جامعہ ملیہ دہلی کے اسلامی تشخص پر آخری ضرب

   
تاریخ : 
جولائی ۱۹۹۷ء

ان دنوں بھارت کے مسلم جرائد میں جامعہ ملیہ کے بارے میں دہلی ہائیکورٹ کے ایک فیصلے پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت جامعہ ملیہ میں داخلے کے لیے مخصوص کوٹے ختم کر کے تمام طلبہ کے داخلے میرٹ پر کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ اور ماہنامہ افکارِ ملّی دہلی کے جون ۱۹۹۷ء کے شمارے میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق اس فیصلہ کے بعد مسلم طلبہ کو حاصل وہ سہولت بھی ختم ہو گئی ہے جو جامعہ ملیہ میں داخلہ کے لیے کوٹہ سسٹم کے تحت انہیں ایک حد تک حاصل تھی۔

جامعہ ملیہ کا قیام ۱۹۲۰ء میں عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے قیام میں رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ، حکیم اجمل خانؒ، اور ان کے رفقاء پیش پیش تھے۔ جو علی گڑھ یونیورسٹی کے سرکار پرستانہ رجحانات سے تنگ آ کر ایک ایسے اسلامی تعلیمی ادارے کے قیام کے خواہاں تھے جہاں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ ضروری دینی تعلیم بھی ہو، اور اس سے بڑھ کر وہ فرنگی استعمار کے تسلط کے خلاف آزادی کے قومی رجحانات کی آبیاری کرے۔ چنانچہ اسی ہدف کو سامنے رکھ کر اس عظیم تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی گئی اور ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ء کو تحریکِ آزادی کے عظیم قائد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے مبارک ہاتھوں سے اس کا افتتاح ہوا۔

جامعہ ملیہ مسلمانوں کا ایک ممتاز تعلیمی ادارہ تھا جو اپنی دو خصوصیات کے باعث تاریخ میں مستقل مقام رکھتا ہے:

  1. ایک یہ کہ اس نے علی گڑھ یونیورسٹی کے سرکار پرستانہ رجحان کو مسترد کر کے مسلمانوں کی نئی پود کو آزادی کے لیے تیار کیا اور فرنگی استبداد کے خاتمہ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
  2. اور دوسری یہ کہ دیوبند کے خالص دینی تعلیمی نظام اور علی گڑھ کے انگریزی تعلیمی نظام کے درمیان ایک ایسے متوازن تعلیمی نظام کا تصور جامعہ ملیہ کی صورت میں سامنے آیا جس میں دینی اور عصری دونوں تقاضوں کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔

آزادی کے بعد ۱۹۸۸ء تک جامعہ ملیہ کو ایک مسلم ادارہ کی حیثیت حاصل رہی۔ مگر ۱۹۸۸ء کے میں جامعہ ایکٹ کے ذریعے اس کی جداگانہ مذہبی حیثیت ختم کر کے اسے سنٹرل یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا جس میں ہر مذہب کے لوگ داخل ہو سکتے ہیں، اور یہ تاریخی ادارہ مسلمانوں کے مخصوص تعلیمی ادارے کی پہچان سے محروم ہو گیا۔ البتہ مسلمانوں کی اشک شوئی کے لیے کوٹہ سسٹم کے تحت بعض ایسی مراعات دے دی گئیں جن سے مسلمان طلبہ استفادہ کر سکتے تھے۔ لیکن اب حال ہی میں دہلی ہائیکورٹ نے ایک فیصلہ میں یہ کوٹہ سسٹم بھی ختم کر دیا ہے جس سے مسلمانوں کے حوالے سے جامعہ ملیہ کی رہی سہی شناخت بھی تاریخ کی نذر ہو گئی ہے۔

بھارت کے دینی جرائد اور مسلم اخبارات اس پر احتجاج کرتے ہوئے مسلمان تنظیموں کو اس سلسلہ میں مؤثر اور مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں، خدا کرے کہ ان کی یہ آواز صدا بصحرا ثابت نہ ہو۔

   
2016ء سے
Flag Counter