امریکہ میں پاکستانی دوستوں سے ملاقاتیں

   
۲۱ ستمبر ۲۰۰۷ء

پہلی بار ہیوسٹن جانے کا اتفاق ہوا، وہاں پاکستانی دوستوں کا خاصا بڑا حلقہ ہے اور متعدد دینی ادارے کام کر رہے ہیں۔ مدرسہ اسلامیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ گزشتہ تیس برس سے مصروفِ عمل ہے، قاری محمد ہاشم صاحب اور مولانا حافظ محمد اقبال صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ قاری صاحب موصوف تو پاکستان گئے ہوئے تھے، البتہ حافظ محمد اقبال صاحب کے ساتھ دو دن گزرے۔ ان کا تعلق چشتیاں سے ہے، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فضلاء میں سے ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ اس سال دورۂ حدیث میں شریک تھے جس سال حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ نے آخری بار بخاری شریف پڑھائی، گزشتہ تین عشروں سے امریکہ میں ہیں اور مدرسہ اسلامیہ ہیوسٹن میں خطابت و امامت کی ذمہ داریاں ان کے سپرد ہیں۔ بالٹی مور واشنگٹن کے ایئر پورٹ سے ہیوسٹن کی فلائیٹ ہیوسٹن تین گھنٹے کی ہے اور میرے جیسے مسافروں کو یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان سے مڈل ایسٹ کے کسی ملک میں جا رہے ہوں۔ مولانا حافظ محمد اقبال صاحب سے فون پر رابطہ ہوا تو انہوں نے دعوت دی کہ میں ان کے ہاں بھی حاضری دوں، چنانچہ میں نے ایک ویک اینڈ وہاں گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔

یکم ستمبر ہفتہ کو ہیوسٹن ٹیکساس کے ایئر پورٹ پر حافظ محمد اقبال صاحب کے ساتھ فیصل آباد کے دو دوست قاری خالد رشید اور قاری احمد صدیق بھی خوش آمدید اور پھر پیر کو الوداع کہنے کے لیے موجود تھے، یہ دونوں حضرات مدرسہ اسلامیہ میں قرآن کریم کی تحفیظ و تجوید کی خدمت سرانجام دیتے ہیں، میرا دو روز انہی کے ساتھ قیام رہا اور انہوں نے خوب خدمت کی، بلکہ قاری خالد رشید صاحب ہی میرے اس دورۂ ہیوسٹن کا باعث بنے۔ چند ہفتے قبل فیصل آباد کے کسی دینی مدرسہ کی تقریب ختمِ بخاری شریف میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے شکوہ کیا کہ آپ ہر سال امریکہ آتے ہیں، لیکن ہمارے پاس ہیوسٹن میں نہیں آتے، میں نے ان سے وعدہ کر لیا کہ اس سال کوشش کروں گا کہ آپ کے ہاں بھی حاضری ہو جائے۔

مدرسہ اسلامیہ کا ماحول اور کارکردگی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ زیادہ تعداد نمازیوں میں پاکستانیوں کی ہے، عرب بھی خاصے ہیں، اردو، عربی اور انگلش تینوں زبانیں چلتی ہیں، قرآن کریم کے حفظ و تجوید کی کلاسیں ہوتی ہیں اور حافظ محمد اقبال صاحب نے بتایا کہ اب تک ساٹھ سے زیادہ بچے اس درسگاہ سے قرآن کریم حفظ کر چکے ہیں۔ سکول کے بچوں کے لیے شام کی روزانہ کلاسیں الگ ہوتی ہیں، جبکہ حفظ قرآن کریم کی ریگولر کلاس معمول کے مطابق صبح سے شام تک ہوتی ہے۔ پیر کو جب صبح نو بجے کے لگ بھگ میں وہاں سے رخصت ہو رہا تھا تو حافظ صاحب مجھے ایک کلاس میں لے گئے، بچے اسی طرح کلاس میں تھے جیسے ہمارے ہاں پاکستان میں ہوتے ہیں۔ مجھے کہا گیا کہ میں ان بچوں سے کچھ خطاب کروں۔ میں نے عرض کیا کہ میں تو اردو یا پنجابی میں بات کر سکوں گا، کلاس کے انچارج قاری نے کہا کہ سب بچے اردو سمجھتے ہیں۔

میرا معمول ہے کہ مجھے بچوں سے گفتگو کا موقع ملتا ہے تو کوئی کہانی یا لطیفہ سنا دیتا ہوں، جس میں ان کے لیے کوئی سبق موجود ہو۔ امریکہ کے کئی اداروں میں بچوں کو کہانیاں اور لطیفے سنا چکا ہوں، لیکن ہیوسٹن کے مدرسہ اسلامیہ میں مجھ سے ایسے وقت میں فرمائش کی گئی کہ میری واپسی کی فلائیٹ کا وقت تنگ ہو رہا تھا، اس لیے صرف دعا پر اکتفا کرنا پڑا۔ البتہ دارالعلوم نیویارک میں چند روز قبل طلبہ کو جو لطیفہ سنایا اس میں قارئین کو شریک کر لیتا ہوں۔

طلبہ سے کہنا یہ مقصود ہوتا ہے کہ جس دین اور علم کے وہ پوری دنیا میں پھیلانے کی نیت رکھتے ہیں اور اس کا عزم کیے ہوئے ہیں وہ پہلے ان کے پاس آئے گا تو وہ دوسروں تک منتقل کر سکیں گے اور اگر خود ان کے پاس دین کا صحیح علم اور مکمل فہم موجود نہیں ہو گا تو دوسرے لوگوں کو کیا دیں گے؟ ظاہر بات ہے کہ ادھورا علم اور ناقص فہم آگے منتقل کریں گے تو خرابیاں پیدا ہوں گی اور اسی قسم کی خرابیوں کا ہمیں آج دنیا بھر میں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس سلسلہ میں لطیفہ یا کہاوت یہ ہے کہ خان صاحب نے پرانے زمانے میں کسی ہندو کو راستے میں سامنے سے آتے دیکھا تو دل میں خیال آیا کہ اسے مسلمان بنانا چاہیے۔ قریب آتے ہی اسے گریبان سے پکڑا اور مضبوط سا گھونسہ تانتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں بولے: ”کاپر کا بچہ! کلمہ پڑھتے ہو کہ نہیں؟“ اس نے خان صاحب کے تیور دیکھے تو سمجھ گیا کہ اب کلمہ پڑھتے ہی بنے گی، فوراً بولا خان صاحب! پڑھتا ہوں، مجھے کلمہ پڑھاؤ۔ خان صاحب نے شرمندگی کے ساتھ جواب دیا کہ ”خوچہ! کلمہ خود پڑھو، آتا مجھے بھی نہیں ہے۔“

طالب علم بچے اس لطیفے پر محظوظ بھی ہوتے ہیں اور انہیں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ محنت اور ذوق و شوق کے ساتھ علم حاصل کریں گے، دین سیکھیں گے تو علمِ دین کی بات صحیح طور پر آگے پہنچا سکیں گے، ورنہ ادھورے علم اور ناقص فہم کے ساتھ وہی حال ہو گا جو خان صاحب کا ہوا تھا۔

ہیوسٹن میں ”ایشیا سنٹر“ کے نام سے ایک اور ادارے میں بھی جانا ہوا جس کے انچارج مولانا حافظ نثار الحق ہیں، شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ کے رفقاء میں مولانا حافظ ظہور الحق ظہور خاصے معروف بزرگ ہیں، ”ماہنامہ تعلیم القرآن“ میں ان کی نظمیں ہم بھی ایک دور میں پڑھتے رہے ہیں، مذاہب کا تقابلی اور تعارفی مطالعہ ان کا مضمون رہا ہے، جس پر انہوں نے مقالہ بھی لکھا۔ اب چند سالوں سے ہیوسٹن میں ہیں اور ”ایشیا سنٹر“ کے عنوان سے دینی خدمات کا ایک نظم قائم کیے ہوئے ہیں۔ مجھے مدرسہ اسلامیہ میں ہفتہ کو اور ایشیا سنٹر میں اتوار کو مغرب کے بعد نمازیوں کے سامنے عمومی بیان کا موقع ملا۔ رمضان المبارک کی آمد آمد تھی، اس لیے قرآن کریم کے حقوق اور فہمِ قرآن کریم کے ضروری تقاضوں پر گفتگو کی۔

ایشیا سنٹر میں ہی ایک بہت پرانے دوست علامہ اختر کاشمیری سے ملاقات ہو گئی، جو میرے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی۔ ان سے میری ملاقات کم و بیش پچیس سال کے بعد ہوئی، وہ ایک دور میں لاہور کے دینی اور صحافتی حلقوں میں خاصے معروف تھے، گزشتہ صدی کا آٹھواں عشرہ انہوں نے خوب گہما گہمی میں گزارا، ہفت روزہ ”خدام الدین“ اور پھر ہفت روزہ ”چٹان“ کے مدیر رہے، لاہور کی ایک مسجد میں خطابت کے جوہر بھی دکھاتے تھے۔ اس زمانے میں لاہور کی دینی صحافت اور کسی حد تک قومی صحافت میں بھی دیوبندیت کے سیاسی فکر کے نمائندے کے طور پر مولانا محمد سعید الرحمٰن علوی مرحوم، مولانا اختر کاشمیری اور راقم الحروف پیش پیش ہوتے تھے، ہفت روزه ترجمان اسلام، ہفت روزہ خدام الدین اور ہفت روزہ چٹان ہمارے اپنے مورچے تھے، جبکہ قومی اخبارات و جرائد میں بھی کچھ نہ کچھ منہ مار لیا کرتے تھے، عجیب گہما گہمی، بلکہ چھینا جھپٹی کا دور تھا، نئے نئے فکری مورچے قائم کرنے اور محاذ آرائی کے نت نئے بازار گرم کرنے میں مسابقت ہوتی تھی، لیکن خود اپنی رائے اور سوچ رکھنے والے نظریاتی کارکنوں کے ساتھ جو کچھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ میں نے کچھ ڈھیٹ اور بے پروا قسم کا مزاج پایا ہے، اس لیے پنجابی محاورہ کے مطابق ”سر نیواں کر کے“ ساتھ ساتھ چلنے کی اب تک کوشش کر رہا ہوں، مگر حالات کی نامساعدت نے ہمارے ان دونوں دوستوں کو محاذ آرائی کے میدان سے کنارہ کشی پر مجبور کر دیا۔ مولانا محمد سعید الرحمٰن علوی مرحوم شاہ جمال لاہور کی ایک مسجد میں گوشہ نشین ہو گئے اور ایک محدود علمی دائرے میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہوئے بالآخر دنیا سے ہی منہ موڑ گئے، جبکہ مولانا اختر کاشمیری ایسے غائب ہوئے کہ ایک عرصے تک ان کی خیر خیریت کی خبر بھی نہ مل سکی۔

۱۹۸۷ء کے بعد میرا امریکہ آنا جانا شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ یہیں کسی جگہ فروکش ہیں اور محنت مزدوری کرتے ہیں، مگر دوستوں سے قطعی طور پر لاتعلق ہیں، کہیں آنا جانا نہیں ہے اور نہ ہی کسی سے ملنا پسند کرتے ہیں۔ بہت سے دوستوں سے دریافت کرنے کے باوجود ان کا ایڈریس یا فون وغیرہ معلوم نہ کر سکا، البتہ جب اس سال یکم ستمبر کو ہیوسٹن پہنچا تو حافظ محمد اقبال نے کسی حوالہ سے ان کا تذکرہ کر دیا، میں نے بے ساختہ پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ بتایا کہ یہاں سے کم و بیش اڑھائی سو میل کے فاصلے پر ڈلاس نامی شہر میں رہائش پذیر ہیں۔ حافظ صاحب کے پاس ان کا فون نمبر موجود تھا، میں نے فون پر رابطہ کیا تو یہ معلوم ہونے پر بہت خوش ہوئے کہ میں ہیوسٹن آیا ہوا ہوں، ڈلاس آنے کی دعوت دی تو میں نے معذرت کی کہ اس سفر کے شیڈول میں گنجائش نہیں ہے۔ کہنے لگے کہ پھر میں آ رہا ہوں، ابھی چل پڑنے کو جی چاہ رہا ہے، مگر شام کو کچھ مہمان آ رہے ہیں اس لیے کل آؤں گا۔ چنانچہ اتوار کو وہ ایشیا سنٹر ہیوسٹن میں تشریف لائے اور رات گئے تک ان کے ساتھ گپ شپ رہی، پرانی یادیں تازہ کرتے رہے اور گزرے دنوں کا تذکرہ ہوتا رہا۔ لہجے کی کاٹ بدستور قائم ہے اور جملوں کی تندی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا، مگر مجھے بار بار یہ احساس تنگ کرتا رہا کہ خلوص، صلاحیتوں، وسیع معلومات اور جارحانہ پیش قدمی کے ذوق کا یہ امتزاج اس قدر خاموشی کے ساتھ امریکہ کے ایک دور دراز شہر میں آخر کیسے خود ساختہ ”گوشہ نشینی“ اختیار کیے ہوئے ہے؟ یہ بتا کر مجھے تھوڑا سا خوش کیا کہ نیویارک سے ”ایشیا ٹربیون“ کے نام سے ایک ہفتہ وار جریدہ کا آغاز ہوا ہے، جس کی ادارتی ٹیم میں وہ شامل ہیں اور انہوں نے ”ابو نمرہ“ کے نام سے اس میں باقاعدہ کالم لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔ ”ایشیا ٹربیون“ اردو اور انگلش دونوں زبانوں میں شائع ہو رہا ہے، اس کے چند شمارے میں نے دیکھے ہیں اور مجھے نیویارک اور ہیوسٹن سے شائع ہوئے نصف درجن کے لگ بھگ ہفت روزوں میں اس حوالہ سے ”ایشیا ٹربیون “زیادہ اچھا لگا ہے کہ اس میں اشتہارات اور معلوماتی مواد کے درمیان کسی حد تک توازن موجود ہے اور مضامین کے انتخاب کی ترجیحات بھی بہتر ہیں۔

ہیوسٹن میں ایک اور پرانے دوست حافظ عبد الوحید ایڈووکیٹ سے بھی ملاقات ہوئی جو سوہدرہ وزیر آباد کے معروف اہلحدیث عالم دین مولانا عبد المجید سوہدری کے فرزند اور شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے نواسے ہیں۔ ایک عرصہ تک جمعیت علماء اسلام تحصیل وزیر آباد کے سیکرٹری جنرل رہے ہیں، تحصیل کچہری میں وکالت کرتے تھے، اب کئی برسوں سے ہیوسٹن میں کتابوں کی اشاعت کے علمی ادارہ ”دارالسلام“ کی مقامی شاخ کے سربراہ ہیں۔ معلوم ہوا تو میری قیام گاہ پر تشریف لے آئے اور کچھ دیر ملاقات رہی۔

ہیوسٹن میں امریکہ کے خلائی تحقیقاتی ادارے ”ناسا“ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے، مجھے معلوم ہوا تو میں نے اپنے میزبانوں سے اسے دیکھنے کی فرمائش کر دی۔ قاری خالد رشید اور قاری احمد صدیق نے کہا کہ ہم نے بھی ابھی تک نہیں دیکھا، چنانچہ وہاں چلنے کا پروگرام بن گیا۔ ناسا کے قریب ہی فیصل آباد کے ایک دوست ڈاکٹر عبد الغفور صاحب ہیں، جو کسی میڈیسن کمپنی میں کام کرتے ہیں، تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، ان سے رابطہ کیا تو وہ بھی ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ان کے ہاں اتوار کو دوپہر کا کھانا کھایا، قریب کی ایک مسجد میں ظہر کی نماز پڑھی اور ناسا کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گئے۔ یہ امریکہ کا خلائی تحقیقات کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور یہیں سے خلا میں شٹل وغیرہ بھیجے جاتے ہیں، انہوں نے اسے سیاحوں اور دلچسپی رکھنے والوں کے لیے میوزیم کے طور پر اس انداز سے سیٹ کر رکھا ہے کہ کام بھی بدستور چلتا رہتا ہے اور لوگ آ کر اس کے مختلف شعبوں کا معائنہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ غالباً پندرہ ڈالر فی کس ٹکٹ ہے، ٹرام طرز کی ایک لمبی بس ہیڈ کوارٹر کے مختلف علاقوں تک لے جاتی ہے اور اہم مقامات پر بریفنگ کا بھی اہتمام ہے۔

ہم نے ایک خلائی شٹل کے کاک پٹ میں داخل ہو کر اس کا اندرونی منظر دیکھا، دائیں بائیں نیچے اوپر ہر طرف سوئچ ہی سوئچ تھے اور ہم حیران ہو رہے تھے کہ ان سینکڑوں سوئچوں کے کام کو ہر وقت یاد رکھنا اور بروقت ضرورت کے مطابق سوئچ کو استعمال کرنا ہی بذات خود بہت بڑی ذہانت، حاضر دماغی اور مہارت کا کام ہے۔ ہمیں خلائی شٹل کو نیچے سے کنٹرول کرنے والا مرکز بھی دکھایا گیا۔ اس دن اتوار تھا اور دفتر میں عملاً کام نہیں ہو رہا تھا، مگر مختلف ٹیبل اور آلات وغیرہ دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ کس مستعدی اور تکنیکی مہارت کے ساتھ کام ہوتا ہو گا۔ ہمیں صدر جان ایف کینیڈی کی ایک تقریر کا کچھ حصہ سنایا گیا جس میں انہوں نے ۱۹۶۱ء میں اسی مقام پر کہا تھا کہ ہم خلا میں قدم رکھ رہے ہیں اور اس عشرہ کے اختتام تک چاند پر پہنچنا چاہتے ہیں، چنانچہ ۱۹۶۹ء میں امریکہ کا اپالو II چاند پر اتر چکا تھا۔

خلائی تحقیقات آج کے انسان کی تکنیکی معراج ہے اور امریکہ اس میں بلاشبہ نسلِ انسانی کی قیادت کر رہا ہے، مگر یہ بات میرے ذہن میں مسلسل گردش کر رہی ہے کہ مغرب نے خلا کی بے انتہا وسعتوں تک رسائی کا راستہ تو تلاش کر لیا جو بہت بڑا کمال ہے، لیکن اگر ان وسعتوں کے خالق تک رسائی کی بھی کوئی صورت نکال لی جائے تو پوری دنیا کا نقشہ بدل جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter