بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں تو اپنے بھائی مولانا احسان اللہ فاروقی رحمہ اللہ تعالیٰ کا گلشن دیکھنے آتا ہوں، کبھی کبھی موقع مل جاتا ہے اور اپنے بھتیجوں کو کام کرتا دیکھنے آتا ہوں۔ خوشی ہوتی ہے، گلشن کو دیکھ کر بھی، ساتھیوں کا تعلق دیکھ کر بھی، اپنے بھتیجوں کی محنت دیکھ کر بھی، دل خوش ہو جاتا ہے اور تھوڑی سی چارجنگ مل جاتی ہے۔ میں تو اس نیت سے آتا ہوں۔ اور پھر سب سے بڑی بات کہ یہ سیدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد میں محفل ہے اور شعرائے کرام نے اپنا کلام سنایا، اور مجھے حاضری کے لیے یہاں بٹھا دیا، صرف حاضری کے لیے ایک دو باتیں حسبِ معمول عرض کر کے اجازت چاہوں گا۔
ہمارے محترم سلمان گیلانی صاحب کو کافی عرصہ کے بعد سنا ہے، میرا خود جی چاہ رہا تھا کہ شاہ صاحب کو کافی عرصہ سے سنا نہیں، آج سنا ہے، اللہ پاک جزائے خیر سے نوازیں، عمرِ دراز عطا فرمائیں اور صحت و عافیت کے ساتھ اپنے والدِ مرحوم کا یہ مشن چلاتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
میں جب آیا تو ہمارے بھائی نادر صدیقی صاحب پڑھ رہے تھے، بڑا محظوظ ہوا میں، اگرچہ میں سرائیکی ورائیکی نہیں جانتا، لیکن حَظ بہت اٹھایا، اور گیلانی صاحب کو سنا۔ نادر صاحب نے اپنے آخری کلام میں، جو ان کا شعر تھا نا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند زین العابدینؒ، تو مجھے واقعہ یاد آیا جو کئی دفعہ سنایا بھی ہو گا، پڑھا بھی ہے، لیکن اس وقت وہ ذہن میں آگیا۔
حضرت امام زین العابدینؒ ہمارے بھی، ہمارے بھی نہیں، ہمارے ہی امام ہیں۔ وہ آلِ نبی کے سردار تھے اپنے دور میں، سرخیل تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں اُن کے جذبات کیا تھے، اس پر ایک واقعہ عرض کر دیتا ہوں۔ یہ واقعہ حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تحفۃ اثنا عشریہ‘‘ میں طبرانی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ امام زین العابدین رحمہ اللہ تعالیٰ، امامِ اہلِ بیت، امامِ اہلِ سنت، تشریف فرما تھے مجلس میں۔ مجلس میں لوگ استفادے کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک صاحب آئے، سلام عرض کیا اور کچھ باتیں پوچھیں سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں۔ کوئی سوال کیا ایک آدھ۔ حضرت امام زین العابدینؒ متوجہ ہوئے۔ اس شخص کا سوال کا انداز پسند نہیں آیا۔ روایت میں سوال کا ذکر نہیں ہے، صرف یہ ہے کہ امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کو سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس شخص کا سوال کا لہجہ پسند نہیں آیا کہ یار اس طرح تو ذکر نہیں کرنا چاہیے۔ اتنی سی بات ہوئی۔
فرمانے لگے بیٹھ جاؤ۔ سوال کا جواب بعد میں دوں گا، پہلے اپنا تعارف کراؤ کون ہو؟ تم مہاجرین میں سے ہو؟ اس نے کہا، نہیں۔ انصار میں سے ہو؟ نہیں۔ اچھا! قرآن پاک نے مومنوں کے تین طبقے ذکر کیے ہیں، قرآن پاک نے ایمان والوں کے تین درجے ذکر کیے ہیں، تین دائرے: (۱) للفقراء المہاجرین (۲) والذین تبوؤ الدار والایمان من قبلھم (۳) والذین جاءو من بعدہم۔ سب سے پہلا طبقہ مسلمانوں کا کیا ہے؟ مہاجرین۔ دوسرا طبقہ کونسا ہے؟ انصار۔ تیسرا جو اُن کے بعد آئے ہیں، قیامت تک وہی ہیں سارے، ان کی شان کیا ہے؟ ’’یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین اٰمنوا‘‘ (الحشر ۸، ۹، ۱۰)
’’والذین جاءو من بعدھم‘‘ کا تعارف قرآن پاک نے کن الفاظ سے کرایا ہے؟ جو یہ کہتے ہیں، اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں، یااللہ کہیں ہمارے دل میں پہلے بزرگوں کے بارے میں کینہ نہ آجائے۔ ’’والذین جاءو من بعدھم‘‘ قیامت تک یہی ہے۔ ان کی علامت کیا ہے کہ جو اللہ پاک سے ہر وقت دعا مانگتے رہتے ہیں ’’لا تجعل فی قلوبنا غلا للذین اٰمنوا‘‘ یااللہ، جو ہم سے پہلے ایمان لے آئے ہیں نا، پہلے مسلمان مومن، ان کے بارے میں ہمارے دلوں میں کوئی بغض نہ آئے، کینہ نہ آئے۔
امام زین العابدینؒ نے فرمایا، یہ تو تم خود کہہ رہے ہو نا کہ میں مہاجرین میں سے نہیں ہوں، یہ تم خود بتا رہے ہو کہ میں انصار میں سے نہیں ہوں، اور یہ میں کہتا ہوں کہ بعد والوں میں تم نہیں ہو۔ یہ تم خود اقرار کر رہے ہو کہ ’’للفقراء المہاجرین‘‘ میں تم نہیں ہو۔ یہ تم خود اقرار کر رہے ہو کہ ’’والذین تبوؤ الدار والایمان من قبلھم‘‘ میں تم نہیں ہو۔ اور یہ میں کہتا ہوں کہ ’’والذین جاءو من بعدھم‘‘ میں تم نہیں ہو۔ تم نے جس لہجے میں حضرت عثمانؓ کا ذکر کیا ہے ’’والذین جاءو من بعدھم‘‘ میں تم نہیں ہو۔ پہلے اپنا تعارف کراؤ تم کون ہو، پھر تمہارے سوال کا جواب دوں گا۔
یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اہلِ بیت کا نظریہ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کس کا عقیدہ ہے؟ اہلِ بیت کا، امامِ اہلِ بیت حضرت امام زین العابدین رحمہ اللہ تعالیٰ کا، اور یہی اہلِ سنت کا بھی ہے۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں نہیں، کسی بھی صحابی کے بارے میں دل میں کینے کا آنا، مسلمانوں کے تیسرے دائرے سے نکلنا ہے۔
تو یہ بھائی نادر صاحب کے وہ شعر سنتے ہوئے میرے ذہن میں واقعہ آ گیا، میں نے کہا آج یہ بیان کروں گا، حاضری کے لیے، شرکت کے لیے۔ ایمان کی علامت کیا ہے؟ مہاجرین اور انصار کے ساتھ محبت ’’والذین جاءوا من بعدھم‘‘۔ سب کی قیامت تک یہی علامت ہے کہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ محبت ایمان کی علامت ہے۔ انصار کے ساتھ مہاجرین کے ساتھ محبت ایمان کی علامت ہے۔
اور محبت کا تقاضا کیا ہوتا ہے؟ جس سے محبت ہوتی ہے اس کا تذکرہ کثرت سے ہوتا ہے ’’من احب شیئا اکثر ذکرہ‘‘ مشہور محاورہ ہے۔ جو جس سے محبت کرتا ہے اس کا تذکرہ بھی کرتا رہتا ہے کہ نہیں کرتا رہتا؟ اور یہ حضراتِ صحابہ کرامؓ کا مختلف بہانوں سے تذکرہ کرتے رہنا، اپنے ایمان کی علامت بھی ہے، محبت کی علامت بھی ہے، عقیدت کی علامت بھی ہے۔
حضرت عثمانؓ کی شان اور فضائل تو بے پناہ ہیں، ذکر کرنے سے بات بہت لمبی ہو جائے گی، صرف ایک بات کہہ کر بات ختم کرتا ہوں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ مشہور حدیث ہے، آپ نے کئی بار سنی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف فرما ہیں، جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے، حضرت عثمانؓ کو دیکھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ عثمان کو دیکھ کر اللہ بھی حیا کرتا ہے اور جبریل بھی حیا کرتا ہے۔ اب جس کو عثمانؓ پر حیا نہ آئے، اس کی مرضی ہے بھئی، اب اس کو میں کیا کہوں، اللہ ہی سنبھالے اس کو۔
بہرحال میں نے اپنی حاضری کے لیے تھوڑی سی شرکت کر لی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس محفل کو قبول فرمائیں، حضرت مولانا احسان اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کا گلشن نظر آ رہا ہے، سارا گلشن ان کا آباد ہے، ثواب انہی کو جا رہا ہے، اللہ پاک اس گلشن کو ہمیشہ آباد رکھیں، ان کے خاندان کو اور ان کے رفقاء کو اس گلشن کی آبادی میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔