(وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام جامعہ عثمانیہ نوتھیہ روڈ پشاور میں منعقد ہونے والے چار روزہ ’’تدریب المعلمین کورس‘‘ میں ۱۲ فروری ۲۰۰۸ء کو مغرب کے بعد کی نشست میں دینی مدارس کے اساتذہ سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سب سے پہلے فقہ کے مفہوم و مقصد کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ قرنِ اول میں ’’فقہ‘‘ اور ’’تفقہ‘‘ کا لفظ جس مقصد کے لیے اور جس معنٰی میں بولا جاتا تھا وہ آج کے اس مفہوم سے بہت زیادہ وسیع تھا جس پر ہمارے اِس دور میں فقہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ ’’التوضیح والتلویح‘‘ میں حضرت امام ابوحنیفہؒ کے حوالے سے فقہ کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے ’’معرفۃ النفس ما لہا و ما علیہا‘‘ کہ ایک انسان اپنے حقوق و فرائض کی پہچان حاصل کرے۔ حقوق و فرائض کا یہ دائرہ دین کے تمام شعبوں کو محیط ہے اس لیے فقہ اس دور میں دین کے مجموعی فہم کو کہا جاتا تھا۔ چنانچہ صاحبِ توضیح و تلویح نے لکھا ہے کہ امام صاحبؒ کے زمانے میں علم الحقیقہ، علم الطریقہ اور علم الشریعہ تینوں فقہ میں شامل تھے، اور احکام و مسائل کے ساتھ ساتھ تصوف و سلوک اور اعتقادات و ایمانیات کو بھی فقہ کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے حضرت امام ابوحنیفہؒ نے عقائد پر جو رسالہ لکھا اسے ’’الفقہ الاکبر‘‘ کا نام دیا۔ بعد میں فقہاء نے ’’معرفۃ النفس ما لہا و ما علیہا‘‘ کے ساتھ ’’عملاً‘‘ کا لفظ بڑھا کر فقہ کو احکام و مسائل تک محدود کر دیا۔
یہ بات امام غزالیؒ نے بھی ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں بیان کی ہے اور اس بات کا شکوہ کیا ہے کہ فقہ کے مفہوم سے ایمانیات اور تصوف و سلوک کو الگ کر دینے سے فقہ کی حیثیت ایک ٹیکنیکل علم (صناعۃ) کی رہ گئی ہے جس سے وہ مقاصد پورے نہیں ہوتے جن کے حوالے سے قرآن کریم نے فقہ و تفقہ کا ذکر کیا ہے۔ امام غزالیؒ کا کہنا ہے کہ قرآن کریم نے ’’لیتفقہوا فی الدین‘‘ کے ساتھ ’’ولینذروا قومہم‘‘ کا ذکر فرما کر فقہ کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ اس کے ساتھ قوم کو خدا کی ناراضگی اور عذاب سے ڈرایا جائے، اور ظاہر ہے کہ ’’انذار‘‘ کا یہ مقصد صرف احکام و مسائل کے فنی علم سے حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے ساتھ ایمان و یقین کی پختگی اور نفس کی اصلاح و تزکیہ بھی ضروری ہے۔ اس لیے امام غزالیؒ فرماتے ہیں اور میری طالب علمانہ رائے بھی یہ ہے کہ فقہ کو اس وسیع مفہوم و تناظر میں دیکھنا چاہیے جو اسے قرنِ اول میں حاصل تھا، اور اس کی تعلیم و تدریس میں ان مقاصد کو سامنے رکھنا ضروری ہے جو امام ابوحنیفہؒ کے دور میں اس علم کے اہداف کے طور پر متعارف تھے۔
میری اس گزارش کا مقصد یہ نہیں ہے کہ فقہ کے موجودہ نصاب اور مواد میں یہ دو مضمون بڑھا دیے جائیں کیونکہ یہ فوری طور پر خاصا مشکل کام ہوگا۔ البتہ یہ ضرور چاہوں گا کہ پڑھانے والے اساتذہ کے ذہنوں میں فقہ کا یہ وسیع تر مفہوم اور اس کے مجموعی مقاصد ضرور موجود رہیں تاکہ وہ تدریس کے دوران اپنے طرز و اسلوب کے ذریعے طلبہ کی ذہن سازی کرتے رہیں۔
اس کے بعد فقہ کی تدریس کے حوالے سے دینی مدارس کے موجودہ عمومی ماحول کے تناظر میں کچھ باتیں مرحلہ وار عرض کرتا ہوں جن کی طرف اساتذہ کو توجہ دلانا آج کے حالات اور تقاضوں کی روشنی میں میرے خیال میں ضروری ہے۔
- پہلی بات یہ کہ ’’فقہ‘‘ کا لفظ ہی یہ تقاضا کرتا ہے کہ صرف مسائل کا معلوم کر لینا اور احکام و ضوابط کا رٹ لینا طالب علم کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ فقہ کا تعلق فہم سے ہے۔ اس لیے ایک استاذ کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اس کے سامنے بیٹھے ہوئے طلبہ کو کتاب میں درج مسائل و احکام صرف معلوم نہ ہوں بلکہ وہ انہیں سمجھ بھی رہے ہیں اور ان کا ذہن انہیں قبول بھی کر رہا ہے۔
- دوسری بات یہ ہے کہ ہم حنفی ہیں اور ہمارے مدارس میں فقہ حنفی پڑھائی جاتی ہے۔ اصولی طور پر ہمارے ہاں فقہ حنفی ہی پڑھائی جانی چاہیے لیکن اہلِ سنت کی دوسری فقہوں کے ساتھ، جن میں فقہ شافعی، فقہ مالکی، فقہ حنبلی کے ساتھ فقہ ظاہری کو بھی شامل کروں گا، طلبہ کا تعارف ضروری ہے۔ ہماری فقہ کی درسی کتابوں میں خواہ وہ متون ہوں یا شروح مثلاً قدوری، کنز الدقائق، شرح وقایہ، ہدایہ، شرح نقایہ وغیرہ۔ مصنفین نے اس امر کا اہتمام کیا ہے کہ فقہ حنفی کے مطابق مسائل بیان کرتے ہوئے جہاں ضروری سمجھا ہے وہاں دوسرے فقہی مذاہب کے احکام کا بھی ذکر کیا ہے۔ آج کے دور میں چونکہ باہمی میل جول بڑھ رہا ہے اور ہمارے فضلاء کو ایسے مقامات پر دینی خدمات سرانجام دینا پڑتی ہیں جہاں احناف کے علاوہ دیگر فقہی مذاہب سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی موجود ہوتے ہیں، اس لیے ایسے مشترک ماحول میں دینی خدمت کرنے والے امام، خطیب یا مدرس کو اپنی فقہ کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ دوسرے فقہی مذاہب سے بھی واقف ہونا چاہیے تاکہ وہ مسائل میں اختلاف کی وجوہ اور درجات و ترجیحات کو صحیح طور پر سمجھتے ہوئے مسلمانوں کی بہتر انداز میں راہنمائی کر سکیں۔
میں فقہ کے نصاب میں کسی نئے اضافے کی بات نہیں کر رہا بلکہ یہ گزارش کر رہا ہوں کہ وہ کام جو ہمارے فقہاء نے درسی کتابوں کے متون اور شروح میں محدود انداز میں کیا ہے، ضروریات کا دائرہ وسیع ہونے کی وجہ سے اس میں وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ اس کے لیے استاذ کو زیادہ محنت کرنا ہوگی کہ وہ مشترک ماحول میں عام طور پر پیش آنے والے مسائل کا علم حاصل کریں اور اسے فقہ کی کتاب پڑھاتے ہوئے جہاں جہاں ضرورت ہو طلبہ کے ذہنوں میں منتقل کرتے جائیں۔
اس کے ساتھ یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ فقہی مسائل و احکام میں دوسرے فقہی مذاہب کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے اگر انداز مجادلہ و مناظرہ کی بجائے افہام و تفہیم اور بریفنگ کا ہو تو اس کی افادیت زیادہ ہوگی۔ بریفنگ سے میری مراد یہ ہے کہ متعلقہ مسئلہ میں طلبہ کو تمام ضروری معلومات مہیا کر دی جائیں، اب یہ استاذ کا فن اور مہارت ہے کہ وہ معلومات کو اس انداز اور ترتیب سے طلبہ کے سامنے بیان کرے کہ ان کے ذہنوں میں اپنے فقہی احکام کی ترجیح متاثر نہ ہونے پائے۔
- تیسری گزارش یہ ہے کہ فقہی احکام کا ایک بڑا حصہ عرف و تعامل سے تعلق رکھتا ہے اور یہ بات مسلّمات میں سے ہے کہ جن احکام و مسائل کا تعلق عرف و تعامل سے ہو وہ عرف و تعامل کے بدلنے کے ساتھ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اور یہ بات بھی کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے کہ عرف و تعامل میں زمان و مکان دونوں حوالوں سے تبدیلی آتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر معاملہ میں امریکہ، یورپ، افریقہ اور جنوبی ایشیا کا عرف و تعامل یکساں ہو، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہمارے ہاں جو عرف و تعامل آج سے ایک سو سال قبل تھا وہ آج بھی اسی طرح قائم ہو۔ اس لیے جب ہم قدوری اور ہدایہ پڑھاتے ہیں تو بہت سے مسائل ان کے مصنفین کے دور کے عرف و تعامل کی بنیاد پر بیان ہوتے ہیں، اگر وہاں استاذ وضاحت نہیں کرے گا تو طالب علم کا ذہن الجھن اور کنفیوژن کا شکار ہوگا اور مسئلہ کی صحیح نوعیت واضح نہیں ہوگی۔ اس لیے استاذ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فرق کو طلبہ کے سامنے رکھے اور انہیں سمجھائے کہ کون سا مسئلہ عرف و تعامل کے فرق کی وجہ سے کس طرح بدل گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے بھی استاذ کو ہی زیادہ محنت کرنا ہوگی اور میرے نزدیک اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ فقہ کی کسی کتاب کا متن یا شرح پڑھاتے ہوئے حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمان دیوبندیؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے فتاوٰی یا فتاوٰی دارالعلوم دیوبند وغیرہ میں سے بھی کسی کو سامنے رکھے اور جہاں فتوٰی میں فرق محسوس کرے اس کی وجہ معلوم کر کے طلبہ کو اس سے آگاہ کرے۔
- چوتھی گزارش یہ کر رہا ہوں کہ آج کے سائنسی دور میں پیش آنے والے جدید مسائل پر بھی استاذ کی نظر ہونی چاہیے اور طالب علم کا یہ حق ہے کہ استاذ اسے جدید مسائل سے روشناس کرائے اور ان کے حل کی طرف اس کی راہنمائی کرے۔ سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کی مسلسل پیشرفت نے بہت سے ایسے مسائل پیدا کر دیے ہیں جن سے ہمیں اس سے قبل واسطہ نہیں پڑا تھا۔ ان مسائل کا حل شرعی اصولوں کی روشنی میں تلاش کیا جا سکتا ہے اور ہر دور میں تلاش کیا جاتا رہا ہے۔ فقہ پڑھنے والے طلبہ کو ایسے مسائل سے ذہنی طور پر مانوس ہونا چاہیے تاکہ عملی زندگی میں اس قسم کے کسی مسئلے سے اچانک واسطہ پڑنے پر وہ الجھن اور وحشت کا شکار نہ ہوں۔
مثال کے طور پر میں صرف ایک مسئلہ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ابھی گزشتہ شعبان المعظم کے دوران میں امریکہ کے شہر ہیوسٹن گیا جہاں امریکہ کا خلائی تحقیقاتی مرکز ناسا (NASA) ہے۔ وہاں سے خلائی جہاز خلا میں روانہ کیے جاتے ہیں، ان خلائی جہازوں میں خلا باز کئی کئی ماہ خلا رہتے ہیں۔ میں نے اس سفر میں ناسا کا بھی دورہ کیا اور وہاں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اب مسلمان خلاباز بھی خلا میں جانا شروع ہوگئے ہیں اور اسی رمضان المبارک کے دوران ملائیشیا کے بعض مسلمان خلاباز خلا میں گئے ہیں۔ ہمیں وہاں بتایا گیا کہ جب خلائی شٹل زمین کے مدار سے نکل کر خلا میں داخل ہوتی ہے تو سورج کے گرد اس کی گردش چوبیس گھنٹے کے بجائے نوے منٹ کی رہ جاتی ہے۔ ایک تو ان نوے منٹوں میں پانچ نمازوں کی ادائیگی کا مسئلہ درپیش ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کشش ثقل ختم ہوجانے کے باعث وہاں کسی جگہ پاؤں ہی نہیں ٹکتے تو نماز میں قیام، رکوع اور سجود وغیرہ کی کیا کیفیت ہوگی؟ تیسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ کشش ثقل نہ ہونے کی وجہ سے پانی کو جسم کے اعضا پر گرانا اور وضو کرنا بھی ممکن نہیں ہے تو ایسی صورت میں نمازوں کی ادائیگی کی کیا صورت ہوگی؟ یہ مسئلہ ملائیشیا کے مسلمان خلابازوں کی طرف سے پیش کیا گیا ہے اور امریکہ کے ایک اردو اخبار نے لکھا ہے کہ اس کے بارے میں سب سے پہلے ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک یہودی پروفیسر نے رائے دی ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے نماز کی صورت وہی ہوگی جو مسلمان فقہاء نے معذور کے لیے بیان کی ہے۔ مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے عرض کیا کہ میرے خیال میں اس یہودی پروفیسر نے بالکل صحیح بات کی ہے کیونکہ ایسی حالت میں معذور ہی کی طرح نماز ادا کی جا سکتی ہے۔
یہ میں نے صرف ایک مثال دی ہے، اس قسم کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ طلبہ کو ایسے مسائل سے واقف کرانا ضروری ہے تاکہ وہ ذہنی طور پر اس قسم کے مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ اس کے لیے میری گزارش ہے کہ فقہ پڑھانے والے اساتذہ جدید مسائل پر ہونے والے علمی مباحث سے خود واقف ہوں اور جہاں جہاں موقع مناسب دیکھیں سبق کے دوران ضروری باتیں طلبہ کے سامنے بیان کر دیا کریں۔ ان مسائل پر دنیا میں ہر جگہ بحث و مباحثہ ہو رہا ہے، کتابیں اور مقالات موجود ہیں، مثال کے طور پر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ، حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، حضرت مولانا سید نصیب علی شاہ بنویؒ اور دیگر اہلِ علم نے اس سلسلہ میں جو کام کیا ہے وہ ان مسائل پر معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ اگر فقہ کے مدرس کے مطالعہ میں یہ کتابیں اور مباحث ہوں تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ مناسب مواقع پر طلبہ کی ان مسائل کی طرف راہنمائی کر سکتا ہے۔
- پانچویں گزارش یہ ہے کہ اسلامی احکام و قوانین پر آج کے دور میں جو اعتراضات کیے جاتے ہیں یا ان کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے، ان سے فقہ کے استاذ کا واقف ہونا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو حسب موقع ان کی استعداد کی سطح کو دیکھتے ہوئے ایسے اعتراضات و شبہات سے ان کو آگاہ کرے اور ان کے جوابات کی طرف بھی راہنمائی کرے۔ اس قسم کے بیسیوں اعتراضات میں سے مثال کے طور پر صرف ایک کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ وہ یہ کہ اسلام کے تعزیری قوانین یعنی حدود و تعزیرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بہت سخت اور تشدد پر مبنی ہیں اور انسانی احترام اور حقوق کے منافی ہیں۔ ان قوانین کی مسلم ممالک میں نفاذ کی اسی لیے مخالفت کی جاتی ہے۔ اب فقہ کے استاذ اور طالب علم کو اس اعتراض کی نوعیت اور اس کے پس منظر سے واقف ہونا چاہیے کہ آخر ایسا کیوں کہا جاتا ہے اور یہ اعتراض کرنے والوں کے پاس کیا دلیل ہے؟
اس کی وجہ عرض کرتا ہوں کہ اقوامِ متحدہ کے منظور کردہ انسانی حقوق کا چارٹر جس پر کم و بیش دنیا کے سب ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں اور اس کی پابندی کا عہد کیا ہوا ہے، اس کی دفعہ نمبر ۵ میں کہا گیا ہے کہ ’’کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ، انسانیت سوز، یا ذلیل سلوک یا سزا نہیں دی جائے گی‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جائے گا جس میں جسمانی اذیت اور تذلیل شامل ہو اور سلوک کے ساتھ ساتھ کسی شخص کو ایسی سزا بھی نہیں دی جائے گی۔ گویا کسی بھی سزا کا جسمانی اذیت اور تذلیل سے خالی ہونا ضروری ہے۔ اس کی روشنی میں اسلامی سزاؤں کو دیکھ لیجئے کہ رجم کرنا، ہاتھ کاٹنا، پاؤں کاٹنا، کوڑے مارنا اور برسر عام سزا دینا وغیرہ، ان سب سزاؤں میں جسمانی اذیت بھی ہے اور توہین و تذلیل بھی ہے۔ اسی بنیاد پر اسلامی سزاؤں کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا جاتا ہے اور عالمی فورموں کی طرف سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ چونکہ مسلم ممالک نے انسانی حقوق کے اس چارٹر کو قبول کر کے اس کی پاسداری کا وعدہ کر رکھا ہے اس لیے وہ کوئی ایسا قانون نافذ نہ کریں جس میں اس کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
ہمارے ہاں چند سال قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ بحث ہو چکی ہے کہ ہمارے قانونی نظام میں انسانی حقوق کے اس چارٹر کی کیا حیثیت ہے۔ چنانچہ ملک کے بعض نامور وکلاء کی طرف سے عدالتِ عظمیٰ میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ قرآن کریم نے ہمیں ’’اوفوا بالعقود‘‘ کے تحت معاہدات کی پابندی کا حکم دیا ہے اور بہت سے معاملات میں عرف کی پابندی کی تلقین کی ہے، اس لیے دونوں حوالوں سے اس چارٹر کی پابندی ہمارے لیے ضروری ہے، یہ بین الاقوامی معاہدہ بھی ہے جسے ہم نے قبول کیا ہوا ہے اور یہ آج کا عالمی عرف بھی ہے جس کی ہمیں پابندی کرنی چاہیے۔ چنانچہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ ہمارے قانونی نظام میں انسانی حقوق کے اس چارٹر کی پابندی ضروری ہے اور اسی بنا پر عدالت عظمیٰ نے ایک مجرم کو کھلے بندوں سزا دینے کا عدالتی فیصلہ منسوخ کر دیا کہ کھلے بندوں سزا دینے میں اس کی تذلیل ہوتی ہے اور ہم اس بین الاقوامی معاہدہ میں یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ کسی کو جسمانی اذیت اور تذلیل پر مبنی سزا نہیں دیں گے۔
یہ میں نے صرف ایک مثال دی ہے ورنہ اقوامِ متحدہ کے اس چارٹر کے حوالے سے ہمارے بیسیوں قوانین و احکام پر اس قسم کے اعتراضات موجود ہیں اور ان کی وجہ سے خود ہمارے معاشرے میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ ہمارے لیے جہاں ان اعتراضات کا جواب دینا ضروری ہے وہاں اپنے تدریسی نصاب میں ایسے اعتراضات اور ان کے جوابات کو شامل کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے تاکہ اساتذہ اور طلبہ ان سے پورے طور پر واقف ہو سکیں اور قوم کی صحیح سمت راہنمائی کر سکیں۔
حضراتِ اساتذہ کرام! مجھے اس امر کا پوری طرح احساس ہے کہ میں جتنی گزارشات بھی کر رہا ہوں ان کے ذریعے آپ کے بوجھ میں اضافہ کر رہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ آپ کو بہت زیادہ مطالعہ کرنا پڑے گا، مغز کھپائی کرنا ہوگی اور محنت و مشقت سے کام لینا ہوگا۔ لیکن اگر یہ مقاصد ضروری ہیں جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے تو پھر اس کے بغیر کوئی چارۂ کار بھی نہیں ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر اساتذہ کے ذہن میں یہ بات جگہ بنا لے کہ ایسا کرنا ضروری ہے تو وہ نصاب میں کسی قسم کی تبدیلی یا اضافہ کے بغیر بھی اس کا راستہ بنا لیں گے۔ ہم میں ہر ایک کا اپنا اپنا ذوق ہے، کوئی سیاسی ذہن رکھتا ہے، کوئی تبلیغی ذہن کا حامل ہے، کسی کی ذہنی تربیت جہادی ماحول میں ہوئی ہے، اور کوئی ناموسِ صحابہؓ کے تحفظ کو سب سے زیادہ اہم سمجھتا ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا ذوق ہے اور وہ اپنا ذوق اسی مروجہ نصاب کے ضمن میں اپنے شاگردوں کو منتقل کر دیتا ہے، اسے اس کے لیے کسی نئی نصابی کتاب کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اسی نصابی مواد کے اندر جہاں اس کو اپنی بات کو شامل کرنے کا موقع ملتا ہے وہ شامل کر دیتا ہے۔ اس لیے یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ ان مقاصد کے حوالے سے فقہ کے نصاب میں کوئی اضافہ ہونا چاہیے یا نہیں اور یہ وفاق کی سطح کا مسئلہ ہے، لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا یا اس کو ضروری نہیں سمجھا جاتا تو بھی یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور اساتذہ کرام اپنے ذاتی مطالعہ و اسٹڈی اور محنت کے ساتھ ان معاملات میں تیاری کر کے طلبہ کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ اور اگر ہم فقہ کی تعلیم و تدریس کے ضروری اہداف حاصل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں ایسا ضرور کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی میں دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمیں اپنی تدریسی و تعلیمی ذمہ داریاں صحیح طور پر سرانجام دینے کی توفیق دیں اور قبولیت و رضا سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔