۔ وہ ایک مدرس اور پختہ کار عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ بے باک مقرر اور عوام دوست سماجی راہ نما بھی تھے۔ سامراج دشمنی اور عوام دوستی ان کے خمیر میں شامل تھی اور وہ اس کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیٰ میں ہم نے اکٹھے کام کیا اور ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۰ء تک کی جماعتی، تنظیمی، اور تحریکی سرگرمیوں میں ہم مسلسل شریک کار رہے۔ البتہ مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد جب جمعیۃ علمائے اسلام درخواستی گروپ اور فضل الرحمان گروپ میں بٹی تو ہم ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ میں درخواستی گروپ میں متحرک تھا جبکہ وہ فضل الرحمان گروپ کے سرگرم راہ نما تھے۔ باہمی محاذ آرائی اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ زوروں پر رہتا تھا مگر ہمارے باہمی تعلقات کی گرم جوشی اس دور میں بھی قائم رہی۔ میں جب بھی اوکاڑہ جاتا مولانا سے ملاقات کی کوئی صورت ضرور نکالتا، اسی طرح وہ گوجرانوالہ آتے تو میرے پاس ضرور تشریف لاتے۔ مجھے یہ بات لکھتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہم نے آپس میں اختلاف بھی کیا ہے اور ہمارے درمیان محاذ آرائی بھی ہوئی ہے لیکن شریفانہ طریقے سے ہوئی اور اخلاقیات کا دائرہ قائم رہا۔
اس دور کا ایک لطیفہ نما واقعہ میں دوستوں کو اکثر سنایا کرتا ہوں کہ ایک روز حضرت امیر حسین گیلانی شاہ صاحبؒ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں میرے دفتر میں تشریف فرما تھے، چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر وہ ایک کونے میں بیٹھے کچھ لکھنے لگے، میں نے دیکھا کہ وہ کچھ لکھ کر پھاڑ دیتے ہیں اور پھر سے لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ دو تین بار ایسا ہوا تو میں نے پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہیں؟ فرمایا کچھ نہیں۔ میں نے بے تکلفی سے کاغذ ان کے ہاتھ جھپٹ لیا۔ دیکھا کہ وہ اخبارات کے لیے میرے خلاف ہی بیان لکھ رہے تھے۔ میں نے ہنس کر کہا کہ شاہ جی! یہ بیان آپ سے نہیں لکھا جائے گا، لاؤ میں ہی لکھ دیتا ہوں۔ میں نے ان کے ہاتھ سے ان کا لیٹرپیڈ لیا اور اپنے خلاف ایک بیان ان کی طرف سے لکھ کر اخبارات کو بھجوا دیا۔ اخبارات کے دفاتر میں وہ بیان پہنچتے ہی مجھے فون پر فون آنا شروع ہوگئے کہ بیان میرے خلاف تھا اور میرے ہاتھ کا ہی لکھا ہوا تھا۔ گوجرانوالہ کے اخبار نویس میری ہینڈ رائٹنگ پہچانتے تھے اس لیے انہیں تعجب ہو رہا تھا۔ میں نے ان دوستوں سے کہا کہ ہاں میں نے ہی لکھا ہے لیکن آپ اسے چھاپ دیں چنانچہ دوسرے دن بہت سے اخبارات میں وہ بیان چھپ گیا۔ پھر میں نے اس بیان کا جواب لکھ کر بھجوایا تو وہ بھی شائع ہوگیا۔ چند روز بعد حضرت شاہ صاحبؒ پھر تشریف لائے تو میرا جوابی بیان ان کے ہاتھ میں تھا، کہنے لگے کہ یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ شاہ جی! وہ میرا اخلاقی فرض تھا کہ آپ میرے مہمان تھے، جبکہ یہ میرا جماعتی فرض تھا کہ جماعتی پالیسی کے حوالہ سے یہ میری ذمہ داری بنتی ہے۔
اسی دور کا ایک اور دلچسپ قصہ بھی عرض کر دیتا ہوں۔ مولانا ایثار القاسمی شہیدؒ ابھی سپاہ صحابہ میں شامل نہیں ہوئے تھے بلکہ جمعیۃ علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے سرگرم راہنما اور مولانا سید امیر حسینؒ گیلانی کے دست راست تھے۔ وہ اوکاڑہ ہی میں ایک مسجد کے خطیب تھے، انہوں نے دس محرم الحرام کو جلسہ رکھا اور حضرت شاہ صاحبؒ کی صدارت میں میرے خطاب کا پروگرام بنا لیا۔ ضلعی انتظامیہ نے اوکاڑہ میں میرے داخلہ پر پابندی لگا دی مگر شاہ صاحبؒ کا پیغام آیا کہ آپ نے بہرحال ضرور آنا ہے اور کچھ بھی ہو جائے خطاب ضرور کرنا ہے۔ میں چھپتے چھپاتے اوکاڑہ پہنچا اور پولیس کے محاصرے بلکہ نرغے کے باوجود مسجد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ حضرت شاہ صاحبؒ اور میں نے خطاب کیا جو کہ ضلعی انتظامیہ کے لیے اچھا خاصا چیلنج تھا۔ انہوں نے میری گرفتاری کا پروگرام بنا لیا اور مسجد کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ خطاب کیا ہے تو گرفتاری بھی نہیں دینی۔ مولانا ایثار القاسمی شہیدؒ اور راقم الحروف نے وہ رات پولیس کے شدید محاصرہ میں گزاری جس کی الگ تفصیلات ہیں لیکن پولیس اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ہمیں گرفتار کرنے میں ناکام رہی اور میں چھپتے چھپاتے اوکاڑہ سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
حضرت شاہ صاحبؒ کے بارے میں بہت سی یادیں ذہن کی اسکرین پر جھلملا رہی ہیں مگر ان کا اظہار پھر کسی موقع پر ہوگا۔ سردست اپنے ایک بزرگ اور شفیق دوست کی جدائی پر غمزدہ ہوں اور ان کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے بارگاہ ایزدی میں دست بہ دعا ہوں، آمین یا رب العالمین۔