بعد الحمد والصلوٰۃ ۔ جیسا کہ حضرت شیخ عبد الحمید مدظلہ نے فرمایا ہے کہ کل امید ہے رمضان کا آغاز ہو جائے گا۔ پھر رمضان کے جتنے دن میں یہاں موجود ہوں، نماز تراویح کے بعد کچھ باتیں بیان ہو جایا کریں گی۔ ان شاء اللہ العزیز۔
آج کی گفتگو کا عنوان یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی بات سمجھنے میں کوئی الجھن پیش آتی تو صحابہ کرامؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتے تھے اس لیے کہ حضورؐ قرآن مجید کے شارح ہیں۔ حضورؐ کی سنت اور حضورؐ کے ارشادات قرآن کریم کی تشریح ہے۔ چنانچہ تابعین یعنی خیر القرون اور قرون اولیٰ کے لوگ صحابہ کرامؓ سے رجوع کرتے تھے اس لیے کہ انہی کے سامنے قرآن کریم نازل ہوا تھا اور وہ اس کے پس منظر اور موقع محل کو زیادہ بہتر جانتے تھے اور اس کی زیادہ بہتر تشریح کر سکتے تھے۔ جبکہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو الجھن پیش آتی تو حضورؐ سے سوال کیا جاتا کہ یا رسول اللہ! اس آیت کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ چنانچہ حضورؐ اس کی وضاحت فرما دیتے۔ البتہ تابعین میں سے اگر کسی کو قرآن کریم کے متعلق کوئی بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش آتی تو وہ کسی صحابیؓ سے رجوع کرتے کہ جناب یہ بات سمجھ میں نہیں آئی، آپ چونکہ وحی کے گواہ ہیں اور موقع محل سے واقف ہیں اس لیے آپ بتائیں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ اس پر حدیث کی کتابوں میں بہت سے واقعات ہیں، ان میں سے ایک روایت بخاری شریف کے حوالہ سے میں آج عرض کروں گا۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے لیے حضورؐ کی دعا
اللہ رب العزت نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو یہ اعزاز بخشا تھا کہ قرآن کریم کی تفسیر، تعبیراور قرآن کریم کی مختلف روایات کا صحیح مصداق بیان کرنا ان کا خاص ذوق تھا۔ اس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سرپرستی اور دعا بھی شامل تھی۔ حضورؐ کے زمانے میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ چودہ پندرہ سال کے بچے تھے۔ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریمؐ کا وصال ہوا تو میں پندرہ سال کا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ حضور کے چچا زاد بھی تھے اور حضور کے بھانجے بھی لگتے تھے۔ بھانجے اس طرح سے کہ ام المؤمنین حضرت میمونہؓ ان کی حقیقی خالہ تھیں، اس طرح رسول اللہؐ ان کے چچا زاد بھی لگے اور خالو بھی لگے۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اپنے لیے حضورؐ کی دعا کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا اور کبھی کبھی خالہ کے ہاں رات بھی رہتا تھا۔ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ ایک دن حضرت میمونہؓ کے ہاں تشریف فرما تھے اور میں بھی وہاں موجود تھا۔ حضورؐ اچانک اٹھ کر باہر تشریف لے گئے، باہر جانے کے لیے یہ آپ کے معمول کا کوئی وقت نہیں تھا۔ نماز کا وقت بھی نہیں تھا، کسی نے بلایا بھی نہیں تھا اور گھر والوں نے بھی کوئی کام نہیں کہا تھا۔ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ حضورؐ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے ہوں گے۔ اس زمانے میں لوگ قضائے حاجت کے لیے باہر ہی جایا کرتے تھے، گھروں میں تو نظم نہیں ہوتا تھا، کسی چٹان کی اوٹ میں، کسی گڑھے میں یا کسی بھی مناسب جگہ پر چھپ کر بیٹھتے تھے اور مٹی کے ڈھیلے وغیرہ سے استنجا کرتے تھے۔ بعد میں جیسے ہی پانی میسر ہوتا استعمال کرتے تھے۔
حضرت عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ مجھے خیال ہوا کہ حضورؐ کو پانی کی ضرورت ہوگی، میں یہ سوچ کر پانی کا بھرا ہوا برتن لے کر باہر نکل گیا۔ میرا اندازہ درست نکلا کہ حضورؐ باہر تشریف لے گئے اور ایک چٹان کے پیچھے قضائے حاجت کے لیے بیٹھ گئے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے احتیاط کے ساتھ ایک مناسب فاصلے پر جا کر لوٹا رکھ دیا اور خود ایک طرف جا کر کھڑا ہوگیا۔ پانی کا برتن میں نے ایسے رکھا کہ حضورؐ کی نظر پڑ جائے۔ چنانچہ حضورؐ نے دیکھا کہ پانی کا لوٹا پڑا ہوا ہے، حضورؐ نے پانی استعمال کیا اور پھر وضو کیا۔ فارغ ہو کر ادھر ادھر دیکھا تو عبد اللہ بن عباسؓ کھڑے تھے۔ اس وقت ان کی عمر تیرہ چودہ سال کی ہوگی۔ حضورؐ نے پوچھا عبد اللہ! پانی تم لائے ہو؟ جواب دیا جی یا رسول اللہ! میں لے کر آیا ہوں۔ پوچھا، کس نے کہا تھا؟ حضورؐ کو خیال ہوا کہ شاید خالہ نے کہا ہو۔ حضرت عبد اللہؓ نے جواب دیا یا رسول اللہ ! کسی نے نہیں کہا میں نے خود سوچا کہ آپ شاید اس کام کے لیے آئے ہیں تو آپ کو پانی کی ضرورت ہوگی۔ اس پر حضورؔ کو خوشی ہوئی۔
محدثین فرماتے ہیں کہ حضورؐ کی خوشی کی وجہ یہ تھی کہ بچہ سمجھدار ہے کیونکہ یہ سمجھداری ہی کی بات ہے کہ موقع محل دیکھنا اور پھر اس کے مطابق عمل کرنا۔ بسا اوقات آدمی کے ذہن میں بات آجاتی ہے لیکن وہ عمل کے معاملے میں سستی کر دیتا ہے۔ یعنی حضرت عبد اللہؓ سمجھدار بھی تھے اور کام کا ذوق بھی تھا۔ حضورؐ نے پوچھا، عبد اللہ! بتاؤ تمہارے لیے کیا دعا مانگوں؟ ایک تیرہ چودہ سال کے لڑکے کے لیے حضورؐ ہاتھ اٹھا کر پوچھ رہے ہیں کہ بتاؤ تمہارے لیے کیا دعا مانگوں؟ جواب دیا، یا رسول اللہ! مجھے قرآن کریم کا علم چاہیے۔ حضورؐ نے دو جملوں کی دعا کی اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ وَقِہٖ سُوْءَ الْحِسَاب اے اللہ اس بچے کو قرآن کریم کا علم عطا فرما اور حساب کتاب کی سختی سے بچا۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے علم کے پیچھے حضورؐ کی دعا بھی تھی اور شفقت بھی۔ ان کا شمار قرآن کریم کے بڑے علماء میں ہوتا ہے اور وہ رأس المفسرین کہلاتے ہیں۔ علوم قرآن کے مختلف شعبے ہیں۔ استنباط، استخراج اور مسائل کا ذوق حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کا زیادہ تھا اس لیے وہ فقہاء کے سردار کہلاتے ہیں۔ جبکہ آیت کا مطلب، مصداق اور تاویل کا ذوق حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا زیادہ تھا اس لیے یہ مفسرین کے سردار کہلاتے ہیں۔
قرآن کریم کی بعض آیات کے متعلق چند اشکالات
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اشکال ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے بسا اوقات آدمی کو کوئی بات سمجھنے میں دقت پیش آجاتی ہے لیکن قرآن و سنت اور دینی معاملات کے متعلق اشکالات کے حل کے لیے راسخ العلم لوگوں سے راہنمائی لینی چاہیے۔ بخاری شریف کی روایت ہے حضرت سعید ابن جبیرؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور کہا یا حضرت! قرآن کریم کی کچھ آیات کے بارے میں میرے کچھ اشکالات ہیں جنہیں میں سمجھنا چاہتا ہوں۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا، پوچھو بھئی، کیا اشکالات ہیں؟ اس شخص نے قرآن کریم کے حوالے سے چار باتیں پوچھیں۔ قرآن کریم کے تین مواقع کے بارے میں بتایا کہ مجھے ان میں آپس تضاد نظر آتا ہے کہ بظاہر قرآن ایک جگہ کچھ اور بات کہتا ہے جبکہ دوسری جگہ اس سے متضاد کچھ اور بات کہتا ہے۔
پہلا اِشکال
ایک جگہ کے بارے میں بتایا کہ قرآن کریم میں ہے فَلَا اَنْسَابَ بَیْنَھُمْ یَوْمَئِذٍ وَّلَایَتَسَاءَ لُوْن جب قیامت کا دن ہوگا تو لوگ آپس میں نہ ایک دوسرے سے کوئی بات کر سکیں گے اور نہ باہمی نسب کام آئیں گے۔ یعنی لوگ ہر شے بھول جائیں گے اور کوئی باپ بیٹا بہن بھائی ایک دوسرے کے کام نہیں آئیں گے۔ ولا یتساء لون یہاں تک کہ ایک دوسرے سے پوچھ بھی نہیں پائیں گے کہ بھئی تمہارا کیا حال ہے، فلاں کیسا ہے اور فلاں کے ساتھ کیا ہوا وغیرہ۔ ایک جگہ تو قرآن کریم یہ کہتا ہے جبکہ دوسری جگہ کہتا ہے کہ وَاَقْبَلَ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَاءَ لُوْن پہلی آیت میں لا یتساء لون ہے جبکہ یہاں یتساء لون ہے کہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے اور ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ یعنی ایک جگہ قرآن کہتا ہے کہ ایک دوسرے سے سوال نہیں کریں گے لیکن دوسری جگہ کہتا ہے کہ ایک دوسرے سے پوچھیں گے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے۔
دوسرا اِشکال
دوسرا اشکال اس نے یہ پیش کیا کہ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثاً اور اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے۔ دنیا ہو یا آخرت، اللہ تعالیٰ سے کہیں بھی کوئی بھی بات چھپائی نہیں جا سکتی۔ لیکن دوسری جگہ قرآن میں ہے کہ مشرکین قیامت کے روز کہیں گے وَاللّٰہ رَبّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْن یا اللہ! تیرے رب ہونے کی قسم ہم نے تو کوئی شرک نہیں کیا تھا۔ یعنی ایک جگہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے لیکن دوسرے مقام پر ہے کہ مشرکین اپنے شرک سے منکر ہو جائیں گے۔ تو اس شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے سامنے قرآن میں تضاد کے متعلق یہ دوسرا اِشکال پیش کیا۔
تیسرا اِشکال
تیسرا اِشکال یہ پیش کیا کہ قرآن کریم ایک مقام پر کہتا ہے ءَ أَ نْتُمْ اَشَدُّ خَلْقاً أَمِ السَّمَاءُ بَنَاھَا رَفَعَ سَمْکَھَا فَسَوَّاھَا وَأَغْطَشَ لَیْلَھَا وَأَخْرَجَ ضُحَاھَا وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحَاھَا یعنی ترتیب یہ ہوئی کہ پہلے آسمان بنایا پھر زمین بنائی۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اَاِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗ اَنْدَادًا کہہ دو کیا تم اس کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور تم اس کے لیے شریک ٹھہراتے ہو۔ پھر آگے چل کر فرمایا ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَاءِ فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ سَمَاوَات پھر اللہ تعالیٰ آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا اور سات آسمان بنا دیے۔ یعنی ایک جگہ یہ ہے کہ پہلے آسمان بنائے اور پھر زمین۔ جبکہ دوسرے مقام پر یہ ہے کہ پہلے زمین بنائی اور پھر آسمان۔ اس شخص نے پوچھا کہ قرآن کریم میں یہ تضاد کیوں ہے؟ یہ تیسرا اِشکال تھا جو اس شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے سامنے پیش کیا۔
چوتھا اشکال
چوتھا اشکال اس شخص نے یہ پیش کیا کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا ذکر آیا ہے، لفظ کَانَ کا ذکر ہے کہ اللہ ایسا ’’تھا‘‘۔ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔ کَانَ اللّٰہُ سَمِیْعاً بَّصِیْرًا۔ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا یعنی اللہ غفور اور رحیم تھا۔ اللہ سننے والا اور دیکھنے والا تھا۔ اللہ عزیز اور حکیم تھا۔ ’’تھا‘‘ کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ اللہ ایسا تھا لیکن اب نہیں ہے۔
اس شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے کہا کہ یہ میرے چار اشکالات ہیں جن کے متعلق مجھے راہنمائی چاہیے کہ یہ دو چار باتیں قرآن کریم کے بارے میں میرے ذہن میں کھٹکتی ہیں۔ اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہ بڑے سخت قسم کے اشکالات ہیں کہ قرآن کریم کی آیات کا آپس میں ہی تضاد نظر آتا ہے۔
پہلے اشکال کا جواب
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ بھئی قیامت دو چار گھنٹوں کی بات نہیں ہے، قیامت پچاس ہزار سال کے عرصے پر مشتمل ہوگی اور قیامت کے مختلف مراحل ہوں گے۔ نفخہ اولیٰ کے بعد اور، نامہ ہائے اعمال ملنے سے پہلے جب ہر ایک کو یہ فکر ہوگی کہ پتہ نہیں میرا کیا بنتا ہے، میرا نامہ اعمال مجھے دائیں ہاتھ میں ملے گا یا بائیں ہاتھ میں اور میرا ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ ایسے وقت میں تو افراتفری ہوگی اور ہر ایک کو اپنی اپنی فکر ہوگی۔ اور پھر جب لمبا عرصہ گزر جائے گا اور ہر ایک کو نامہ اعمال مل جائیں گے، کسی کو دائیں ہاتھ میں اور کسی کو بائیں ہاتھ میں، پھر یہ وہ وقت ہوگا جب سب ایک دوسرے سے پوچھتے پھریں گے کہ بھئی تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ ایک پوچھے گا تمہارا کیا نتیجہ نکلا؟ دوسرا پوچھے گا تمہارا کونسا گریڈ آیا ہے، تیسرا پوچھے گا تمہیں کونسی پوزیشن ملی۔ یعنی سوال نہ کرنے کا مرحلہ اور ہے جبکہ سوال کرنے کا مرحلہ اور ہے۔
اسی طرح قرآن کریم کے متعلق ایسا ہی ایک اور اشکال پایا جاتا ہے جو کہ حضرت عبد اللہؓ والی اِس روایت میں نہیں ہے ۔ بعض لوگ ایسے ہوں گے کہ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِم نہ اللہ قیامت کے دن ان سے کلام کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا۔ جبکہ دوسرے مقام پر ہے کہ فَوَ رَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّھُمْ اَجْمَعِیْن تیرے رب کی قسم ہم ہر ایک سے پوچھیں گے۔ اشکال یہ ہے کہ قرآن کریم کے ایک مقام کے مطابق تو اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں سے کلام ہی نہیں کرے گا اور ان کی طرف دیکھے گا بھی نہیں جبکہ دوسرے مقام کے مطابق اللہ تعالیٰ قسم کھا کر کہہ رہے ہیں کہ ہم سب سے پوچھیں گے۔ تو یہاں بھی علماء کہتے ہیں کہ جب حساب کتاب کی باری آئے گی تو اللہ تعالیٰ پوچھیں گے ہی۔
تو حضرت عبد اللہ نے یہی بات فرمائی کہ یہ قیامت کے مختلف مراحل ہوں گے کہ سوال نہ کرنے کا اور افراتفری کا وقت اور ہے، لیکن جب لوگوں کے معاملات طے ہو جائیں گے اور ان کے اعمال نامے ان کو مل جائیں گے پھر اس وقت لوگ ایک دوسرے سے نتائج کے متعلق پوچھتے پھریں گے۔
دوسرے اشکال کا جواب
وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثاً کہ اللہ تعالیٰ سے بات چھپا نہیں سکیں گے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اس کا جواب یہ دیا کہ لوگ اللہ تعالیٰ سے چھپانے کی کوشش کریں گے لیکن چھپا نہیں سکیں گے۔ یہی بات قرآن کریم نے دوسرے مقام پر اس طرح بیان کی ہے اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِھِمْ وَتُکَلِّمُنَا اَیْدِیْھِمْ وَتَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْن کہ زبان جھوٹ بولنے کی کوشش کرے گی، ہم زبان پر مہر لگا دیں گے اور ہاتھوں کو قوت گویائی دیں گے اور پھر ہاتھ بولیں گے کہ ہم نے یہ کام کیا تھا، پاؤں گواہی دیں گے وَقَالُوْا لِجُلُوْدِھِمْ لِمَ شَھِدّتُمْ عَلَیْنَا اور اس دن چمڑا گواہی دے گا کہ یا اللہ یہ یہ کام ہوئے ہیں۔ آدمی اپنے جسم کے اعضاء سے پوچھے گا کہ تم کیوں گواہی دے رہے ہو کہ سزا تو تم ہی بھگتو گے۔ وہ اعضاء کہیں گے أَ نْطَقَنَااللّٰہُ الَّذِیْ أَنْطَقَ کُلَّ شَیْء جو خدا باقی چیزوں سے بلواتا ہے اس نے ہم سے بھی بلوا دیا۔
تو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ وہ چھپائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی زبانوں پر مہر لگا کر ان کے اعضاء سے گواہی دلوائیں گے۔ یعنی چھپانے کی کوشش کرنا اور بات ہے اور چھپا سکنا اور بات ہے۔
اسی طرح مستدرک حاکم کی ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مجرم پیش ہوگا جس کے بارے میں فرشتے کہیں گے کہ یا اللہ اس نے فلاں فلاں کام کیے۔ وہ کہے گا کہ یا اللہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ مدعا علیہ انکاری ہو جائے گا کہ یہ فرد جرم ٹھیک نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائیں گے کہ بھئی تم نے فرد جرم عائد کیا ہے، چارج شیٹ پیش کی ہے جس پر مدعا علیہ انکاری ہے، اس لیے گواہ لے کر آؤ۔ فرشتے کہیں گے کہ یا اللہ ہم گواہ کہاں سے لائیں ہمارے پاس تو صرف ریکارڈ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ریکارڈ کو ہی لاؤ، جس عمل سے یہ انکار کر رہا ہے اسے وہ عمل کرتا ہوا دکھاؤ۔ اللہ کے پاس تو بہت اقسام کا ریکارڈ ہے۔اللہ تعالیٰ کو کائنات کی ہر چیز کا علم ہے لیکن عدالت کا پراسیس بھی تو پورا کرنا ہے۔ فرشتے پھر وہ منظر سامنے لے کر آئیں گے جب وہ شخص اپنے آپ کو وہ عمل کرتا ہوا دیکھ لے گا تو پھر اللہ تعالیٰ پوچھیں گے، ہاں بھئی اب بتاؤ یہ عمل کیا تھا یا نہیں؟ جس پر وہ شخص سر جھکا لے گا کہ ہاں کیا تھا۔ تو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ چھپانا اور چیز ہے اورچھپا سکنا اور چیز ہے۔
تیسرے اشکال کا جواب
اللہ رب العزت نے پہلے زمین بنائی اور پھر اس کے گرد آسمان پھیلائے اور پھر زمین کو بچھایا۔ خلق الارض فی یومین دو دن میں زمین بنائی۔ اب اللہ کے حساب سے یہ دو دن کتنے بڑے تھے وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور آسمان کا سارا نظام بنا کر پھر اس کے بعد زمین کو بچھا دیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی وضاحت میں ایک مفسر نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ ایک ہے زمین کا بنانا اور دوسرا ہے زمین کے نظام کی بحالی یعنی درختوں کا اگنا اور زمین پر زندگی کے پورے ماحول کا بن جانا۔ زمین اکیلے یہ کام نہیں کر سکتی ان چیزوں پر فضا اثر انداز ہوتی ہے، سورج اثر انداز ہوتا ہے، چاند بھی اثر انداز ہوتا ہے، اور ستاروں کی گردش بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ مختلف عوامل کا ایک مکمل نیٹ ورک ہے جو زمین کے اوپر حیات تشکیل دیتا ہے۔ اسی لیے فطری ترتیب بھی یہی ہے کہ زمین بنا کر اس کے گرد سارا آسمانی نظام ترتیب دیا اور پھر اس کے بعد زمین کو بچھایا اورپانی، ہوا وغیرہ کا نظام قائم کیا۔
چوتھے اشکال کا جواب
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ کان کے لفظ کا استعمال بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک لطیف اشارہ ہے کہ تمہاری طرح اللہ تعالیٰ نے علم سیکھا نہیں بلکہ وہ شروع سے اور ہمیشہ سے ہی عالم ہے۔ یہ ’’تھا‘‘ کا لفظ ماضی کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے قدیم ہونے اور ہمیشہ سے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ ہمیشہ سے عزیز ہے، ہمیشہ سے سمیع ہے، ہمیشہ سے بصیر ہے، ہمیشہ سے علیم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت میں تمہاری طرح حدوث نہیں ہے کہ پہلے نہیں تھا ، اب ہوگیا ہے۔ پہلے علم نہیں تھا ، اب حاصل کر لیا۔ پہلے طاقت نہیں تھی، اب آگئی۔ ایسی بات نہیں ہے بلکہ اللہ شروع ہی سے ایسا ہے۔
میں نے یہ عرض کیا کہ قرآن کریم کی کسی آیت کو سمجھنے میں کسی الجھن کا پیش آجانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، یہ کبھی بھی اور کسی کو بھی پیش آسکتی ہے۔ لیکن ایسی الجھنوں اور ایسے اشکالات کے لیے اہل حق علماء سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ صحابہ کرامؓ کو اگر کوئی الجھن اور اشکال ہوتا تھا تو وہ حضورؐ سے رجوع کرتے تھے، اور اگر تابعین کو کوئی الجھن ہوتی تھی تو وہ صحابہ کرامؓ سے رجوع کرتے تھے اور پھر ان کی وہ الجھن دور بھی ہوتی تھی۔
اشکالات کے حل کے لیے اہل علم سے رجوع
آج کے دور میں بھی ہمیں قرآن کریم کے متعلق اشکالات پیش آتے ہیں۔ لیکن اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے اشکال خود حل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ معلوم کرنا چاہیے کہ حضورؐ نے اس کی کیا وضاحت کی ہے۔ اگر حضورؐ کی براہ راست وضاحت نہ ملے تو یہ دیکھیں کہ صحابہ کرام میں سے کسی نے اس کی وضاحت کی ہے یا نہیں۔ اگر وہاں سے مل جائے تو وہی صحیح وضاحت ہے۔ اگر وہاں سے بھی نہ ملے تو پھر قرآن کے اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے اس اشکال کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ لیکن قرآن کریم کے کسی اصول کی وضاحت اگر حضورؐ سے مل جاتی ہے یا صحابہؓ سے مل جاتی ہے تو پھر کسی نئی وضاحت کے لیے تکلف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں اور حدیث میں کوئی تضاد نظر آتا ہے کہ قرآن کچھ اور کہہ رہا ہے جبکہ حدیث کچھ اور۔ بظاہر نظر ایسا آتا ہے کہ دونوں میں تضاد ہے۔ ایسا اشکال صحابہ کو بھی ہوتا تھا۔ وہاں بھی اصول یہی ہے کہ یہ پتہ کیا جائے کہ قرآن کریم کی وضاحت حضورؐ نے کیا کی ہے۔ نبی کریمؐ نے آیت پر کیسے عمل کیا۔ عمل یا قول کے حوالے سے کوئی آیت سمجھ میں نہ بھی آئے لیکن یہ پتہ چل جائے کہ حضورؐ نے اس آیت کے مطابق یوں عمل کیا تو پھر اس کے بعد تردد کی ضرورت نہیں ہے، حضورؐ کا یہ عمل اس آیت کی تشریح سمجھا جائے گا۔ یا حضورؐ سے اس آیت کے متعلق قولی وضاحت مل جائے تو بھی یہی طریقہ ہوگا۔ اس پر ایک دو واقعات عرض کرنا چاہوں گا۔
قرآن کریم کی تشریح میں حضورؐ کے عمل سے حضرت عمرؓ کا استدلال
قرآن کریم کی آیت کریمہ ہے اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃ۔ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔ یہ جو مسافر کے لیے قصر شرعی ہے کہ فرض نماز کی چار رکعت کی جگہ دو رکعت پڑھے گا، جبکہ مؤکدہ سنتیں غیر مؤکدہ ہو جائیں گی۔ قرآن کریم نے قصر نماز کے لیے دو شرطیں لگائی ہیں کہ اگر تم سفر میں ہو اور تمہیں کافروں سے ڈر ہے تو کوئی حرج نہیں کہ نماز میں قصر کر لو۔ یعنی اس آیت میں جو شرط ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم حالت جنگ کے لیے مخصوص ہے۔ یعنی نماز تب قصر کرو جب تمہیں خوف ہو کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے۔ اس آیت کا سیاق و سباق یہ بتاتا ہے کہ قصر نماز کا حکم عام حالت میں نہیں ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس پر ایک صحابیؓ کو اشکال ہوا اور وہ حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں آئے کہ یا حضرت اب تو ہمیں کوئی خوف نہیں ہے۔ خوف تو فتح مکہ تک یا پھر اس کے بعد تھوڑا بہت حجۃ الوداع تک تھا۔ جب حجۃ الوداع پر ہم نے اپنی قوت کا اظہار کر دیا اور جزیرۃ العرب پر ہماری حکومت کو دنیا نے تسلیم کر لیا اب تو کوئی خوف کی بات نہیں ہے۔ پھر یہ حالت امن میں قصر نماز کا حکم کیسا؟ حضرت عمرؓ نے بڑا سادہ سا جواب دیا کہ کیا نبی کریمؐ نے فتح مکہ کے بعد اپنے اسفار میں نماز قصر کی ہے یا نہیں؟ صحابی نے کہا جی ہاں، آپؐ نے نماز قصر کی تھی۔ حضورؐ جب حجۃ الوداع سے واپس مدینہ تشریف لے گئے تو راستے میں نماز قصر کی یا نہیں؟ صحابی نے کہا، ہاں کی تھی۔ حضرت عمرؓ نے کہا، پھر اس کے بعد تمہیں کیا اشکال ہے؟ یعنی اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضورؐ کا عمل ہی قرآن کریم کی اصل تشریح ہے۔
بلکہ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے بھی حجۃ الوداع سے واپسی پر نماز قصر کرتے ہوئے یہ اشکال ہوا تھا اور میں نے جناب نبی کریمؐ سے دریافت کر لیا تھا۔ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ اے عمرؓ ! یہ اللہ تعالیٰ کا صدقہ ہے اسے کیوں واپس کرتے ہو؟ یعنی جب ہمیں خوف اور جنگ کی حالت کے بغیر نمازیں قصر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے منع نہیں فرمایا جبکہ وحی ابھی جاری ہے تو تم اس پر کیوں اشکال کر رہے ہو؟
قرآن کریم کی تشریح میں حضورؐ کے قول پر حضرت عائشہؓ کا استدلال
اسی پر ایک واقعہ اور عرض کرتا ہوں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے جب بھی کوئی اشکال ہوتا تھا تو میں حضورؐ کی خدمت میں عرض کر دیتی تھی کہ یا رسول اللہ ! یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ اور پھر فرماتی ہیں کہ میں حضورؐ کے سامنے سوال کرتی تھی اور اس وقت تک سوال کرتی رہتی تھی جب تک میں مطمئن نہیں ہو جاتی تھی۔ حضرت عائشہؓ ذہین خاتون تھیں۔ یہ ذہانت ہی ہے کہ بات سے بات نکالی اور مسئلے کا مکمل حل معلوم کیا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا من حوسب عذب (قیامت کے روز) جس کا حساب کتاب ہوگا اسے ضرور عذاب ہوگا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں سن رہی تھی میں نے حضورؐ سے پوچھا، یا رسول اللہ یہ آپ کیا فرما رہے تھے کہ جس کا حساب ہوگا اسے لازماً عذاب ہوگا؟ قرآن کریم تو کچھ اور کہتا ہے اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَّسِیْراً ، وَیَنْقَلِبُ اِلٰی اَھْلِہٖ مَسْرُوْراً جس کو قیامت کے دن نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، اس کا سرسری اور آسان سا حساب ہوگا جس کے بعد وہ خوش خوش گھر والوں کے پاس واپس آئے گا ، بڑا مسرور کہ میں پاس ہوگیا، کامیاب ہوگیا۔
نبی کریم ؐ نے ایک جملے میں ہی معاملہ حل کر دیا۔ فرمایا ذاک العرض یا عائشہ کہ عائشہ جس حساب کی بات قرآن کر رہا ہے وہ حساب نہیں بلکہ صرف پیشی ہے۔ یعنی پیشی تو ہر ایک کی ہونی ہے لیکن وہ لوگ جن کا سرسری سا حساب ہوگا کہ ایک دو سوالات کیے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ جاؤ بھئی ۔ پھر آپؐ نے فرمایا اما من نوقش فقد عذب جس کا مناقشہ (باقاعدہ حساب کتاب ) ہوگا اسے عذاب ہوگا۔
یوں کہہ لیں کہ جس کا ریکارڈ طلب ہوگیا ، جس کا رجسٹر کھل گیا اور جس پر جرح شروع ہوگئی وہ نہیں بچے گا۔ تو حضورؐ نے فرمایا کہ جس حساب کی بات اس آیت میں قرآن کر رہا ہے وہ تو صرف سرسری پیشی ہے۔
ہم لوگ تو سرسری پیشی کے قابل بھی نہیں ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حساب یسیر یعنی سرسری پیشی کیا ہوگی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ دو چار سرسری سوالات ہوں گے۔ فرشتے ایک آدمی کو پیش کریں گے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ ہاں بھئی عقیدہ ٹھیک ہے؟ فرشتے بتائیں گے کہ ٹھیک ہے۔ نماز روزہ وغیرہ؟ وہ بھی ٹھیک ہے۔ اس نے حلال و حرام کا خیال کیا؟ جی کیا۔ کوئی لین دین تو نہیں ہے؟ نہیں ہے۔ بس یہ سرسری حساب ہے۔
میں نے آج کی گفتگو میں اصولی بات یہ عرض کی کہ قرآن کریم کی تشریح میں جناب نبی کریم ؐ کی سنت مبارکہ، آپ کا ارشاد مبارک اور صحابہ کرامؓ کی تشریحات، یہی بنیاد ہیں۔ ایک اور بات پر غور فرما لیں کہ ہم جو اہل السنۃ والجماعۃ کہلاتے ہیں اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہم قرآن کو اور اسلامی احکام کو سنتِ رسول کی روشنی میں اور پھر جماعتِ صحابہؓ کے ارشادات و اعمال کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ یعنی حضورؐ کی سنت کو اور جماعت صحابہؓ کو معیار سمجھنے والے اہل السنت والجماعت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔