اسلامی ممالک کا اتحاد، داعش اور ہم

   
۸ جنوری ۲۰۱۶ء

گزشتہ دنوں سعودی عرب کی قیادت میں ۳۴ مسلمان ملکوں کا عسکری اتحاد قائم کرنے کا اعلان ہوا ہے جن میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے جبکہ عراق، ایران اور شام اس کا حصہ نہیں ہیں، سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض اس فوجی اتحاد کا ہیڈ کوارٹر ہوگا اور اس کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنا اور داعش کے خطرے سے نمٹنا بیان کیا گیا ہے، پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے پہلے رد عمل میں اس سلسلہ میں بے خبری کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ تفصیلات معلوم ہونے کے بعد ہی اس کے بارے میں کوئی حتمی بات کہی جا سکے گی جبکہ رفتہ رفتہ پاکستان کی طرف سے اس اتحاد کا خیر مقدم اور اس میں شمولیت کے اعلانات سامنے آرہے ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ شمولیت رضاکارانہ ہے اور اس میں اپنے کردار کا تعین پاکستان خود کرے گا، امریکی حکومت کی طرف سے مسلمان ملکوں کے اس عسکری اتحاد پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے امریکی حکمت عملی کے عین مطابق قرار دیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ داعش کے خطرہ سے نمٹنے کے لیے یہ اتحاد ضروری ہے ، اس سے ایک ہفتہ قبل امریکی کانگریس کے ارکان میں ہونے والی یہ بحث بھی عالمی پریس کے ریکارڈ میں آچکی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں داعش کا راستہ روکنے کے لیے سابقہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکی اور تمام تر کاروائیوں کے باوجود داعش ( الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام ) عراق و شام کے کم و بیش ساٹھ فیصد حصے پر بدستور قابض ہے اور ایک باقاعدہ نظم کے تحت حکومت کر رہی ہے جسے ناکام بنانے کے لیے اب کم و بیش ایک لاکھ سنی رضا کاروں کی فوج تیار کرنا ضروری ہے جو داعش کے خلاف جنگ کا حصہ بن سکے۔

داعش کیا ہے؟ اس کے بارے میں اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد کے دور میں جو کم و بیش نصف صدی تک پھیلا ہوا ہے اہل سنت کو مسلسل ریاستی جبر کا سامنا رہا ہے، حافظ الاسد کے دور حکومت میں اہل سنت کے مذہبی مرکز ”حماہ” کو مکمل طور پر بلڈوز کر دیا گیا تھا اور اسی ریاستی جبر میں مبینہ طور پر دس ہزار کے لگ بھگ سنی کارکنوں اور راہ نماؤں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا، ہمارے استاد محترم اور عرب دنیا کے نامور حنفی محدث و فقیہ الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃ رحمہ اللہ تعالیٰ اس وقت اخوان المسلمون شام کے سربراہ تھے اور اسی ریاستی جبر کے باعث وہ جلا وطن ہو کر سعودی عرب میں قیام کرنے پر مجبور ہو گئے تھے، شام کی علوی حکومت کا اہل سنت کے ساتھ یہ طرز عمل حافظ الاسد کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد کے دور میں بھی مسلسل جاری ہے جس کے خلاف اہل سنت کے نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اور ان کے متعدد گروہ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف عسکری کاروائیوں میں مصروف چلے آرہے ہیں ۔

دوسری طرف عراق میں صدام حکومت کے خاتمہ کے بعد مغربی اتحاد کی سرپرستی میں نوری مالکی کی حکومت قائم ہوئی تو وہاں کے اہل سنت کے خلاف ان کی حکومت کی پالیسی بھی یہی تھی، سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے بقول نوری مالکی نے اہل سنت کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کیا اور فوج اور بیوروکریسی سے سنی جرنیلوں اور افسروں کو ایک ایک کر کے نکال دیا جس کے رد عمل میں وہاں عسکری مزاحمت نے سر اٹھایا اور متعدد عسکری گروہوں نے ہتھیار بند ہو کر کاروائیاں شروع کر دیں جن میں صدام حکومت کے دور کے وہ فوجی اور سول افسران بھی شامل ہو گئے جنہیں حکومت سے نکال دیا گیا تھا اور اس طرح وہ ایک منظم عسکری قوت کی شکل اختیار کر گئے ، شام اور عراق کے یہ مزاحمتی عسکری گروہ اپنے اپنے ملک میں کچھ عرصہ برسرپیکار رہنے کے بعد چند سال قبل آپس میں متحد ہوئے ”الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام” کا عنوان اختیار کر کے عراق و شام کے درمیان سرحد کو ختم کر دیا اور ایک بڑے علاقہ پر قبضہ کے بعد اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا، جسے دنیا کے مختلف حصوں میں اسلامی ریاست کے قیام اور خلافت اسلامیہ کے احیا کے لیے جدوجہد کرنے والے عسکری گروہوں کی حمایت اور ہمدردی حاصل ہوتی گئی اور انہوں نے اپنی اسلامی ریاست کو عالمی خلافت اسلامیہ کی صورت میں پیش کرنا شروع کر دیا چنانچہ دنیا بھر میں ایک نئی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ایسے عسکری گروہوں کو جو اسلام کے نام پر اور اسلامی ریاست کے قیام کے دعوے پر اپنی اپنی ریاستوں کے خلاف جد و جہد کر رہے ہیں منطقی طور پر داعش کا حصہ سمجھے جانے لگا ہے اور اس طرح داعش نے ایک عالمی خطرے کی صورتحال اختیار کر لی ہے۔ اس خطرے کے تین الگ الگ پہلو ہیں:

  1. ایک پہلو مبینہ دہشت گردی کا ہے جس کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور امریکہ اور یورپ بھی اس کی زد میں دکھائی دے رہے ہیں جس کی ایک مثال پیرس اور کیلیفورنیا میں گزشتہ دنوں سامنے آنے والی دہشت گردی کی کاروائیاں ہیں ، عالمی قوتیں اور ادارے اس خطرے کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے فکرمند اور سرگرم ہیں اور عالمی اتحاد قائم کر کے اسے ہر صورت میں کچل دنیا چاہتے ہیں۔
  2. اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ”خالص اسلامی ریاست” کے تصور نے خود مسلم ممالک میں ان کے موجودہ حکومتی نظاموں کے لیے خطرے کھڑے کر دیے ہیں جن کی واقفیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور مسلمان حکمران اپنے اپنے حکومتی نظاموں اور ریاستی ڈھانچوں کو اس خطرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے نہ صرف آپس میں متحد ہونے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں بلکہ دہشت گردی اور داعش کے خلاف مغربی ملکوں کے عالمی اتحاد کا ساتھ دینا اور اس کا حصہ بننا بھی ان کی مجبوری بن کر رہ گیا ہے۔
  3. جبکہ اس مسئلہ کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ عالم اسلام میں اسلام کے معاشرتی اور عدالتی کردار کی بحالی کی وہ تحریکات جو دہشت گردی اور تشدد پسندی سے مکمل گریز کرتے ہوئے پُر امن طور پر سیاسی و جمہوری عمل کے ذریعے نظام شریعت کے قیام و نفاذ کی جدوجہد میں ایک عرصہ سے مصروف ہیں وہ ان دونوں بلکہ تینوں کے درمیان سینڈویچ بن کر رہ گئی ہیں ، وہ نہ تو اس مقصد کے لیے جدوجہد اور مسلم حکومتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو جائز سمجھتی ہیں، نہ مسلم حکومتوں کی موجودہ پالیسیوں اور انتظامی ڈھانچوں سے مطمئن ہیں اور نہ ہی ان کے لیے مغربی قوتوں کا یہ ایجنڈا کسی بھی صورت میں قابل قبول ہے کہ اسلام کے معاشی، سیاسی اور عدالتی کردار کی مکمل نفی کرتے ہوئے دنیا کے کسی بھی حصہ کوئی اسلامی ریاست کسی صورت میں قائم نہ ہونے دی جائے۔ جبکہ مغربی ملکوں اور ان کے ہمنواؤں نے قطعی طور پر طے کر رکھا ہے اور اس کے لیے وہ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ پوری طرح سرگرم عمل ہیں کہ اسلامی احکام و قوانین کے کسی بھی معاشرے میں نفاذ کا راستہ ہر قیمت پر روکا جائے خواہ وہ سیاسی اور جمہوری عمل کے ذریعہ پیشرفت کر رہا ہو یا اس کے لیے عسکری جدوجہد کا راستہ اختیار کیا گیا ہو گویا مغرب کا اصل ہدف اسلامی خلافت کو روکنا ہے دہشت گردی یا جمہوری عمل اس کے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔

خود ہم اس تیسرے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے کہ جہاں داعش اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے شدت پسندانہ کردار سے نفرت و برأت کا اظہار ہم ضروری سمجھتے ہیں وہاں اسلامی شریعت کے نفاذ کی نفی اور اس کا راستہ ہر قیمت پر روکنے کی پالیسی اور طرز عمل کو قبول کرنا یا اس پر خاموشی اختیار کر لینا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہے، یہ طبقہ عالم اسلام کی رائے عامہ کی غالب اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے لیکن باہمی رابطہ ،مشاورت اور تعاون کے فقدان کی وجہ سے کمزور بلکہ بے اثر دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے شدت پسندی کے رجحان کو فروغ حاصل ہو رہا ہے، ہمارے علمی، دینی اور فکری مراکز اگر ”سٹیٹس کو” کے جمود سے نجات حاصل کر کے معروضی صورتحال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے کوئی کردار ادا کر سکیں تو یہ موجودہ وقت میں ملت اسلامیہ اور خاص طور پر اہل سنت کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter