روزنامہ دنیا گوجرانوالہ نے ۲۱ جنوری ۲۰۱۳ء کو این این آئی کے حوالہ سے خبر شائع کی ہے کہ:
’’مسجد اقصیٰ کے خطیب شیخ عکرمہ صبری نے اسرائیل کی شہریت کو حرام قرار دیا ہے اور اپنے سابقہ فتوے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی شہریت حاصل کرنا شرعی حوالہ سے حرام ہے کیونکہ مقبوضہ بیت المقدس کے حوالہ سے اسرائیل کے ساتھ معرکے کا ایک پہلو یہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنا بھی ہے اور اسرائیل مسجد اقصیٰ کے اطراف میں پھیلے اس با برکت شہر کی آبادی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔‘‘
ہم محترم الشیخ عکرمہ صبری کے اس ارشاد کی تائید کرتے ہیں کہ اسرائیل آبادی کا تناسب تبدیل کر کے بیت المقدس پر اپنے نا جائز قبضہ کو مستحکم کرنے اور اسے جواز مہیا کرنے کے لیے مسلسل تگ و دو کر رہا ہے اس لیے ایسے ہر اقدام سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جو اسرائیل کی اس مہم میں اس کی تقویت و تائید کا ذریعہ بن سکتا ہو۔ البتہ ہم اس حوالہ سے ایک پرانے فتویٰ کا ذکر بھی کرنا چاہیں گے کہ خلافت عثمانیہ کے دور میں فلسطین اس کا صوبہ تھا اور یہودیوں کو اس خطے میں زمین خریدنے اور مستقل سکونت اختیار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر جب پہلی جنگ عظیم میں جرمنی اور خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد مغربی اتحادیوں نے خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے اور اس بندر بانٹ میں فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا تو یہودیوں کو دنیا کے مختلف حصوں سے وہاں لا کر آباد کرنے کے لیے خلافت عثمانیہ کے نافذ کردہ اس قانون کو تبدیل کر دیا گیا جس کے تحت یہودی فلسطین میں زمین خرید کر آباد ہونے کے مجاز نہیں تھے۔ اس قانون کے خاتمہ کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں نے وہاں آکر زمینیں خریدنا شروع کیں اور اپنی آبادی بڑھانے کی مہم چلائی۔
اس موقع پر مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینیؒ نے فتویٰ صادر کیا تھا کہ فلسطین کی زمین یہودیوں پر فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اس بہانے فلسطین میں اپنی آبادی بڑھا کر اسے اس حد تک لانا چاہتے تھے کہ بیت المقدس پر قبضہ کر سکیں۔ مفتی اعظم فلسطین کے اس فتویٰ کی تائید ہمارے برصغیر کے اکابر علماء کرام خصوصاً حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اور مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ دہلوی ؒ نے بھی کی تھی۔ اس پر حضرت تھانوی ؒ کا ایک مستقل رسالہ ان کی کتاب ’’بوادر النوادر‘‘ میں موجود ہے۔ مگر اکابر علماء کرام کے اس فتویٰ کی پروا نہیں کی گئی اور بہت سے فلسطینیوں نے اپنی زمینیں اور مکانات مختلف ممالک سے آنے والے یہودیوں پر فروخت کر کے انہیں فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ یہودیوں نے اپنی آبادی میں مسلسل اضافہ کرکے آبادی کی بنیاد پر اقوام متحدہ سے فلسطین میں اپنے الگ وطن کا موقف تسلیم کرا لیا۔ ہماری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اگر اس وقت فلسطینی عوام اس مسئلہ کی نزاکت کا احساس کرتے اور علماء کرام کے فتویٰ کا احترام کرتے تو آج ان کو یہ صورتحال درپیش نہ ہوتی کہ ان کے وطن میں اسرائیل کی ریاست تو قائم ہو گئی ہے مگر اصل اہل وطن یعنی فلسطینیوں کی آزاد ریاست کا خواب ابھی تک خواب ہی کے دائرے میں رکا ہوا ہے۔
شیخ محترم عکرمہ صبری حفظ اللہ تعالیٰ کا جذبہ صادق ہے اور ہم اس کی قدر کرتے ہیں مگر ہمیں خدشہ ہے کہ ان کے اس فتویٰ کے ساتھ بھی وہی معاملہ نہ ہو جو مفتی اعظم فلسطین کے مذکورہ فتوے کے ساتھ ہو چکا ہے، ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت یہودیوں کی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے فلسطینی عوام کی جد و جہد کو کامیابی سے ہمکنار فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔