بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجلس کے بھی آداب ہوتے ہیں جن کا لحاظ کرنا چاہیے اور کرنا پڑتا ہے، کوئی مجلس کسی بھی سطح کی ہو۔ قرآن مجید نے بھی اس کے آداب بیان فرمائے ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیان فرمائے ہیں، اور صحابہ کرامؓ سے بھی بہت سی باتیں منقول ہیں۔ مثلاً قرآن پاک نے کہا ’’یا ایھا الذین اٰمنوا اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس فافسحوا یفسح اللہ لکم‘‘ مجلس میں اگر رش زیادہ ہے اور تمہیں کہا جائے کہ ذرا کھلے ہو کر بیٹھو تو کھلے ہو کر بیٹھ جایا کرو، تم مجلس میں کشادگی پیدا کرو گے اللہ تمہارے دلوں میں وسعت پیدا کرے گا۔ ’’واذا قیل انشزوا فانشزوا‘‘ جب کسی وجہ سے تمہیں کہا جائے کہ اٹھ جاؤ، تو اٹھ جایا کرو۔ بظاہر اٹھنے میں تمہیں ہتک محسوس ہو گی، لیکن ’’یرفع اللہ الذین اٰمنوا منکم‘‘ (المجادلۃ ۱۱) اللہ کے ہاں درجے بلند ہوں گے۔ اٹھنے سے بہرحال بات محسوس ہوتی ہے، لیکن اللہ کہتا ہے کہ میں درجے بلند کروں گا۔ قرآن پاک نے مجالس کے اور بھی آداب بیان کیے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجلس میں آؤ، اگر اندر جگہ ہو تو بیٹھ جاؤ، ورنہ جگہ جہاں موقع ملے وہاں بیٹھ جاؤ، اور مجلس والوں کو تنگ نہیں کرو۔ بیسیوں آداب ہیں مجلس کے، ان میں سے ایک کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ مجلس میں آ کر کوئی بات کرنی ہے تو پہلے دیکھیں کہ مجلس کا ماحول کیا ہے، یہ گفتگو مجھے ابھی کرنی چاہیے، نہیں کرنی چاہیے، یا کیسے کرنی چاہیے۔ اور آتے ہی سیدھی بات نہ کر دو۔ یہ مجلس کے آداب میں سے ہے۔
اس پر مشہور واقعہ ہے، بخاری شریف کی روایت ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم خاندان والوں کو کہیں جانا تھا، جہاد کا سفر تھا، ہمیں چار پانچ اونٹ چاہیے تھے، ہمارے پاس نہیں تھے۔ اور بیت المال کا نظام یہی تھا کہ کسی کو ضرورت ہے اور اس کے پاس نہیں ہے تو بیت المال پوری کر دیتا تھا۔ مشورہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر گزارش کی جائے کہ یا رسول اللہ ہمیں چار پانچ اونٹ چاہئیں۔ ابو موسٰیؓ کہتے ہیں کہ میری ڈیوٹی لگی اور میں گیا، مجلس لگی ہوئی تھی، سلام عرض کیا اور کہا یا رسول اللہ ہمیں چار پانچ اونٹ چاہئیں، سفر پر جانا ہے۔ فرمایا، میرے پاس نہیں ہیں۔ ابو موسٰیؓ بعد میں کہتے ہیں کہ میں اندازہ نہیں کر سکا کہ حضورؐ کسی وجہ سے غصے میں بیٹھے ہوئے ہیں، میں نے مجلس کے ماحول کا اندازہ نہیں کیا اور سوال کر دیا، یا رسول اللہ! ہمیں اونٹ چاہئیں، ہم نے جانا ہے۔ حضورؐ نے غصے سے فرمایا، خدا کی قسم کوئی سواری نہیں دوں گا۔
کہتے ہیں میں مایوس واپس آ گیا، ابھی خاندان والوں کو بتا رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی کہ عبد اللہ! تمہیں حضورؐ بلا رہے ہیں۔ میں گیا۔ اونٹوں کی جوڑیاں کھڑی تھیں، حضورؐ نے فرمایا یہ (چھ) اونٹ لے جاؤ۔ کہتے ہیں میں نے مہار پکڑی اور چل پڑا۔ بعد میں کسی نے بتایا یا خیال آیا کہ حضورؐ نے تو قسم اٹھائی تھی کہ اونٹ نہیں دوں گا۔ میں واپس گیا اور کہا یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا میرے پاس نہیں ہیں۔ فرمایا، تب نہیں تھے، قیس بن سعدؓ کے باڑے سے منگوائے ہیں۔ یا رسول اللہ! آپ نے قسم اٹھائی تھی۔ فرمایا، میرا معمول یہ ہے کہ میں اگر کوئی قسم اٹھا لوں اور بعد میں اندازہ ہو جائے کہ میری قسم کسی خیر کے کام میں رکاوٹ ہے تو میں قسم توڑ دیتا ہوں اور کفارہ ادا کرتا ہوں۔
یہ واقعہ تو اور پس منظر میں ہے، لیکن میں نے یہاں سے یہ بات بیان کی ہے کہ مجلس میں جا کر کوئی بات کرنی ہے تو ماحول دیکھ بھال کر بات کرنی چاہیے، یہ بھی مجلس کے آداب میں سے ہے۔