اسلام آباد کے گرد و نواح میں سرگرمیاں

   
۱۱ ستمبر ۲۰۱۴ء (غالباً‌)

گزشتہ ماہ کے آخری دو روز اسلام آباد کے اردگرد گزرے۔ اسلام آباد کے بہت سے دوستوں کے تقاضے دھرنوں کی وجہ سے مؤخر ہوتے جا رہے ہیں۔ البتہ قرب و جوار کے کئی پروگراموں میں شرکت ہوگئی۔ ۳۰ اگست کو عصر کے بعد جمعیۃ علماء اسلام کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات جناب محمد اقبال اعوان صاحب نے ٹیکسلا کے جماعتی ہیڈ کوارٹر میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی یاد میں ایک سیمینار کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں علاقہ بھر کے علماء کرام اور جماعتی کارکن شریک تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ کی علمی، دینی اور قومی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ مجھے ٹیکسلا میں حضرت شیخ الہندؒ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس حوالہ سے زیادہ خوشی ہو رہی ہے کہ عصری اور دینی تعلیم کے امتزاج کے بارے میں حضرت شیخ الہندؒ کے ذوق اور مشن کا آغاز پاکستان میں سب سے پہلے ۱۹۵۱ء میں ٹیکسلا میں ہوا تھا جب مدرسہ تعلیم القرآن میں میٹرک کے مکمل نصاب کے ساتھ درس نظامی کا نصاب بھی شامل کیا گیا تھا۔ حضرت مولانا محمد داؤدؒ نے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی راہ نمائی میں اس کار خیر کے آغاز کیا تھا اور اس کے اثرات پورے علاقہ میں اب تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ تعلیم القرآن ہائی اسکول اسی کی یادگار ہے جو سکولوں کو قومی تحویل میں لیے جانے تک اس مشن پر قائم رہا۔ ٹیکسلا سے جانب صلاح الدین فاروقی اور ان کے فرزند حافظ محمد معاویہ اور حافظ احمد علی شریک سفر ہوگئے اور اگلے سارے پروگرام میں ساتھ رہے۔

گڑھی افغاناں میں ہمارے پرانے دوست مولانا محمد صالح کے فرزند حافظ شفاء اللہ نے قرآن کریم حفظ مکمل کیا ہے، اس کی دستار بندی کی تقریب مرکزی جامع مسجد میں بعد نماز مغرب منعقد ہوئی جس میں علاقہ کے بہت سے بزرگ علماء کرام نے شرکت کی۔ مرکز حافظ الحدیث درخواستیؒ حسن ابدال میں اس سال دورہ حدیث کا آغاز ہوا ہے۔ حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کا ارشاد تھا کہ دورہ حدیث کے طلبہ کے ساتھ ایک نشست ہو جائے۔ ۳۱ اگست کو صبح اس کی تعمیل کی اور دورہ حدیث کے طلبہ سے حدیث نبویؐ کی حجیت و اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے اس امر کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی کہ یہ مرکز حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نام سے موسوم ہے۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ احادیث کے ایک بڑے ذخیرہ کے حافظ تھے اور ان کی زبان پر سفر و حضر اور خلوت و جلوت میں حدیث نبویؐ کا ہی تذکرہ رہتا تھا۔ حفظ حدیث کا یہ ذوق اب بہت کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر مرکز حافظ الحدیث سے اس ذوق کو دوبارہ زندہ کرنے کا آغاز ہو جائے تو ایک پرانی اور با برکت علمی روایت کا احیا ہو جائے گا اور حضرت درخواستیؒ کا ذوق بھی زندہ رہے گا۔

وہاں سے فارغ ہو کر حضرو کے علمی و دینی مرکز جامعہ اشاعت القرآن میں حاضری ہوئی جو حضرت مولانا عبد السلامؒ اور حضرت مولانا محمد صابرؒ کی یادگار ہے۔ علماء و طلبہ سے مختصر گفتگو کا موقع ملا اور ہم اکوڑہ خٹک کی طرف روانہ ہوگئے۔ جمعیۃ علماء اسلام (س) کے امیر حضرت مولانا سمیع الحق کے داماد محترم جناب شفیق الدین فاروقیؒ کی وفات پر ان کے فرزندوں اور حضرت مولانا موصوف سے تعزیت کی۔ وہیں اطلاع ملی کہ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق بھی تعزیت کے لیے آرہے ہیں۔ تھوڑی دیر میں وہ پہنچ گئے تو مولانا سمیع الحق صاحب کے ہمراہ ان کے ساتھ بھی اہم ملکی معاملات کے بارے میں ایک مشاورتی نشست ہوگئی۔

حضرو سے اکوڑہ جانے کے لیے ہمارے پرانے دوست اور ساتھی مولانا عبد الرؤف ربانی بھی ساتھ ہوگئے اور ایک طویل عرصہ کے بعد پرانی یادیں تازہ کرنے کا موقع ملا۔ اکوڑہ خٹک سے پشاور جانے کا ارادہ تھا تاکہ نشتر ہال میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت ہو جائے۔ مگر سراج الحق صاحب کے ساتھ خاصا وقت گزر جانے کے باعث اور کچھ پشاور کے اس دن کے حالات کے پیش نظر اکوڑہ سے واپسی کو ہی ترجیح دینا پڑی۔ مولانا عبد الرؤف ربانی کا تقاضہ تھا کہ واپسی پر بہبودی حاضری ہو جائے جو علاقہ چھچھ کا علمی دنیا میں ایک معروف مقام ہے۔ اس علاقہ سے ہماری عقیدت حضرت مولانا نصیر الدین غور غشتویؒ ، حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری، اور حضرت مولانا عبد القدیرؒ کے حوالہ سے تو تھی ہی، حضرت مولانا غلام ربانیؒ ، حضرت مولانا قاری سعید الرحمنؒ اور حضرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ کے ساتھ طویل جماعتی اور تحریکی رفاقت نے اس عقیدت و محبت کو دو آتشہ کر دیا ہے۔ چنانچہ مولانا عبد الرؤف ربانی کو انکار نہ کر سکا اور بہبودی کے دو اداروں میں حاضری کی سعادت حاصل کی۔ جامعہ علوم اسلامیہ میں مولانا قاری عبید الرحمن اور ان کے رفقاء کی میزبانی کا حظ اٹھایا جو کسی زمانہ میں امریکہ کے شہر اسٹاکٹن میں میرے میزبان رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ تبلیغی مرکز میں حاضری کا شرف حاصل کیا اور اساتذہ و طلبہ سے مختصر گفتگو کا موقع مل گیا۔

لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سارا سفر اصل میں پشاور کی ختم نبوت کانفرنس میں حاضری کے حوالہ سے ترتیب پایا تھا مگر اس میں شرکت نہ ہو سکی۔ البتہ آتے جاتے نصف درجن کے لگ بھگ اجتماعات میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوگیا۔

یہی معاملہ چناب نگر میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام سات ستمبر کو منعقد ہونے والی سالانہ ختم نبوت کانفرنس کے حوالہ سے پیش آیا۔ دو روز قبل اخبار میں خبر نظر سے گزر چکی تھی کہ جن علماء کرام کے کانفرنس سے خطاب کو ضلعی انتظامیہ نے ممنوع قرار دے رکھا ہے ان میں میرا نام بھی ہے۔ مگر ایک روز قبل وہاں سے فون پر اطلاع ملی کہ ڈی سی او سے اجازت لے لی گئی ہے اس لیے آجائیں۔ چنانچہ سات ستمبر کو مدرسہ کے اسباق سے فارغ ہو کر دارالعلوم گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا مفتی محمد ادریس کے ہمراہ روانہ ہوا۔ ہم نے شیخوپورہ کے قریب ہردیو کی مسجد بلال میں ایک مدرسہ کی تقریب میں شریک ہونا تھا اور وہاں سے مجھے چناب نگر جانا تھا۔ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے راہ نما مولانا الحافظ گلزار احمد آزاد نے فون پر بتایا کہ اجازت والی بات مشکل ہوگئی ہے، اس لیے و ہیں سے واپس گوجرانوالہ آگیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter