چاند کا مسئلہ: مشترکہ دینی قیادت کی آزمائش

   
۲۱ نومبر ۲۰۰۳ء

رؤیت ہلال کا مسئلہ اس سال قومی سطح پر متنازعہ صورت اختیار کرنا نظر آرہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر اس مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی فوری کوشش نہ کی گئی تو عید الفطر کے موقع پر یہ خلفشار وسیع تر صورت اختیار کر جائے گا اور قوم متفقہ یا کم از کم اکثریتی عید کے ثواب و لطف سے محروم ہو جائے گی۔

اب سے ربع صدی قبل بلکہ اس سے بھی پہلے ہمارے طالب علمی کے دور میں یہ صورتحال عام طور پر پیش آ جاتی تھی کہ چاند کی رؤیت کے مسئلہ پر اختلاف ہو جاتا تھا اور بسا اوقات ایک شہر میں دو دن الگ الگ عید منائی جاتی تھی۔ رؤیت ہلال یا چاند کے اعلان کے سرکاری نظام پر اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے عام طور پر علماء کرام سرکاری اعلان پر بھروسہ کرنے کی بجائے چاند کی رؤیت اور اعلان کا خود اہتمام کرتے تھے، مسلکی و علاقائی رجحانات بھی اس کا باعث بن جایا کرتے تھے کہ ایک دوسرے کے اعلان پر اعتماد کرنے پر علیحدہ اہتمام کو ترجیح دی جاتی تھی اور رمضان اور عید باہمی اختلاف کا شکار ہو جاتے تھے۔

ایک بار ایسا بھی ہوا کہ عید کے سرکاری اعلان کو قبول نہ کرنے پر مولانا سید ابوالاعلٰی مودودیؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ اور مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ جیسے اکابر علماء کرام گرفتار کر لیے گئے اور انہیں کم و بیش ایک ماہ جیل میں رہنا پڑا۔ اس کے بعد علماء کرام کے اس مطالبے کو تسلیم کر لیا گیا کہ رؤیت ہلال کا نظام تمام مکاتب فکر کے سرکردہ اور نمائندہ علماء کرام کی ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے اور حکومت اس کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد کی ذمہ داری قبول کرے۔ مختلف مکاتب فکر کے ذمہ دار حضرات کو مشورہ میں شریک کرنے کی روایت قائم ہوئی اور بڑے بڑے علماء کرام کی موجودگی کی وجہ سے آہستہ آہستہ اعتماد کی یہ فضا قائم ہوتی گئی کہ ملک کے اکثر حصوں میں رؤیت ہلال کا کوئی متبادل انتظام کرنے کی بجائے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو قبول کیا جانے لگا اور خوشگوار صورت سامنے آنے لگی کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کو اس سلسلے میں فیصلہ کن اور مجاز اتھارٹی کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اگرچہ اس کے بعد بھی چند مخصوص علاقوں میں اس سے الگ عمل ہوتا رہا مگر مجموعی طور پر رمضان المبارک، عید الفطر اور عید الاضحی کا تعین متفقہ طور پر ہونے لگا۔

مگر اس سال اعتماد و اتحاد کی یہ فضا مجروح ہوتی دکھائی دی رہی ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق حالات و واقعات کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ ۲۶ اکتوبر اتوار کو مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمن کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں کمیٹی کے مستقل ارکان میں سے ان کے علاوہ صرف ۳ ارکان مولانا حسن جان آف پشاور، جناب شبیر احمد کاکاخیل، اور قاری عبد الرشید آف کوئٹہ شریک تھے۔ ساڑھے سات بجے تک کسی جگہ سے چاند نظر آنے کی اطلاع موصول نہ ہونے پر کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمان نے طے کیا کہ چاند نہ آنے کا اعلان کر دیا جائے۔ جبکہ کمیٹی کے دیگر شرکاء نے رائے دی کہ ابھی حتمی اعلان نہ کیا جائے بلکہ کچھ مزید انتظار کر لیا جائے، مگر چیئرمین نے اس رائے کو قبول نہ کرتے ہوئے ساڑھے سات بجے ریڈیو اور ٹی وی پر اعلان کر دیا کہ ملک کے کسی حصے سے چاند دیکھے جانے کے اطلاع نہیں ملی اس لیے رمضان المبارک کا آغاز پیر کی بجائے منگل ۲۸ اکتوبر کو ہو گا۔

اس کے بعد چیئرمین اور قاری عبد الرشید وہاں سے روانہ ہوگئے جبکہ دوسرے دو ارکان مولانا حسن جان اور شبیر احمد کاکاخیل وہیں بیٹھے رہے، ان کا خیال تھا کہ اگر اس کے بعد کوئی شہادت یا اطلاع موصول ہو تو وہ چیئرمین سے گزارش کر کے کمیٹی کا دوبارہ اجلاس طلب کر لیں گے۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا کہ اس کے بعد مختلف اطراف سے شہادتیں اور اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں، اس دوران پشاور سے شہادتیں موصول ہوئیں جن پر ان دونوں حضرات نے قناعت نہیں کی، مگر بنوں، ہنگو، پنچ پیر، کوئٹہ اور پشین سے اطلاعات موصول ہوئیں کہ ان مقامات پر چاند دیکھا گیا اور علماء کرام نے شرعی بنیاد پر شہادتیں لی ہیں، تو مولانا محمد حسن جان اور جناب شبیر احمد کاکاخیل نے مولانا مفتی منیب الرحمن سے رابطہ کیا اور وہ تشریف لے آئے۔ مگر انہوں نے ان اطلاعات اور شہادتوں کو قبول کرنے کی بجائے سابقہ فیصلہ پر قائم رہنا مناسب سمجھا اور فرمایا کہ وہ اپنے اعلان پر قائم ہیں ان نئی اطلاعات اور شہادتوں کی بنیاد پر جو حضرات پیر کو روزہ رکھنا چاہیں رکھ لیں۔

یہ ہے اس اختلاف کا نقطہ آغاز جس کے بعد رمضان المبارک کے چاند کے بارے میں اختلافی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو بڑھتے بڑھتے اس مرحلہ تک پہنچ گیا کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے رکن شیخ الحدیث مولانا حسن جان نے کمیٹی کی رکنیت سے احتجاجاً استعفی دے دیا ہے اور کراچی کے سرکردہ علماء کرام نے رؤیت ہلال کمیٹی کے سلسلہ میں کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمن کے اعلان پر شک کا اظہار کرتے ہوئے ایک اعلامیہ میں عوام کو مشورہ دیا ہے کہ جن لوگوں نے پیر کو روزہ نہیں رکھا وہ عید کے بعد احتیاطاً یہ روزہ قضا کریں اور اعتکاف بھی ایک روز پہلے شروع کیا جائے۔ ایک قومی روزنامہ میں شائع ہونے والے بیان کے مطابق مولانا حسن جان نے تین باتوں کو اپنے احتجاجی استعفٰی کی بنیاد بنایا ہے۔

  1. ایک یہ کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین نے کمیٹی کے دوسرے ارکان کی رائے کو درخوراعتنا نہیں سمجھا اور اپنے ذاتی فیصلے پر اڑے رہے۔
  2. دوسری یہ کہ وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد کا بیان بھی خاصا توہین آمیز تھا۔
  3. تیسری یہ کہ وفاقی وزیر مذہبی کے سیکرٹری کا یہ اخباری بیان ہتک آمیز ہے کہ ’’سابقہ فیصلہ تبدیل کرانا شرارت پسند عناصر کی طرف سے تھا‘‘۔

مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمن کا جو موقف اخبارات کے ذریعے سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ صوبہ سرحد کی حکومت نے رؤیت ہلال کمیٹی کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی، انہوں نے غیر متعلقہ لوگوں اور وزراء کو اجلاس میں بٹھایا جو سراسر غلط تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی مقرر کردہ کمیٹی کے فیصلے کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور اس کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا جا رہا ہے، اس طرح حکومت نے کمزوری دکھائی تو پھر کسی فیصلے پر بھی عمل نہیں کرایا جا سکے گا۔ کمیٹی کا اجلاس پشاور میں کرانا درست نہ تھا کیونکہ وہاں ایم ایم اے کی حکومت نے اپنی من مانی کرائی اور اس مقصد کے لیے پولیس کو استعمال کیا گیا۔ انہوں نے اسلام آباد سے ہدایات لینے کی بات میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے اور رؤیت ہلال کمیٹی کے دیگر ارکان کی مخالفت کی بات بھی سراسر الزام تراشی ہے، فیصلہ پر ان لوگوں کے دستخط موجود ہیں، کیا ان سے ڈنڈے کے زور پر دستخط کرائے گئے تھے؟

اس صورتحال میں کراچی کے سرکردہ علماء کرام بالخصوص دارالعلوم کراچی کے سربراہ مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے اس کوشش کا آغاز کیا ہے کہ مسئلہ کو زیادہ بگڑنے سے روکا جائے اور باہمی مصالحت کی صورت نکال لی جائے۔ انہوں نے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمن سے رابطہ کیا کہ باہم مل بیٹھ کر کوئی متفقہ راستہ اختیار کر لیا جائے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ دبئی جا رہے ہیں واپسی پر دیکھیں گے۔ دوبئی سے واپسی پر ان سے دوبارہ رابطہ کیا گیا تو بھی باہمی ملاقات و مشاورت کی کوئی صورت طے نہ ہو سکی۔ اس پر جسٹس (ر) مفتی محمد تقی عثمانی نے متحدہ مجلس عمل کے سربراہ احمد شاہ نورانی سے بات کی اور یہ مشورہ ہوا کہ ۱۱ نومبر کو تراویح کے بعد مولانا نورانی کی قیام گاہ پر مشترکہ اجلاس ہو جائے جس میں مولانا مفتی منیب الرحمن سے بھی شرکت کی گزارش کی جائے۔ مگر یہ اجلاس بھی منعقد نہ ہو سکا اور اس کے بعد دارالعلوم کراچی میں علمائے کرام کے اجلاس میں یہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ

’’ہم پاکستان کے مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس مرتبہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اختلافی اور مبہم فیصلے کی وجہ سے ۲۶ اکتوبر کو چاند نظر آنے یا نہ آنے کے بارے میں صورتحال کم از کم مشکوک ضرور ہو گئی ہے، لہٰذا جن حضرات نے پیر ۲۷ اکتوبر کو روزہ نہیں رکھا وہ احتیاطاً ایک روزہ کی قضا کر لیں اور احتیاطاً اعتکاف ۱۵ نومبر کی شام سے شروع کر دیا جائے۔‘‘

اب تک حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر واقعات کی ترتیب کا مختصرًا تذکرہ کرنے کے بعد راقم الحروف اس سلسلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ اس سارے تنازع میں اختلاف کے تین بنیادی نکات سامنے آئے ہیں:

  1. مولانا مفتی منیب الرحمن کا ارشاد ہے کہ ۲۶ اکتوبر کو چاند نظر نہ آنے کا ان کا اعلان کمیٹی کا فیصلہ ہے جس کی تعمیل لازمی ہے، اس سے علمائے کرام کو اختلاف نہیں کرنا چاہیے اور حکومت کو اس پر عملدرآمد کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جبکہ اختلاف رکھنے والے علماء کا موقف یہ ہے کہ چاند نظر نہ آنے کا فیصلہ صرف چیئرمین کا تھا جو ان کا ذاتی فیصلہ ہے اور کمیٹی کے دیگر ارکان ان سے متفق نہیں تھے اس لیے اسے کمیٹی کا فیصلہ قرار دے کر واجب التعمیل کہنا درست نہیں ہے۔
  2. مفتی منیب الرحمن کو شکایت ہے کہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت نے رؤیت ہلال کے مسئلہ میں مداخلت کی ہے اور فریق کا کردار ادا کیا ہے جو درست نہیں ہے۔
  3. مولانا حسن جان کا ارشاد ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات اور سیکرٹری امور مذہبی نے ایک خالص دینی اور علمی مسئلے پر طعن و تشنیع کے انداز میں بیان بازی کر کے علمائے کرام کی توہین کی ہے جو ناقابل برداشت ہے۔

ہمارے خیال میں مسئلہ کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہیے اور سنجیدہ حلقوں کو اس معاملہ میں مداخلت کر کے باہمی اتفاق رائے کی کوئی صورت نکال لینی چاہیے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد اور صوبہ سرحد کے وزیر امور مذہبی حافظ اختر علی کے جو بیانات اخبارات میں آئے ہیں وہ ہمارے نزدیک تشویشناک ہیں، اس لیے کہ وفاقی حکومت اور سرحد حکومت کے درمیان یا وفاقی حکومت اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان معاملات جس انداز میں چل رہے ہیں اس سے خطرہ ہے کہ رمضان اور عید کے مسائل کہیں سیاسی جھگڑوں کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ؛

  • اس مسئلہ کو مسلکی تفریق اور سیاسی جھگڑوں سے بالاتر رکھنا ضروری ہے، اور
  • رمضان المبارک کے چاند کے سلسلہ میں کمیٹی کے چیئرمین کے فیصلے پر اہل علم کو علمی بنیاد پر جو اشکال ہے، اس کا ازالہ بھی ضروری ہے۔

ہمارے خیال میں اگر مولانا احمد شاہ نورانی، مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد، پروفیسر ساجد میر، اور مولانا سمیع الحق باہمی مشاورت کے ساتھ مداخلت کریں اور فریقین کو اپنے ساتھ بٹھا کر کسی متفقہ فیصلے پر لانے کی کوشش کریں تو عید کے موقع پر قوم کو کسی وسیع تر خلفشار سے بچایا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter