قادیانیت کے حوالہ سے مبارک ثانی کیس پر سپریم کورٹ آف پاکستان کا تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد فضا بحمد اللہ تعالیٰ خاصی حد تک صاف ہو گئی ہے اور اس فیصلہ پر مختلف مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کی طرف سے اطمینان کے اظہار نے کچھ ذہنوں میں پائے جانے والے تحفظات اور ابہامات دور کر دیے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدۂ شکر ادا کرتے ہوئے ہم سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ صادر کرنے والے جسٹس صاحبان بالخصوص چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے والوں، اس میں معاونت کرنے والوں اور کیس کی پیروی کرنے والے سب احباب کو جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مگر اس کے ساتھ ملک بھر کے دینی حلقوں اور جماعتوں کے علاوہ پارلیمنٹ کے ارکان اور قانونی ماہرین کو ایک نئے دستوری چیلنج کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتے ہیں جو مجوزہ آئینی ترامیم کی صورت میں قوم کو درپیش ہے اور جس کے بارے میں نہ صرف سرگرمیاں جاری ہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو کا یہ ارشاد بھی گزشتہ روز سامنے آیا ہے کہ اکتوبر کے دوران ہی اس معاملہ کو بہرصورت نمٹا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
مجوزہ ترامیم میں ’’آئینی عدالت کے قیام‘‘ کے علاوہ اختیارات کے حوالہ سے بھی بعض امور شامل ہیں جن کے بارے میں سیاسی پارٹیوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے اس پر ایک واضح اور دوٹوک موقف اختیار کر رکھا ہے اور لگتا ہے کہ ہفتہ عشرہ میں معاملات طے پانے والے ہیں۔ اس پس منظر میں دینی مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے ایک مشترکہ فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ نے اس عندیہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ مجوزہ ترامیم آئینی اختیارات کی تقسیم کے حوالہ سے ہیں جو بظاہر محل نظر ہیں لیکن اگر سیاسی جماعتیں انہیں ضروری سمجھتی ہیں اور کسی اتفاق کے مرحلہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں تو ہمارے نزدیک اسلامی نقطۂ نظر سے بعض آئینی ترامیم ان سے زیادہ ضروری ہیں جو شریعت اسلامیہ کے احکام و قوانین کے عملی نفاذ میں پائی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کی عملداری کا ماحول قائم کرنے کے لیے ناگزیر ہو چکی ہیں۔
ملی مجلس شرعی پاکستان کے صدر کے طور پر ذمہ داریاں راقم الحروف کے سپرد ہیں اور سیکرٹری جنرل ملک کے معروف دانشور اور استاذ پروفیسر ڈاکٹر محمد امین ہیں، جبکہ جس کمیٹی نے آئینی ترامیم کا جائزہ لے کر سفارشات مرتب کی ہیں اس میں پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کے ساتھ مولانا عبد الغفار روپڑی، ڈاکٹر حسن مدنی، سردار محمد خان لغاری، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا عمران طحاوی اور حافظ غضنفر عزیز شامل ہیں۔ ان تجاویز کی تائید کرتے ہوئے اسلام آباد کے سرکردہ علماء کرام نے مولانا نذیر احمد فاروقی اور مولانا ظہور احمد علوی کی سربراہی میں تجاویز کی جو فہرست پیش کی ہے وہ درج ذیل ہے:
(۱) قرارداد مقاصد کو دیگر قوانین پر بالادستی دی جائے اور دستور و اسلامی تعلیمات میں تعارض کی صورت میں اسلامی تعلیمات پر ترجیحاً عمل کیا جائے۔
(۲) وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائے، ان کے خلاف اپیل کو سٹے stay نہ سمجھا جائے اور اپیل کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کیا جائے۔ عدالت میں علماء ججوں کی تعداد بڑھائی جائے اور ان کے حقوق و اختیارات وہی ہوں جو دوسرے ہائی کورٹ ججز کے ہیں۔
(۳) بنیادی حقوق کی دفعہ ۸ میں اضافہ کر کے ان پر عملدرآمد کو قرآن و سنت کی مطابقت سے مشروط کیا جائے۔
(۴) اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے طریقِ کار وضع کیا جائے اور عمل نہ کرنے کی صورت میں سپیکر اور وزیر قانون قابل مواخذہ اور قابل سزا ہوں۔
(۵) سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بنچ کو ریگولر سماعت کرنی چاہیے اور اہم زیر التوا معاملات جیسے ربا، ٹرانس جینڈر، اوقاف ایکٹ وغیرہ کے بارے میں فوری فیصلے کیے جائیں۔
(۶) سزائے موت کی معافی کا صدارتی اختیار (دفعہ ۲۴۵) ختم کیا جائے کہ یہ غیر شرعی ہے۔
(۷) سماجی برائیوں کے خاتمے کی دفعہ ۳۷ پر عمل کیا جائے اور ان پر عملدرآمد کو قرآن و سنت کی مطابقت سے مشروط کیا جائے۔
ہمیں ان تجاویز و سفارشات پر اسی صورت میں اصرار نہیں ہے البتہ ہم سیاسی جماعتوں اور ارکان پارلیمنٹ سے یہ تقاضہ ضرور رکھتے ہیں کہ دستور کی اسلامی دفعات کی عملداری اور شرعی قوانین کے عملی نفاذ میں رکاوٹوں کا جائزہ لے کر دستور میں ایسی ترامیم کی جائیں جن سے شرعی قوانین کی عملداری کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کی جا سکیں اور قرآن و سنت کی بالادستی و حکمرانی کی راہ ہموار ہو۔ خدا کرے کہ وہ اس اہم قومی ضرورت پر توجہ دے سکیں، آمین یا رب العالمین۔