حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ

   
۲ مئی ۲۰۰۲ء

گزشتہ روز ایک قومی اخبار کے آخری صفحہ پر چھوٹے سے چوکھٹے میں یہ خبر نظر سے گزری کہ افغانستان کے بزرگ عالم دین مولوی محمد نبی محمدیؒ انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اسے نیرنکئی زمانہ کا کرشمہ کہیے یا گردشِ حالات کا نتیجہ کہ مولوی محمد نبی محمدیؒ جیسے بزرگ عالم دین کی وفات پر چند سطروں کی ایک خبر کے بعد قومی پریس میں مکمل خاموشی کی کیفیت طاری ہے۔ ورنہ اگر یہی بات اچھے دنوں میں ہوتی تو نہ صرف افغانستان میں قومی سطح پر ان کا سوگ منایا جاتا بلکہ پاکستان میں بھی کئی دنوں تک ان کی خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ رہتا۔

مولوی محمد نبی محمدیؒ کا تعلق افغانستان کی ولایت لوگر سے تھا اور وہ بلاشبہ اپنے دور میں افغانستان کے سرکردہ، ذہین ترین اور مدبر علماء میں سرفہرست تھے۔ مولوی محمد نبی محمدیؒ ان علماء میں سے تھے جنہوں نے افغانستان میں روسی اثرات کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی فکری مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور کمیونزم کے اثر و نفوذ سے افغانستان کو بچانے کے لیے سرگرم عمل ہوگئے۔ وہ روسی افواج کی باقاعدہ آمد سے قبل اپنے علاقہ سے افغان پارلیمنٹ کے ممبر تھے اور ایوان میں ببرک کرمل کے ساتھ اسلام اور کمیونزم کے حوالہ سے ان کے طویل پارلیمانی مباحثے افغان تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ ان مباحثوں کی ایک مطبوعہ رپورٹ مولوی محمد نبی محمدیؒ نے خود مجھے ایک ملاقات میں دی تھی جن کا بیشتر حصہ پشتو یا فارسی میں ہونے کی وجہ سے میں ان سے پوری طرح استفادہ تو نہ کر سکا لیکن ایک تاریخی دستاویز کے طور پر وہ رپورٹ اب بھی میری فائلوں میں محفوظ ہوگی۔

مولوی صاحبؒ جید اور پختہ کار عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کے اتار چڑھاؤ کو سمجھنے والے زیرک راہنما اور حق بات کھلے بندوں کہنے اور حق کی خاطر عملی جدوجہد کے حوصلہ سے بہرہ ور لیڈر بھی تھے۔ مجھے ان سے کئی بار ملنے کا موقع ملا اور تفصیلی گفتگو ہوئی۔ صحیح بات یہ ہے کہ افغانستان کے جتنے علماء سے بھی اب تک ملا ہوں ان میں سب سے زیادہ مولوی محمد نبیؒ کی فہم و فراست اور معاملہ فہمی نے مجھے متاثر کیا۔ اور میں اپنے دوستوں کے حلقہ میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں ’’افغانستان کا مفتی محمودؒ‘‘ کہا کرتا تھا۔ وہ افغانستان میں روسی اثر و نفوذ کے خلاف شروع سے متحرک تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ’’حرکت انقلاب اسلامی‘‘ کے نام سے جماعت قائم کی تھی جو ایک دور میں افغانستان میں علماء کی سب سے بڑی جماعت تھی۔ وہ اگر روسی فوجوں کی واپسی اور مجاہدین کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد پروفیسر برہان الدین ربانی اور انجینئر حکمت یار کا راستہ روکنے کو ہی اپنا واحد ہدف قرار دینے کی بجائے امن کا ماحول فراہم کر کے عام انتخابات کی کوئی صورت نکال لیتے تو میرا اندازہ تھا کہ اس وقت مولوی محمد نبی محمدیؒ کی ’’حرکت انقلاب اسلامی‘‘ اور انجینئر حکمت یار کی ’’حزب اسلامی‘‘ افغانستان کی دو سب سے بڑی پارٹیوں کی حیثیت سے سامنے آتیں۔ لیکن قدرت کو ایسا منظور نہ تھا اور کابل کے کنٹرول پر احمد شاہ مسعود اور حکمت یار کی جنگ نے حالات کا رخ ایسا پلٹا کہ آج نہ صرف افغانستان بلکہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کا سارا منظر تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔

مولوی محمد نبی محمدیؒ کو میں نے پہلی بار اس وقت دیکھا جب وہ دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی قافلہ کے ساتھ بھارت گئے۔ یہ قافلہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں تھا جبکہ مولوی محمد نبی محمدیؒ ایک عام فرد کے طور پر قافلہ میں شامل تھے جو خاموشی کے ساتھ گئے اور تقریبات میں شرکت کے بعد خاموشی کے ساتھ واپس آگئے۔ اس کے بعد مجھے ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے ایڈیٹر کی حیثیت سے پشاور میں مولوی محمد نبی محمدیؒ کے ہیڈکوارٹر میں ان سے تفصیلی انٹرویو کا موقع ملا جس میں افغانستان کی تاریخ، افغان معاشرہ میں علماء کے کردار، کمیونزم و لبرل ازم کے فروغ، روسی اثرات کے نفوذ، افغان علماء و عوام کے جہاد، آزادی اور افغانستان کے مستقبل کے حوالہ سے کئی گھنٹے گفتگو ہوئی۔

میں بہت سے افغان لیڈروں اور علماء سے ملا ہوں اور ان سے گفت و شنید کی ہے لیکن مولوی محمد نبی محمدیؒ جیسی معاملہ فہمی کسی اور میں نہیں دیکھی۔ حتیٰ کہ میرے نزدیک ان کی یہی انتہا درجہ کی معاملہ فہمی بہت سے مواقع پر ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئی تھی۔ مولوی صاحب کے ساتھ اس کے بعد بھی بہت سی ملاقاتیں ہوئیں اور قندھار پر طالبان کے قبضہ کے بعد جب مجھے قندھار جانے کا موقع ملا اس وقت تک کابل طالبان کے قبضہ میں نہیں آیا تھا اور احمد شاہ مسعود کے ساتھ طالبان حکومت کے مذاکرات کی تجویز ہو رہی تھی۔ تب مولوی محمد نبی محمدیؒ اور مولوی محمد یونس خالص بھی قندھار میں تھے۔ میں ان سے ملا اور اس حوالہ سے گفتگو ہوئی، مولوی صاحبؒ کا موقف یہ تھا کہ ربانی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی ضرورت تو ہے لیکن حالات جس رخ پر جا رہے ہیں اس کی روشنی میں یہ نتیجہ خیز نہیں ہوگی۔ میں نے امیر المؤمنین ملا محمد عمر سے بھی مختصر ملاقات میں اس کا تذکرہ کیا، ان کا مختصر ترین جواب دو لفظوں میں تھا کہ ’’فائدہ نہیں ہے۔‘‘

اس وقت میرا تاثر یہ تھا کہ مولوی محمد نبی محمدیؒ اور مولوی محمد یونس خالص ’’طالبان انقلاب‘‘ کے خاموش سرپرستوں میں سے ہیں اور طالبان کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں۔ لیکن ان دو بزرگ ترین شخصیات کو نئے نظام میں جو مقام ملنا چاہیے وہ انہیں نہیں مل رہا جس کے اثرات ان دونوں بزرگوں کی گفتگو میں بھی بین السطور محسوس ہو رہے تھے۔ طالبان راہنماؤں کے تقویٰ، خلوص، دیانت، ایثار، قناعت اور بہت سے حوالوں سے طالبان حکومت کی شاندار کامیابی کے باوجود فطری طور پر تصویر کا دوسرا رخ بھی موجود تھا اور ایسی کوتاہیوں او رکمزوریوں کی موجودگی بھی ناگزیر تھی جو ان کی فطرت کا حصہ ہیں۔ میں اس سلسلہ میں تفصیل کے ساتھ لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں جس میں اس پہلو پر بھی گزارشات پیش کروں گا۔ البتہ اس موقع پر صرف اتنی بات عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ طالبان قیادت اپنی صفوں سے باہر اپنے بہی خواہوں اور معاونین کی درجہ بندی نہیں کر سکی کہ کس کو کس مقام پر رکھنا ضروری ہے اور کس سے کیا کام لیا جا سکتا ہے۔ طالبان قیادت اپنے دوستوں اور بہی خواہوں کے جذبات، وسائل اور خدمات سے صحیح طور پر استفادہ نہیں کر سکی جس کا اسے بہرحال نقصان ہوا۔ اور یہی بات مولوی محمد نبی محمدیؒ اور مولوی محمد یونس خالص کے حوالہ سے مجھے مسلسل کھٹکتی رہی۔

مولوی محمد نبی محمدیؒ سے میں پاکستانی علماء کے اس وفد کے ساتھ بھی ملا جو عبوری صدر پروفیسر صبغۃ اللہ مجددی سے ملاقات اور انہیں مجاہدین کی حکومت کے قیام پر مبارک باد دینے کے لیے کابل گیا تھا۔ اس وقت مولوی محمد نبی محمدیؒ کو مجددی صاحب کے نائب کی حیثیت حاصل تھی۔ سابق حکمران پارٹی کا ہیڈکوارٹر ان کی تحویل میں تھا جسے انہوں نے ’’حرکت انقلاب اسلامی‘‘ کے ہیڈکوارٹر کی حیثیت دے دی تھی۔ اور سیاسی معاملات میں ان کی ٹیم اور پارٹی سب سے زیادہ متحرک دکھائی دے رہی تھی۔ پاکستانی علماء سے اسی ہیڈکوارٹر میں ان کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے مفصل گفتگو کے بعد بہت سے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ اس وقت میرا تاثر یہ تھا کہ مجددی حکومت کے داخلی معاملات پر مولوی محمد نبی محمدیؒ کا کنٹرول بڑھ رہا ہے اور وہ افغانستان کے مستقبل اور نئے نظام کے بارے میں بھی ایک واضح ذہن اور پروگرام رکھتے ہیں۔ وہ جس اعتماد کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے اور مستقبل کے نقشہ کے حوالہ سے جو خطوط واضح کر رہے تھے اس میں میں میرے جیسے سیاسی کارکن کے لیے اطمینان اور تسلی کا بہت سا مواد موجود تھا۔ اور میں ذاتی طور پر اس اطمینان کے ساتھ ہی واپس آرہا تھا کہ افغانستان اب ایک متوازن اسلامی سیاسی نظام اور مستحکم حکومت کی طرف پیش رفت کرے گا اور افغانستان کی تعمیر نو اور اسلامی حیثیت کی بحالی کے عمل کا آغاز ہوجائے گا۔ لیکن اسی روز کابل میں ’’حزب وحدت‘‘ اور ’’اتحاد اسلامی‘‘ کے درمیان شدید گولہ باری سے نئی خانہ جنگی کا دور شروع ہوگیا جس نے ان توقعات اور امیدوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔

مولوی محمد نبی محمدیؒ بیاسی سال کی عمر میں وفات پا چکے ہیں اور ان کی موت کی خبر پڑھ کر ماضی کی یادوں کا ایک طویل اور متنوع سلسلہ ذہن کی سکرین پر یکے بعد دیگرے ابھر رہا ہے۔ مجھے مولوی صاحبؒ کی وفات کے غم کے ساتھ ساتھ یہ غم بھی ستا رہا ہے کہ ان کے علم و فضل، فہم و تدبر اور حکمت و دانش سے دشمنوں نے ضرو ر زک اٹھائی مگر ان کے دوست کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور افغانستان کے بارے میں ان کی نیک تمناؤں اور آرزوؤں کی تکمیل کی کوئی سبیل پیدا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter