چودھواں آئینی ترمیمی بل اور سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام

   
۱۴ جولائی ۱۹۹۷ء

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے دستور میں ترمیم کا چودھواں بل منظور کر لیا ہے جس کے تحت اسمبلیوں کے ارکان کی ’’فلور کراسنگ‘‘ پر پابندی لگا دی گئی ہے، اور اب اگر کسی رکن اسمبلی نے اس سیاسی جماعت سے علیحدگی اختیار کی یا اس کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی جس کے ٹکٹ پر وہ منتخب ہوا ہے یا جس میں اس نے باضابطہ شمولیت اختیار کی ہے، تو وہ اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہو جائے گا۔ اس بل کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ فلور کراسنگ پر آئینی طور پر پابندی لگنے کے بعد ملک میں ’’لوٹا کریسی‘‘ کا خاتمہ ہو جائے گا اور محلاتی سازشوں کے ذریعے بار بار حکومتوں کی تبدیلی اور ملک میں سیاسی عدمِ استحکام کا جو رجحان گزشتہ نصف صدی کے دوران مسلسل پرورش پاتا رہا ہے ان سے نجات مل جائے گی، جس سے حکومتیں اعتماد کے ساتھ اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو سکیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں اس بل کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے اور حکومتوں کی بار بار تبدیلی سے تنگ آئی قوم نے کسی حد تک اطمینان کا سانس بھی لیا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی عدمِ استحکام کی ایک بڑی وجہ یہی رہی ہے اور ہم نے ارکان اسمبلی کی وفاداریوں میں تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں حکومتوں کے بننے اور بگڑنے کے کئی مکروہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اور اس عملِ بد نے قومی سیاست میں کرپشن، بدعنوانی اور نااہلیت کے عناصر کو اس قدر پروان چڑھایا ہے کہ اب ان سے جان چھڑانے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ ہر حکومت کے لیے اپنے ارکان اسمبلی کو اپنے ساتھ رکھنا سب سے بڑا مسئلہ بنا رہا ہے اس کے لیے بھاری رقوم خرچ ہوتی رہی ہیں، ان ارکان اسمبلی کو سرکاری ملازمتوں کے کوٹے الاٹ ہوتے رہے ہیں، ان کی عیاشی کے سامان فراہم کیے جاتے رہے ہیں، ان کے جرائم کی پردہ پوشی ناگزیر تصور کی جاتی رہی ہے، حتیٰ کہ اپنے اپنے علاقہ میں انہیں انتظامیہ پر مکمل گرفت اور فری ہینڈ دیا جاتا رہا ہے، جس سے ملک کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔

اس صورتحال کی سنگینی کا ایک مثال سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ راقم الحروف نے کچھ عرصہ قبل اپنے ضلع (گوجرانوالہ) کے ایس ایس پی سے، جو اَب مرحوم ہو چکے ہیں، قتل کے ایک کیس کے سلسلہ میں بات کی جس میں مقتول ایک حافظِ قرآن نوجوان تھا اور قاتل بااثر ہونے کی وجہ سے پکڑے نہیں جا رہے تھے۔ تو مرحوم ایس ایس پی نے صاف طور پر کہا کہ جناب! اگر اس علاقہ کے ایم پی اے کا اس کیس میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے تو جس طرح آپ کہیں گے ویسا کروں گا، اور اگر اس کا کوئی انٹرسٹ ہے تو جیسا وہ کہے گا وہی کروں گا، اس لیے کہ مجھے ابھی نوکری کرنی ہے۔ بدقسمتی سے اس علاقہ کا ایم پی اے قاتل گروپ کا ساتھ دے رہا تھا، اس لیے ایس ایس پی نے صاف معذرت کر لی اور راقم الحروف ان کی ’’صاف گوئی‘‘ پر شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس آ گیا۔

ارکانِ اسمبلی کی اس ناز پروری کے ہاتھوں ملک کے اجتماعی نظام پر جو چرکے لگے ہیں ان کے زخم بھرنے میں ابھی وقت لگے گا اور سرجری کے کئی نسخے بدل بدل کر آزمانے پڑیں گے۔ تاہم فلور کراسنگ کی اس دستوری ممانعت سے لوگوں کو حوصلہ ہونے لگا ہے کہ شاید ہم اس فضا سے باہر نکل رہے ہیں جہاں اصول، قانون، شرافت، اخلاق اور مذہب کی تمام قدریں حکمران پارٹی کے کسی ایم این اے یا ایم پی اے کے ایک اشارۂ ابرو سے شکست کھا جایا کرتی تھیں، صرف اس لیے کہ وہ ایم این اے یا ایم پی اے حکومت کے قائم رہنے کے لیے حکمران کی مجبوری بن گیا تھا، اور اسے ناراض کرنے کا مطلب اس کے ووٹ سے محرومی ہوتا تھا، جس کا رسک لینا وقت کے وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے بس میں نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس لحاظ سے تو ’’چودھویں آئینی ترمیم‘‘ کا جس قدر خیر مقدم کیا جائے کم ہے اور ہم بھی اس خیر مقدم میں شریک ہیں، لیکن مسئلہ پر اظہارِ خیال اور بحث و مباحثہ ضروری ہے تاکہ آئندہ کسی آئینی ترمیم میں اسے بھی سمویا جا سکے۔

ہمارے نزدیک مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ چودھویں آئینی ترمیمی بل کے ذریعے ارکانِ اسمبلی کو تو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے پارٹی لیڈر کے پابند رہیں، اور پارٹی لیڈر کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جس رکن اسمبلی کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کا مرتکب محسوس کرے اس کو اسمبلی کی رکنیت سے محروم کرنے کے لیے پیشرفت کرے، لیکن خود پارٹی لیڈر کے لیے کوئی ایسا ضابطہ موجود نہیں ہے کہ پارٹی کے انتخابی منشور اور دستور کی پابندی اس کے لیے اس حد تک ضروری ہو کہ خلاف ورزی کی صورت میں کسی فورم پر اس سے باز پرس کی جا سکے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کا نظام شخصیات کے گرد گھومتا ہے۔ ہر جماعت کے پاس دستور موجود ہوتا ہے اور وہ انتخابات کے موقع پر منشور کا اعلان بھی کرتی ہے، لیکن اس دستور اور منشور کا اس کے سوا کوئی مصرف نہیں ہوتا کہ اس کا ایک بار اعلان ہو جائے اور اخبارات میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ چھپ جائے، ورنہ برسراقتدار آنے کے بعد حکمران پارٹی کی پالیسی ایک ہی شخصیت کے رجحانات کی حامل ہوتی ہے اور جماعتوں کا اندرونی نظام بھی ایک دو شخصیتوں کے اشارۂ ابرو پر چلتا ہے۔

اس کی ایک ہلکی سی مثال یہ ہے کہ ۱۹۹۰ء کے انتخابات کے بعد جس سیاسی جماعت نے حکومت بنائی، راقم الحروف اس کا پنجاب کا نائب صدر تھا، لیکن انتخابات سے قبل مسلسل کوشش کے باوجود اس بات میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا کہ صوبائی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے اور صوبائی پارلیمانی بورڈ تشکیل دے کر امیدواروں کو اس کی طرف سے ٹکٹ جاری کیے جائیں۔ صدر محترم نے سارے مراحل خود ہی طے کر لیے تھے اور راقم الحروف نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے نائب صدارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اس پس منظر میں ارکانِ اسمبلی کو پارٹی لیڈر کا پابند کر دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ ملک کی تمام تر سیاست اور پالیسیاں قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کہلانے والی دو شخصیتوں کے گرد گھومیں گی، اور کسی اور کے لیے یہ حق باقی نہیں رہ جائے گا کہ وہ ان سے الگ ہو کر کوئی راہ اختیار کرے۔ جبکہ دونوں پارٹی لیڈر اپنی اپنی پالیسیوں میں اس حد تک مطلق العنان ہوں گے کہ ان کی شخصی رائے سے اختلاف کرنا بھی اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے مترادف ہو گا۔ بالخصوص ایسی صورت میں جو کہ ہمارے ہاں غیر متوقع نہیں ہے کہ پارٹی لیڈر کے ساتھ کسی رکن اسمبلی کے تنازعہ میں پارٹی کا دستور اور انتخابی منشور تو رکن اسمبلی کا ساتھ دے رہا ہے، مگر پارٹی لیڈر کی نامزد کردہ ہائی کمان اس لیڈر کے ساتھ ہے۔ اس صورت میں انصاف کے تقاضے کون پورے کرے گا اور اصول کی حکمرانی کی ضمانت کون فراہم کرے گا؟

اس لیے اربابِ حل و عقد سے گزارش ہے کہ وہ اس صورتحال کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لیں اور جہاں ارکانِ اسمبلی کو پارٹی لیڈر کا پابند کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کا اہتمام کیا گیا ہے وہاں پارٹی لیڈر کو پارٹی دستور اور منشور کا پابند کرنے کی آئینی ضمانت بھی فراہم کریں، ورنہ شخصی آمریت کے جو مناظر اس آئینی ترمیم کے نتیجے میں دیکھنے میں آئیں گے وہ شاید ارکانِ اسمبلی کی بے جا نازپروری کے سابقہ مناظر کو بھی مات کر دیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter