مسجد، انسانی آبادی کا زیرو پوائنٹ

   
۲۲ اکتوبر ۲۰۱۱ء

جمعیۃ علماء اسلام (س) پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد رمضان علوی کا تعلق سرگودھا سے ہے، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل ہیں، ایک عرصہ سے اسلام آباد جی ٹین ون میں بلند مارکیٹ کے ساتھ مسجد سیدنا عثمان غنیؓ کے خطیب ہیں اور ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی مسجد کی تعمیر نو کے سنگ بنیاد کی تقریب میں حاضری اور کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا، ساڑھے تین کنال رقبہ میں مسجد و مدرسہ اور دیگر متعلقہ ضروریات پر مشتمل خوبصورت کمپلیکس تعمیر کرنے کا پروگرام ہے، اللہ تعالیٰ جلد تکمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مسجد کو مسلم سوسائٹی میں دل کی حیثیت حاصل ہے کہ سوسائٹی کی تمام تر دینی و روحانی سرگرمیاں مسجد کے متحرک ہونے پر موقوف ہیں، سوسائٹی کا دینی و روحانی نظام مسجد کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور میں عرض کیا کرتا ہوں کہ مسلم سوسائٹی میں مسجد کا مقام دل کا اور مدرسے کا مقام دماغ کا ہے، یہ ہمارے اجتماعی دینی نظام کے اعصابی مراکز ہیں اور انہی کی حرکت پر ہماری سب دینی حرکات وجود میں آتی ہیں۔ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق مسجد کو انسانی آبادی کے زیروپوائنٹ کی حیثیت حاصل ہے کہ روئے زمین پر سب سے پہلا جو گھر تعمیر کیا گیا وہ بیت اللہ ہے اور دنیا کی تمام تر مساجد اس کی شاخیں ہیں، یوں انسانی سوسائٹی کا نقطۂ آغاز مسجد ہے۔ اور ایک حدیث کے مطابق انسانی آبادی کا نقطۂ اختتام بھی مسجد ہوگی کہ جب ایک ظالم حکمران بیت اللہ پر حملہ آور ہوگا اور اس کو منہدم کرنے کے لیے پہلا وار کرے گا تو قیامت کا بگل پھونک دیا جائے گا اور ہر طرف حشر بپا ہو جائے گا۔

مسلم آبادی کا نقطۂ آغاز بھی مسجد سے ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئے اور ابتدائی قیام قبا میں کیا تو وہاں سب سے پہلے مسجد تعمیر کی، اور وہاں سے جب مدینہ منورہ (یثرب) پہنچے تو وہاں بھی پہلے مسجد تعمیر کی اور اس کے بعد اپنی رہائش کے لیے حجرے بنوائے۔ مسلمانوں نے جناب رسول اکرمؐ کی قیادت میں اپنی اجتماعی زندگی کا آغاز مسجد سے کیا اور آج بھی دنیا بھر میں مسلم کمیونٹی اور مسلمان آبادی کا سب سے بڑا مرکز مسجد ہے۔ یہاں ایک بات میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جب تک ہماری اجتماعی زندگی کے معاملات مسجد میں طے ہوتے رہے اور ہم اپنے ملی فرائض مسجد میں بیٹھ کر سرانجام دیتے رہے ہیں اس سے معاشرے میں خیر و برکت رہی ہے، اور جوں جوں ہم اپنے اجتماعی کاموں میں مسجد سے دور ہوتے گئے ہیں، خیر و برکت کے ساتھ ہمارا فاصلہ بھی بڑھتا رہا ہے۔ اس لیے مسجد عثمانؓ کی تعمیر نو کے آغاز پر آپ سب حضرات کو مبارکباد دیتا ہوں اور اس مناسبت سے کہ یہ مسجد سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے، مسجد نبویؐ کی اس تعمیر ثانی کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو حضرت عثمانؓ کے دور میں ہوئی تھی اور جس کے حوالے سے حضرت عثمانؓ پر اعتراضات بھی ہوئے تھے۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو مسجد تعمیر ہوئی وہ کچی تھی۔ پتھروں اور کھجوروں کے ستونوں پر پتوں، ٹہنیوں اور مٹی کی چھت ڈالی گئی تھی جو بارش میں ٹپکنے لگ جاتی تھی۔ حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت میں آبادی زیادہ ہوئی اور مسجد میں توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی تو حضرت عثمانؓ نے اعلان فرمایا کہ وہ پرانی مسجد کو گرا کر نئی اور وسیع مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس پر صحابہ کرامؓ میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے جو مسجد اپنے مبارک ہاتھوں سے تعمیر کی ہے اسے کیسے گرایا جائے گا؟ ایسے مواقع پر اس قسم کی صورتحال پیدا ہو جایا کرتی ہے لیکن محبت و عقیدت کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں اور ضروریات اور تقاضوں کا دائرہ اس سے الگ ہوتا ہے۔ حضرت عثمانؓ ضروریات اور تقاضوں کے حوالے سے بات کر رہے تھے جبکہ اعتراض کرنے والے محبت و عقیدت کی بنا پر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔

مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عثمان غنیؓ نے لوگوں کی ان چہ میگوئیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک دن خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ ’’انکم اکثرتم‘‘ تم نے بہت زیادہ باتیں شروع کر دی ہیں لیکن میں نے پرانی اور کچی مسجد گرانے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لیے کہ میں نے خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’من بنٰی للہ مسجدا بنی اللہ لہ مثلہ بیتا فی الجنۃ‘‘ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مسجد بناتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں اس جیسا گھر بنائے گا۔یہ ’’انکم اکثرتم‘‘ کے الفاظ حضرت عثمان غنیؓ کے اس ارشاد میں ہیں جو امام مسلمؒ نے نقل فرمائے ہیں اور ان کا پس منظر یہی ہے کہ حضرت عثمانؓ کے اس ارادے سے عمومی حلقوں میں ناراضگی پائی جاتی تھی کہ وہ حضورؐ کے مبارک ہاتھوں سے تعمیر ہونے والی مسجد کو گرا دینے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس حضرت عثمانؓ کے پیش نظر اجتماعی ضرورت تھی کہ پرانی مسجد تنگ پڑ گئی تھی اور مسجد میں توسیع ضروری ہوگئی تھی۔

پھر یہ صورتحال بھی قابل توجہ تھی کہ اردگرد کے مکانات اچھی پوزیشن اختیار کر گئے تھے جبکہ مسجد درمیان میں کچی تھی جس کا عمومی منظور دیکھنے والوں کو بہرحال اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے حضرت عثمانؓ نے پرانی مسجد گرا کر نئی بنوائی اور اسے وسعت دے کر پختہ تعمیر کروایا۔ حضرت عثمانؓ نے جناب رسول اللہؐ کا جو ارشاد لوگوں کو سنایا اس کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جنت میں جس قسم کے گھر کی توقع کرتے ہو اللہ تعالیٰ کے گھر اور مسجد کو اسی ذہن سے بناؤ کیونکہ جس طرح کی تم مسجد بناؤ گے جنت میں تمہارا گھر اللہ تعالیٰ اسی طرح کا بنائیں گے۔

میں مسجد عثمان غنیؓ کے منتظمین اور معاونین سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ پورے ذوق و شوق اور جذبے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ گھر تعمیر کریں کہ یہ ان کے لیے آخرت کا ذخیرہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث بنے گا۔ اس موقع پر اسلام آباد کے علماء کرام، دینی کارکنوں اور مسجد کے نمازیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، چند گزارشات پیش کرنے کے بعد ہم سب نے مل کر مسجد کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور اجتماعی دعا کے ساتھ یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۸ اکتوبر ۲۰۱۱ء)
2016ء سے
Flag Counter