عدالتوں میں اسلامی فقہ کے ماہرین

   
۱۴ جنوری ۱۹۷۸ء

مارشل لاء حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو غیر اسلامی قوانین کی منسوخی کے اختیارات تفویض کیے جانے کے اعلان کے بعد یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے ساتھ اسلامی فقہ کے ماہرین کا تقرر بھی ضروری ہے تاکہ وہ عدالتوں کو ان قوانین کی طرف توجہ دلا سکیں جو اسلام کے منافی ہیں اور قرآن و سنت کے مطابق ان میں ترامیم اور تبدیلیوں کے سلسلہ میں ججوں کا ہاتھ بٹا سکیں۔ پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے بھی ایک بیان میں حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے۔

لیکن یہ مسئلہ صرف حکومت کے لیے نہیں بلکہ علماء کرام کے لیے بھی قابل توجہ ہے، بالخصوص اس کا یہ پہلو کہ فقہ پر ضروری عبور اور استنباط و استخراج میں دسترس رکھنے والے علماء کی موجودہ کھیپ زیادہ تر سن رسیدہ علماء پر مشتمل ہے اور ان میں سے بھی بیشتر وہ ہیں جو مدارس میں تدریس و تعلیم کے فرائض ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ جبکہ ہمارے مدارس سے ہر سال سند فراغت حاصل کرنے والے نوجوان علماء میں ایسے افراد کا تناسب بہت کم ہے جنہیں علم اور علمی مسائل سے دلچسپی ہو اور وہ اپنا وقت اور صلاحیتیں علمی و تحقیقی امور پر ’’ضائع‘‘ کرنا پسند کرتے ہوں۔

اس لیے یہ مسئلہ سنگین ہونے کے ساتھ ساتھ ناگزیر صورت اختیار کر گیا ہے۔ اب قصہ یہ ہے کہ ہمیں نہ صرف ملک کی معزز عدالتوں میں اسلامی فقہ کے ماہرین کے تقرر کی صورت میں ان کے معیار کے مطابق مطلوبہ افراد کی کھیپ مہیا کرنی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی اپنے مدارس میں پیدا ہوجانے والے خلاء کو بھی پر کرنا ہے اور آئندہ کے لیے اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا اہتمام کرنا ہے۔ ہمارے خیال میں اس مرحلہ میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے پیش آمدہ مسئلہ کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش انتہائی غیر معقول اور غیر منطقی ہوگی۔ علماء کرام کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور مل بیٹھ کر اس مسئلہ کے مقتضیات کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ ملک میں اسلامی نظام و قوانین کے نفاذ و ترویج کے عمل میں علماء کرام اپنا کردار صحیح اور مؤثر طور پر ادا کر سکیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter