کراچی یونیورسٹی کی سالانہ سیرت کانفرنس میں حاضری

   
تاریخ: 
۲۷ نومبر ۲۰۱۹ء

۲۷ و ۲۸ نومبر کراچی میں گزارنے کا موقع ملا، شعبہ علوم اسلامی کراچی یونیورسٹی کی سیرت چیئر کی سالانہ سیرت کانفرنس میں شرکت کا وعدہ تھا، اس دوران قیام معہد الخلیل الاسلامی بہادر آباد میں رہا اور ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کی ہفتہ وار کلاس میں گفتگو کی۔ یہ کلاس معہد الخلیل الاسلامی کراچی کے زیر اہتمام الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے اشتراک و تعاون سے ہر منگل کو اڑھائی بجے سے ساڑھے تین بجے تک آن لائن ہوتی ہے۔ معہد کے مدیر مولانا محمد الیاس مدنی کا ارشاد تھا کہ جب آپ کراچی آ ہی رہے ہیں تو ایک نشست بالمشافہہ ہو جائے جو جمعرات کو ظہر کے بعد ہوئی۔

اس سے قبل ظہر کی نماز جامعہ دارالعلوم کورنگی میں ادا کر کے ہم نے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی سے ملاقات کی، دونوں بزرگوں نے حسب معمول شفقتوں اور دعاؤں سے نوازا اور کچھ امور پر باہمی تبادلۂ خیالات بھی ہوا۔ اسی روز بہادر آباد کی عالمگیر مسجد کے ساتھ ’’عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کا مرکز دیکھنے کا موقع ملا۔ ٹرسٹ کی تعلیمی و رفاہی سرگرمیوں کے بارے میں پہلے سے سن رکھا تھا، دیکھ کر مزید خوشی اور اطمینان حاصل ہوا کہ مربوط و منظم سسٹم کے تحت ٹرسٹ کی خدمات سے ہزاروں مریض اور لاکھوں مستحق حضرات مختلف شعبوں میں استفادہ کر رہے ہیں اور کام کی وسعت اور معیار میں دن بدن ترقی ہو رہی ہے، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔

کراچی یونیورسٹی کی سیرت کانفرنس ۲۷ نومبر کو تھی، ظہر کے بعد کی ایک نشست کی صدارت کا اعزاز مجھے بخشا گیا، جبکہ مہمان خصوصی سابق وفاقی وزیر حاجی محمد حنیف طیب تھے اور مقررین میں ہمارے عزیز اور فاضل شاگرد ڈاکٹر حافظ سمیع اللہ فراز (فاضل نصرۃ العلوم) بھی شامل تھے۔ کانفرنس کا بنیادی موضوع ’’نظم مملکت کے اصول: ریاست مدینہ کے تناظر میں‘‘ تھا جس کے مختلف پہلوؤں پر اصحاب فکر و دانش نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور میں نے بھی کچھ معروضات پیش کیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ جامعہ کراچی کے شعبہ علوم اسلامی بالخصوص سیرت چیئر کا شکرگزار ہوں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالہ سے منعقد ہونے والے اصحاب فکر و دانش کے اس اجتماع میں حاضری کا موقع فراہم کیا، چونکہ اساتذہ و طلبہ کے درمیان کھڑا ہوں اور تحقیق و مطالعہ کی باتیں ہو رہی ہیں اس لیے کوئی باضابطہ گفتگو کرنے کی بجائے ریاست مدینہ کے بارے میں چند سوالات ارباب فکر و دانش کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔ اس خیال سے کہ ان عنوانات پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور تحقیق و مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کو اس طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ مثلاً:

  1. ایک سوال یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس ریاست مدینہ کی تشکیل فرمائی تھی اس کا ذریعہ کیا تھا، کیا رسول اکرمؐ نے اس خطہ پر قبضہ کر کے ریاست بنائی تھی؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا تھا تو ہمیں ان سماجی عوامل و اسباب کی نشاندہی کرنا ہوگی جو میری طالب علمانہ رائے میں کچھ اس طرح ہیں کہ مختلف قبائل اور اقوام کے ساتھ مذاکرات، گفت و شنید اور مفاہمت اس ریاست کی بنیاد بنی تھی۔ یثرب کے دو بڑے قبیلوں اوس اور خزرج کے ساتھ عقبہ اولٰی اور عقبہ ثانیہ کے مذاکرات کے ساتھ ساتھ اس سلسلہ میں دیگر قبائل کے علاوہ بنو عامر کے ساتھ آنحضرت کی گفت و شنید بھی خصوصی توجہ کی مستحق ہے جس میں بنو عامر نے نبی کریمؐ کو اپنے علاقہ کی طرف ہجرت کی دعوت اس شرط کے ساتھ دی تھی کہ آپ کے بعد حکومت ہماری ہوگی، جسے آپؐ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مختلف اقوام و قبائل کے ساتھ جناب رسول اکرمؐ کے اس دور کے مذاکرات کو منظم طور پر سامنے لانے کی ضرورت ہے جس سے یہ بات واضح ہوگی کہ ریاست مدینہ کا آغاز قبضہ اور طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ مذاکرات اور مفاہمت کے نتیجہ میں ہوا تھا۔
  2. دوسرا سوال یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست کی جغرافیائی حدود کے اندر رہنے والے غیر مسلموں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا تھا؟ اس سلسلہ میں میثاق مدینہ اور معاہدہ نجران سمیت بہت سے ایسے معاہدات تاریخ کا حصہ ہیں جو ایک اسلامی ریاست کے اندر رہنے والے غیر مسلموں کے ساتھ شہری اور معاشرتی تعلقات کی حدود بیان کرتے ہیں اور انہیں آج کے ماحول اور آج کی زبان و اصطلاح میں ازسرِنو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
  3. اس کے بعد تیسرا سوال یہ ہے کہ ریاست کے نظم اور فیصلوں کی بنیاد کیا تھی؟ حدیث و سیرت کے ذخیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انتظامی، عدالتی، سیاسی، بین الاقوامی اور معاشرتی ہر قسم کے معاملات میں فیصلوں کی اصل بنیاد وحی الٰہی ہوتی تھی اور وحی نہ آنے کی صورت میں فیصلوں کا سب سے بڑا ذریعہ باہمی مشاورت تھا۔ جناب رسول اللہ نے بہت سے فیصلے مشاورت سے کیے ہیں جس میں ہر سطح کے لوگ شریک ہوتے تھے اور نبی اکرمؐ دوسروں کے مشوروں کو کھلے دل سے قبول کرتے تھے جس کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ گویا ریاست کی نظریاتی اساس وحی اور مشاورت کے دو اصولوں پر ہے جسے آج کے سیاسی تناظر میں واضح کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
  4. جبکہ چوتھے سوال کے طور پر میں اس طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب آپؐ کے خلیفہ کا انتخاب ہوا تو اس کی بنیاد بھی طاقت، قبضہ یا خاندانی استحقاق پر نہیں تھی بلکہ وسیع تر باہمی مشاورت اور بحث و مباحثہ کے ذریعے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے منصب خلافت سنبھالا تھا جس کا سیاسی زبان میں مطلب یہ بنتا ہے کہ حق حکمرانی کی بنیاد طاقت یا خاندانی استحقاق نہیں بلکہ امت کی اجتماعی صوابدید ہے۔

اسی طرح اور بھی بہت سے اہم سوالات ہیں جو ارباب فکر و دانش کو غور و فکر اور تحقیق و مطالعہ کی دعوت دے رہے ہیں ۔اور میں جامعہ کراچی کے اس علمی و فکری ماحول میں اس کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تحقیق و مطالعہ کا موضوع ہے جبکہ آج کے دور میں اسے درس و تدریس کے دائرے میں شامل کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ سیرت طیبہ کو باقاعدہ نصاب تعلیم کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ گزشتہ بدھ کو فیصل آباد میں مجھے قرآن سنٹر اور الامین اکیڈمی کے پروگراموں میں شریک ہو کر خوشی ہوئی کہ انہوں نے سیرت طیبہ کو باقاعدہ تدریسی کورس کے طور پر پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور مجھے اس کورس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ میری گزارش ہے کہ جامعہ کراچی اور دیگر جامعات اور دینی مدارس کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

اس موقع پر یہ عرض کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ معروف اور پرکشش شخصیت ہے اور آپؐ کو تاریخ کی سب سے بڑی شخصیت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حیثیت کو ہم اپنے تعارف و امتیاز اور اعزاز و افتخار کے حوالہ سے تو پیش کرتے ہیں جو ہمارا حق ہے، مگر نسل انسانی کے سامنے اسلام کی دعوت و تعارف اور دنیا کو اسلامی تعلیمات و روایات سے واقف کرانے کے لیے بھی اگر رسول اکرمؐ کی اس حیثیت اور پوزیشن سے استفادہ کیا جائے تو ہمارا بہت سا کام آسان ہو جائے گا۔ اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ سیرت طیبہ اور اسوۂ نبوی ہوگا جسے سلیقہ کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر کے ہم اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے پورا کر سکتے ہیں، اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۲ دسمبر ۲۰۱۹ء)
2016ء سے
Flag Counter