جرمن حکومت کی طرف سے صوبہ سرحد میں شیلٹر ہومز کی تعمیر

   
تاریخ : 
۱۷ جولائی ۲۰۰۳ء

اخباری اطلاعات کے مطابق صوبہ سرحد کے گورنر سید افتخار حسین شاہ نے صوبائی اسمبلی کے منظور کردہ ’’شریعت ایکٹ‘‘ پر ابھی تک دستخط نہیں کیے۔ حالانکہ یہ ایکٹ صوبہ سرحد کی اسمبلی نے ۷ جون کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا اور اس کے بعد صوبائی وزارت قانون کی طرف سے توثیق کے لیے گورنر سرحد کو بھجوا دیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صوبہ سرحد میں شریعت ایکٹ ابھی نافذ العمل نہیں ہوا، کیونکہ دستوری طور پر کوئی بھی بل گورنر کی توثیق کے بعد صوبہ میں نافذ العمل ہوا کرتا ہے۔ مگر دوسری طرف جرمنی کی حکومت کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ صوبہ سرحد میں شریعت ایکٹ کے نفاذ سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث اس نے صوبہ سرحد کو دی جانے والی امداد معطل کر دی ہے۔ اعلان میں اس پابندی کی فوری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ صوبہ سرحد میں جرمن حکومت کی طرف سے خواتین کے لیے ’’شیلٹر ہوم‘‘ کی تعمیر میں صوبائی حکومت کی طرف سے رکاوٹ پیدا کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے یہ امداد معطل کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

اس شیلٹر ہوم کا حدود اربعہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں تفصیل تو صوبہ سرحد کی حکومت کی طرف سے کسی وضاحت کے بعد ہی سامنے آئے گی، لیکن یورپ میں خواتین کے لیے جس طرح کے شیلٹر ہوم موجود ہیں اور جن کی کارکردگی ہمارے علم میں ہے، ان کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات فوری طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح مغربی ممالک میں لڑکی اٹھارہ یا سولہ سال کے بعد خود مختار ہو جاتی ہے، اس کے معاملات میں ماں باپ، بہن بھائیوں اور خاندان کا کوئی عمل دخل قانوناً باقی نہیں رہتا اور اسے ماں باپ، بھائیوں اور خاندان کے ’’جبر‘‘ سے بچانے کے لیے حکومت کی طرف سے شیلٹر ہوم بنائے گئے ہیں، جہاں گھر سے بھاگنے والی لڑکیاں پناہ لیتی ہیں اور انہیں پناہ گاہ کے ساتھ ساتھ ضروری خرچہ اور قانونی پشت پناہی بھی مہیا کی جاتی ہے تاکہ اس کے ماں باپ اور خاندان اس کی ’’آزادی‘‘ پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔

جرمنی اور دیگر مغربی ممالک پاکستان میں بھی اسی طرح کے شیلٹر ہوم تعمیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ لڑکیوں کو گھر سے بھاگنے کے مواقع دیے جا سکیں اور گھریلو نظام سے فرار اختیار کرنے والی لڑکیوں کو پناہ گاہ، قانونی پشت پناہی اور خرچہ ورچہ دے کر پاکستان کے معاشرتی نظام میں ابھی تک قائم خاندانی سسٹم کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسے کسی شیلٹر ہوم کی تعمیر کی اجازت نہ اسلام کی رو سے دی جا سکتی ہے، اور نہ ہی صوبہ سرحد کا علاقائی کلچر اس کا متحمل ہو سکتا ہے۔ اس لیے اگر صوبہ سرحد کی حکومت نے اس قسم کے کسی منصوبے میں رکاوٹ ڈالی ہے تو یہ نہ صرف اس کا جمہوری اور آئینی حق ہے، بلکہ اسلامی تعلیمات اور علاقائی کلچر کے حوالے سے اس کی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔ اور اس پر کسی مغربی حکومت کے سیخ پا ہونے کا واضح مطلب یہ ہے کہ مغرب ممالک امداد کے نام پر جو کچھ دے رہے ہیں اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اس خطہ کے مسلمانوں کو دینی تعلیمات، اسلامی احکام اور اپنی تہذیب و ثقافت سے دستبرداری پر مجبور کیا جائے۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے جس منشور اور چارٹر کے حوالے سے مغربی ممالک اپنے مخصوص کلچر کو دنیا پر زبردستی مسلط کرنے کے درپے ہیں، اس میں تمام اقوام و ممالک کو اس بات کی ضمانت مہیا کی گئی ہے کہ ان کے دین اور ثقافت دونوں میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی اور انہیں اپنے مذہبی احکام اور ثقافتی روایات پر عمل کی مکمل آزادی ہو گی۔

کچھ عرصہ سے ہماری اعلیٰ عدالتوں نے بھی یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ کوئی لڑکی گھر سے بھاگ کر کسی دوست کے ساتھ آزادانہ شادی کر لیتی ہے تو یہ کہہ کر اس کے اس عمل کو جواز کی سند فراہم کر دی جاتی ہے کہ چونکہ لڑکی عاقلہ بالغہ ہے اس لیے اسے اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق حاصل ہے۔ حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے اور میں نے ایک معزز جج صاحب سے، جنہوں نے اس قسم کے نکاح کو جائز قرار دے کر لڑکی کو اس کے من پسند خاوند کے ساتھ بھجوا دیا تھا، گزارش کی کہ جناب! آپ نے اس نکتہ پر تو فیصلہ دے دیا کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کو حنفی فقہ کی رو سے اپنی مرضی سے نکاح کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن اس نکاح سے قبل جوان لڑکی گھر سے بھاگی ہے، ڈیڑھ دو ماہ ایک غیر محرم شخص کے ساتھ گھومتی رہی ہے اور اس دوران جو بھی ہو سکتا ہے ہوا ہے۔ آپ نے اس عمل کے بارے میں کیوں خاموشی اختیار کر لی ہے اور یہ عمل جسے قرآن کریم جرم قرار دیتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کی واضح الفاظ میں مذمت فرمائی اس کو آپ نے کس کھاتے میں ڈالا ہے؟

پھر حضرت امام ابو حنیفہؒ کی طرف اس قول کی نسبت بھی محققین کے نزدیک درست نہیں ہے کہ وہ بالغہ عاقلہ لڑکی کو مطلقاً یہ حق دیتے ہیں کہ وہ ماں باپ کو اعتماد میں لیے بغیر جب چاہے اور جہاں چاہے شادی کر لے۔ حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ نے ’’فیض الباری‘‘ میں اس مسئلہ کی وضاحت کی ہے اور فرمایا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کا قول یہ ہے کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح اس کا باپ یا سرپرست اس کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتا، لیکن اس کے ساتھ لڑکی بھی پابند ہے کہ باپ اور ولی کو اعتماد میں لے۔ چنانچہ حضرت امام صاحبؒ کے نزدیک عاقلہ بالغہ لڑکی کے نکاح کے لیے جہاں اس کی رضا ضروری ہے وہاں اس کے ولی اور سرپرست کی رضا بھی ضروری ہے، اور علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ فرماتے ہیں کہ دونوں کی رضا کو حضرت امام ابو حنیفہؒ نکاح کے جواز کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔

خیر یہ تو ایک علمی بحث ہے جسے ’’فیض الباری‘‘ میں تفصیل کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے میری گزارش کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں اعلیٰ عدالتوں اور این جی اوز کے ذریعے خاندانی نظام کو بکھیرنے اور پاکستان کی خواتین اور لڑکیوں کو خاندانی بندھنوں سے آزاد کرنے کے لیے تو منظم منصوبے کے تحت کام ہو رہا ہے، اور جرمنی حکومت کی طرف سے شریعت ایکٹ کے نفاذ کے بہانے صوبہ سرحد کی قرارداد معطل کرنے کی یہ کارروائی بھی اس منصوبے کا حصہ ہے، اس کے ساتھ ہی شریعت ایکٹ کی مخالفت میں اقلیتوں کے محاذ پر بھی سرگرمیوں کا ازسرنو آغاز ہو گیا ہے۔ حالانکہ سرحد اسمبلی کے اقلیتی ارکان نے شریعت ایکٹ کی حمایت کی ہے اور شریعت ایکٹ میں اس امر کی ضمانت دی گئی ہے کہ اس کی کسی شق کا اطلاق اقلیتوں پر نہیں ہو گا، لیکن اس کے باوجود کرسچین ڈیمو کریٹک فرنٹ پاکستان کے چیئرمین سردار خلیل طاہر سندھو نے گزشتہ روز پریس کلب لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شریعت ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ

’’قرارداد مقاصد مسلمانوں کے لیے تھی، جبکہ نظریہ پاکستان کا مطلب مسلمانوں کی بالا دستی اور تسلط ہے۔ ایسے قوانین کی وجہ سے اقلیتوں میں احساس محرومی اور غلط رویے پیدا ہو رہے ہیں۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ اقلیتوں نے اب براہ راست قراردادِ مقاصد اور نظریہ پاکستان کو چیلنج کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے، اور وہ سرے سے پاکستان کے مسلمانوں کا یہ حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ جس مقصد کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا، اور قیام پاکستان کی تحریک میں جس نظام اور سسٹم کے نفاذ کا وعدہ کر کے مسلمانوں کو تقسیم ہند کی حمایت پر آمادہ کیا گیا تھا، وہ اس کی طرف کوئی پیشرفت کریں۔

یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ مغربی ممالک پاکستان میں شرعی قوانین کے کسی بھی درجہ میں نفاذ کو ہر قیمت پر روک دینے پر تل گئے ہیں۔ اور ملک کے اندر سیکولر دانشوروں، این جی اوز، اقلیتی تنظیموں، انتظامیہ اور عدلیہ کی کمین گاہوں میں چھپے ہوئے سیکولر اور مغرب پرست افسران اور جج صاحبان کا ایک پورا نیٹ ورک مغربی حکومتوں کے اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مصروف کار ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایک اور رخ پر بھی نظر ڈال لیں کہ دستوری طور پر ملک کے قوانین کی تشریح اور ان کی اسلامی حیثیت کے تعین کے لیے دو باضابطہ ادارے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کی صورت میں موجود ہیں، جو اپنے حصے کا خاصا کام کر چکے ہیں، لیکن ان دستوری اداروں اور ان کی سفارشات اور فیصلوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ’’پاکستان لاء کمیشن‘‘ ملکی قوانین کی تعبیر و تشریح اور انہیں نئے سانچوں میں ڈھالنے کے کام میں شب و روز مصروف ہے اور اس کی تجاویز و سفارشات کا بتدریج عملی نفاذ بھی ہو رہا ہے۔

نفاذ شریعت کی جدوجہد کے ایک شعوری کارکن کے طور پر میرا اندازہ ہے کہ جس طرح ہمارے خاندانی قوانین اور شرعی احکام کی پاکستان لاء کمیشن کی طرف سے تشریح کی جا رہی ہے اور جس انداز سے ہماری اعلیٰ عدالتیں مسلسل فیصلے صادر کرتی جا رہی ہیں، اگر ملک کے دینی مراکز اور علمی حلقوں نے اس کا سنجیدہ نوٹس نہ لیا تو پاکستان کو ترکی بنانے کے لیے کسی باضابطہ اعلان کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، اور زیادہ سے زیادہ چار پانچ سال کے عرصہ میں پاکستان اسلامی قوانین کے حوالے سے ترکی کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔

ہماری بدقسمتی اور محرومی کا ایک المناک پہلو یہ بھی ہے کہ نفاذ شریعت کے حوالے سے ہر کام اور ہر جدوجہد کو ہم نے سیاست اور اسمبلی کے ساتھ مختص کر رکھا ہے۔ اسمبلی میں ہوں گے، حالات سازگار ہوں گے، کوئی سیاسی موقع میسر آئے گا تو شریعت کی بات ہوگی، ورنہ خاموش تماشائی بنے رہیں گے اور گھروں میں یا مساجد کے حجروں اور مدارس کے دفاتر میں بیٹھ کر اسلام کے خلاف کام کرنے والوں کو کوستے رہیں گے۔ مجھے اس حوالے سے سیاست اور اسمبلی کی اہمیت سے انکار نہیں، اور جو لوگ اس میدان اور شعبہ سے مناسبت رکھتے ہیں انہیں اس میدان میں موجود اور متحرک رہنا چاہیے، لیکن ہمارے علمی اداروں اور دینی مراکز نے جو خاموشی اختیار کر رکھی ہے، میں پیشگی معافی مانگتے ہوئے اسے مجرمانہ خاموشی کہنے کی جسارت کر رہا ہوں، اس لیے کہ اس کے سوا مجھے اس کے لیے کوئی اور عنوان موزوں نظر نہیں آ رہا ہے۔

خاندانی نظام اور نکاح و طلاق اور وراثت کے شرعی احکام کا شعبہ آج عالمی یلغار کی زد میں ہے، اور علمی و فکری محاذ پر اس کا مقابلہ کرنا اور مغربی تہذیب و ثقافت کے تقابل میں اسلامی احکام و قوانین کی علمی و فکری وضاحت ہمارے علمی و دینی مراکز کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اس کی طرف بروقت توجہ نہیں دیں گے اور خاموش تماشائی کے کردار پر قانع رہیں گے تو عند اللہ اور عند الناس کسی جگہ بھی سرخروئی نہیں ہوگی اور اس محاذ پر پاکستان کی (نعوذ باللہ) پسپائی کی ذمہ داری اول و آخر انہی پر ہو گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter