گزشتہ ہفتے دنیا کے سینکڑوں مختلف شہروں میں عراق پر امریکہ کے ممکنہ حملہ کے خلاف عوامی مظاہرے ہوئے اور متعدد ممالک کے مجموعی طور پر کروڑوں افراد نے سڑکوں پر آکر امریکی عزائم کے خلاف جذبات کا اظہار کیا، مظاہرین نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ تیل کے چشموں پر قبضہ کرنے کے لیے عراقی عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا چاہتا ہے اور بے گناہ عوام کے خون سے اس کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ یہ مظاہرے خود امریکہ میں بھی ہوئے اور امریکہ کے سب سے بڑے حلیف برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں اتنا بڑا مظاہرہ ہوا کہ اخبارات کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل جنگ عظیم کے علاوہ اتنا بڑا مظاہرہ لندن میں کبھی نہیں ہوا۔
ان مظاہروں سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ دنیا بھر کے عوام امریکہ کے استعماری عزائم اور سامراجی منصوبوں کو اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں اور اس کے خلاف کھلم کھلا نفرت کا اظہار کر رہے ہیں جو ایک خوش آئند بات ہے اور یوں لگتا ہے کہ اگر عالمی سطح پر رائے عامہ کا منظم اظہار اسی طرح جاری رہا تو امریکی جارحیت کا راستہ روکنے کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکل سکتی ہے، لیکن اس صورت حال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دو تین شہروں کے سوا باقی تمام مظاہرے غیر مسلم ممالک میں ہوئے ہیں اور عالم اسلام کے بیشتر ممالک میں اس موقع پر شرمناک سردمہری کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے۔
عراق مسلم ملک ہے جس کی حکومت سے اختلاف اور شکایت ہو سکتی ہے لیکن اس ملک کے اڑھائی کروڑ مسلمانوں کے ساتھ کسی کا کیا جھگڑا ہے کہ انہیں امریکی دہشت گردی کا نشانہ بنتے دیکھ کر مسلمان حکومتوں اور مسلم ممالک کے عوام نے چپ سادھ رکھی ہے ؟ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے اور اس پر جس قدر شرمندگی اور ندامت کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں سے تو کسی خیر کی توقع ہی عبث ہے لیکن عالم اسلام کی دینی تحریکات اور اسلامی مراکز کو اس سلسلہ میں توجہ دینی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام کی رائے عامہ کو امریکی عزائم کے خلاف منظم اور بیدار کرنے کی جدوجہد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور مسلم ممالک کی اسلامی تحریکات کو اس کی طرف فوری اور سنجیدہ پیش رفت کا اہتمام کرنا چاہیے۔