وفاقی اور صوبائی بجٹ پیش ہو چکے ہیں اور ان پر متعلقہ حلقوں میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر سال جون میں یہ بجٹ پیش ہوتے ہیں، ان پر بحث ہوتی ہے جو کچھ ترامیم کے ساتھ منظور ہو جاتے ہیں، اور یکم جولائی سے نئے بجٹ کے ساتھ اگلے مالی سال کا آغاز ہو جاتا ہے۔ عام طور پر حکومتی جماعتیں اور ارکان اسمبلی بجٹ کی تحسین کرتے ہیں اور اس کا دفاع کرتے ہیں، جبکہ اپوزیشن جماعتوں اور اراکان اسمبلی کی طرف سے اعتراضات سامنے آتے ہیں اور ردّ و مدّح کا شور بپا ہوتا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی ہونے لگ جاتا ہے جو وزرائے خزانہ کی طرف سے ایوانوں میں پیش ہو چکا ہوتا ہے۔ البتہ عوام کو وقتی طور پر پڑھنے اور سننے کی حد تک تسلی کی کچھ ایسی باتیں ضرور مل جاتی ہیں جن میں ان کے معاشی مسائل اور مالی مشکلات کا تذکرہ موجود ہوتا ہے۔
یہ روایت ایک عرصہ سے چلی آرہی ہے اور خدا جانے کب تک معاملات اسی ڈگر پر چلتے رہیں گے۔ ہمارے ہاں ایک روایت اور بھی ہے کہ جن چیزوں کے نرخ میں کچھ اضافے کی توقع ہوتی ہے انہیں قبل از وقت اسٹاک کر لیا جاتا ہے اور وہ مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہو جاتی ہیں جن سے صارفین کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ بجٹ آنے والا ہے، اب یہ اشیا کچھ روز تک پہلے کی طرح میسر نہیں ہوں گی اور پھر اضافہ شدہ قیمتوں پر ملنا شروع ہو جائیں گی۔
بجٹ کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ آمدن اور اخراجات میں توازن قائم کیا جائے اور قومی و حکومتی اخراجات کے لیے میسر آمدنی کا جائزہ لے کر متوقع کمی کو پورا کرنے کا بروقت انتظام کر لیا جائے۔ ہمارے ہاں بجٹ میں یہ دوسرا پہلو ہی غالب ہوتا ہے اور اصل مقصد کہ آمدنی اور اخراجات میں توازن قائم کیا جائے ہمیشہ مفقود رہتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اخراجات بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں اور آمدنی کی مدات بھی بڑھائی جاتی رہتی ہیں جس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔
اخراجات کو ناگزیر ضروریات کے دائرے میں محدود کرنے کا تصور ہمارے ہاں ’’قدامت پسندی‘‘ کی علامت سمجھا جانے لگا ہے، بلکہ ناگزیر ضرورت اور نمود و تعیش کے درمیان فاصلے رفتہ رفتہ مٹتے جا رہے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اسلام کے معاشی فلسفہ کی وضاحت کرتے ہوئے معیشت کے تین درجے بیان کیے ہیں: (۱) ضرورت (۲) سہولت اور (۳) تعیش۔ وہ فرماتے ہیں کہ ضروریات پوری کرنا تو ہماری ذمہ داری ہے، جائز حد تک سہولت فراہم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ، لیکن تعیش ناجائز ہے اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں تیسرا درجہ ہی معیشت کا اصل درجہ سمجھا جاتا ہے، اور کچھ افراد و طبقات کے تعیش کے لیے قوم کی اکثریت کی سہولت بلکہ ضرورت کے دائرے بھی مسلسل پامال ہو رہے ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے لباس و خوراک کی بنیادی ضروریات پوری نہ کر سکنے کی وجہ سے خودکشی کرنے والے لوگ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اور پالتو جانوروں کی عیاشی کے لیے لاکھوں روپے ماہانہ صرف کر دینے والے حضرات بھی ہماری سوسائٹی کا ہی حصہ ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے بجٹ کے حوالہ سے ایک اور اہم پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اخراجات میں غیر ضروری اضافہ اور ہر کس و ناکس پر ٹیکس عائد کرنا معیشت میں فساد کا باعث بنتا ہے۔ ٹیکس کی ادائیگی کو ضروری سمجھنے والوں پر بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے، جبکہ جو لوگ کسی نہ کسی حوالہ سے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، جس سے معاشی ناہمواری بڑھتی رہتی ہے اور غریب عوام مزید بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہیں۔
۱۹۷۲ء میں جب مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے آتے ہی دو آرڈر فوری طور پر جاری کیے۔ ایک اردو کو صوبے کی دفتری زبان قرار دینے کے بارے میں تھا اور دوسرا صوبے میں شراب بنانے، بیچنے، پینے اور پلانے پر پابندی کے حوالہ سے تھا۔ اس پر انہیں وفاقی حکومت کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ شراب بنانے اور بیچنے پر پابندی لگانے کی وجہ سے وہ اس مد میں موصول ہونے والے ٹیکس کی آمدنی سے محروم ہو جائیں گے اور صوبائی بجٹ متاثر ہوگا۔ جبکہ اس سلسلہ میں وفاقی حکومت ان کی کوئی مدد نہیں کر سکے گی۔ مفتی صاحبؒ نے اس کے جواب میں وفاقی حکومت کو اپنے خط میں تسلی دلائی کہ وہ شراب کی آمدنی سے محرومی کے باعث بجٹ میں پیدا ہونے والے خسارہ کو پورا کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو زحمت نہیں دیں گے بلکہ اخراجات میں کمی کر کے اس خسارے کو پورا کر لیں گے۔ یہ ایک اچھی سوچ تھی مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اسے ’’اولڈ فیشن‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ اخراجات اور ان کے لیے آمدنی کی مدات میں بے تحاشا اضافہ کرتے چلے جانے کو ہی بجٹ کی اصل روح قرار دے لیا گیا ہے اور یہ روح ہمارے اس سال کے بجٹ میں بھی پوری طرح کارفرما دکھائی دیتی ہے۔
کسی زمانے میں بجٹ کا مقصد قومی اور سرکاری اخراجات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنا بھی ہوتا تھا۔ جس کا مفہوم اب بالکل الٹ ہوگیا ہے اور حکومت کی طرف سے عوام کو سہولتیں فراہم کرنا نہیں بلکہ عوام کی طرف سے حکومت کو زیادہ سے زیادہ سرمایہ فراہم کرنا ہی بجٹ کا اصل ہدف بن کر رہ گیا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے خطاب میں ملک کے معاشی ماہرین سے کہا تھا کہ پاکستان کی معاشی منزل مغرب کے معاشی اصولوں کی پیروی نہیں بلکہ اسلام کی معاشی اصولوں کی عملداری ہے۔ اور وہ توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی ماہرین اسلامی اصولوں کے مطابق ملکی معیشت کے ڈھانچے کی تشکیل کریں گے۔ مگر ہم ابھی تک پون صدی قبل کی ڈگر پر ہی چل رہے ہیں، وہی سرمایہ پرستانہ سوچ ہے، وہی طبقاتی نظام ہے، اور وہی سود اور سٹے کے پہیوں پر چلنے والی معاشی گاڑی ہے جو زبانِ حال سے یہ پکار رہی ہے کہ
وہی شکستہ سی بوتلیں ہیں وہی شکستہ سے جام اب بھی